"JDC" (space) message & send to 7575

تقسیم اور وحدت

عمر میں پاکستان مجھ سے چند ماہ چھوٹا ہے تو پاکستان سے میرا پیار ’’ہانیوں‘‘ والا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاک وطن نے ہماری نسل کو بے پناہ مواقع فراہم کیے۔ ٹاٹ سکول میں پڑھنے والے کو سفیر بنا دیا۔ اس میں بہت بڑا حصہ میرٹ سسٹم کا بھی تھا جو کہ برطانوی استعمار کی چند اچھی باقیات میں سے ہے۔ بچپن میں مجھے یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں بھارت میرے پیارے پاکستان پر قبضہ نہ کرلے۔ 1965ء کی جنگ ہوئی تو یہ خوف بڑی حد تک غائب ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن 1971ء میں یہ اعتماد پھر کافور ہوگیا۔ 1988ء میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت بن گئے تو وہ اعتماد لوٹ آیا۔ اب دونوں ممالک کے درمیان کسی بڑی جنگ کا خطرہ بھی نہیں ہے۔ میرے ایک ہم کار جو کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر گہری نظر اور تجربہ رکھتے ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہاں جاتے رہتے ہیں۔ وہاں ان کے دوستوں کا وسیع حلقہ ہے۔ اس بار وہ بھارت سے واپس آئے تو میں نے سفر کا احوال پوچھا۔ کہنے لگے کہ انڈین دوست کہہ رہے تھے کہ ہمارے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اتنے مسائل ہیں کہ ہمارا ملک مزید ایک مسلمان بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا پاکستان پر قبضے کی خواہش قصۂ پارینہ ہوچکی۔ چنانچہ پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کے امکانات پچھلے چند سالوں میں کم ہوئے ہیں۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم جمہوری طرز پر ہوئی۔ اب ان چار ممالک کا جائزہ لیتے ہیں جو پچھلی صدی میں تقسیم ہوئے۔ ان میں جرمنی‘ یمن‘ قبرص اور کوریا شامل ہیں اور ہاں یاد آیا کہ ویت نام بھی اسی قسم کے تجربے سے گزر چکا ہے۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اتحادی فوجیں ملک کے چار حصے کرکے وہاں بیٹھ گئیں۔ ایک ملک کے دو ملک بن گئے۔ مشرقی جرمنی روس کے زیر اثر آگیا جبکہ مغربی جرمنی میں امریکی اثر و رسوخ واضح تھا۔ مشرقی جرمنی میں سوشلسٹ نظام تھا جبکہ مغربی جرمنی میں سرمایہ داری نظام اور جمہوریت۔ مغربی جرمنی میں اقتصادی ترقی کی رفتار واضح طور پر زیادہ تھی۔ مغربی حصے میں خوش حالی آئی اور آزادیٔ رائے بھی۔ مشرقی جرمنی سے لوگ بھاگ کر مغربی حصے کی طرف جانے لگے۔ چنانچہ نقل مکانی کے اس عمل کو روکنے کے لیے دیوار برلن بنائی گئی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1990ء میں دونوں ممالک دوبارہ یکجا ہوئے۔ اب انہیں ایک نظام کے تحت یکجا کرنے کا عمل بھی خاصا دشوار اور تکلیف دہ تھا۔ مجھے مشرقی جرمنی کے ایک سابق سفارتکار نے انہیںدنوں بتایا کہ وحدت کے بعد مشرقی حصے کے نوّے فیصد سفارت کاروں کی چھٹی ہوگئی تھی۔ وہ خود فارغ ہونے والے سفارتکاروں میں شامل تھا اور دو شنبے میں اقوام متحدہ کے دفتر میں کسی معمولی عہدے پر کام کررہا تھا۔ یمن کی تقسیم میں اندرونی عداوتیں اور اقتدار کی جنگ کے علاوہ واضح طور پر بیرونی ہاتھ بھی تھا۔ برطانیہ اور سعودی عرب امامت کے پرانے نظام کے حامی تھے جبکہ مصر اور روس سوشلسٹ نظام کے حامی۔ اسی رسہ کشی میں امام کو اقتدار چھوڑنا پڑا لیکن ملک اس قدر کمزور ہوچکا تھا کہ عدن اور جنوبی یمن نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ 1967ء کی بات ہے‘ جنوبی یمن ایک قبائلی معاشرہ تھا اس پر سوشلزم مسلط کردیا گیا۔ لوگوں کے مکان اور دکانیں تک قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ ایک زمانے میں عدن کا شہر اپنی مصروف بندرگاہ اور شاپنگ کے لیے مشہور تھا۔ 1988ء میں تین ہفتے کے لیے وہاں سرکاری ڈیوٹی پر گیا تو عدن کا برا حال تھا۔ کاروبار برائے نام تھا جس ہوٹل میں میں رہا وہ تمام دوسرے ہوٹلوں کی طرح حکومت کی تحویل میں تھا۔ اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے 1990ء میں جنوبی یمن کو شمالی یمن کے ساتھ دوبارہ وحدت کرنا پڑی۔ قبرص 1974ء میں دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ قبرص یونان اور ترکی دونوں سے زیادہ دور نہیں۔ آبادی کی اکثریت یونانی نژاد ہے۔ 1974ء میں یونان نے یہاں صدر مکاریوس کے خلاف انقلاب کرا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ قبرص کو یونان کا حصہ بنا لیا جائے۔ اب ترکی کا ردعمل متوقع تھا۔ شمالی قبرص میں ترک مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ترکی نے اپنی فوجیں اس جزیرے میں بھیج دیں۔ شمالی حصہ جنوبی علاقے سے علیحدہ ہونے لگا۔ مذہب‘ نسل‘ اور زبان کے لحاظ سے دونوں کی شناخت مختلف ہے لیکن رقبے اور آبادی کے لحاظ سے شمالی قبرص بہت چھوٹا ملک ہے اور ترکی کی مدد کے بغیر اس کا آزاد وجود قائم رکھنا مشکل ہے۔ 1983ء میں شمالی قبرص نے باقاعدہ آزاد ملک ہونے کا اعلان کیا۔ دنیا میں صرف دو ملک یعنی ترکی اور پاکستان شمالی قبرص کو آزاد ملک تسلیم کرتے ہیں۔ 2003ء میں جب میں یونان میں تھا تو قبرص یورپی یونین کا ممبر بننے کی تیاری کررہا تھا۔ قبرص والے یورپ کا حصہ بننے کے لیے بے چین تھے۔ انہیں نظر آرہا تھا کہ یورپ سے سرمایہ کاری آئے گی اور قبرص کے باشندے آزادی سے تمام یورپ میں نہ صرف بغیر ویزے کے جاسکیں گے بلکہ وہاں کام بھی کرسکیں گے۔ دلچسپ صورتحال اس وقت بنی جب شمالی قبرص نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی قبرص کے ساتھ مل کر یورپی یونین میں جانا چاہتے ہیں مگر نکوسیا کی حکومت نے اس خواہش کو شرف باریابی نہیں بخشا۔ شمالی اور جنوبی کوریا 1950ء کی دہائی میں جنگ کی وجہ سے علیحدہ ہوئے۔ شمالی کوریا روس اور چین کے زیراثر تھا اور جنوبی امریکہ کے۔ اس وقت دونوں کی اقتصادی صورتحال ملتی جلتی تھی آج دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جنوبی کوریا جمہوریت اور آزاد معیشت کی وجہ سے بہت آگے جا چکا ہے شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیاروں اور ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ کچھ نہیں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مندرجہ بالا چار ممالک کو بیرونی طاقتوں نے علیحدہ کیا جبکہ پاکستان خود بھارت سے علیحدہ ہوا۔ پاکستان رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ بیس سال سے بھارت تعلیم اور ترقی میں پاکستان سے بہت آگے چلا گیا ہے۔ وہاں اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح آٹھ فیصد ہے۔ ہمارے ہاں پچھلے پانچ سالوں میں دوتین فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ توپوں اور ٹینکوں سے نہیں بلکہ یہ جنگ فیکٹریوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں روزانہ ہوتی ہے۔ بھارت اقتصادی اور تعلیمی جنگ جیت رہا ہے اور ہمارے سکولوں میں جانور بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ملالہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو واجب القتل ہوجاتی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں