"JDC" (space) message & send to 7575

وزارتِ خارجہ اور سفارتی ریوڑیاں

جیسے ہی انتخابات کے نتیجے آئے محترمہ شیری رحمن نے واشنگٹن میں استعفے کا اعلان کر دیا اور اخباروں میں امریکہ میں متوقع سفیروں کے نام آنے لگے۔ وزیرخارجہ کے قلمدان کے امیدواروں کے بارے میں بھی ہر قسم کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ اخباروں میں پڑھا کہ سیکرٹری خارجہ تبدیل ہونے کا بھی امکان ہے۔ موجودہ سیکرٹری خارجہ جلیل جیلانی کیلئے یوسف رضا گیلانی سے رشتہ داری بوجھ بن گئی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق واشنگٹن، نئی دہلی، لندن، ریاض اور ابوظہبی میں نئے سفیر جلد بھیجے جانے کا امکان ہے۔ آنے والی قیادت نے ایک فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کیا اسے اہم ممالک میں ایسے سفیر چاہئیں جو ہروقت ان کی آنکھ کے اشارے کے منتظر ہوں‘ جو ان کیلئے بیرون ملک شاندار پروٹوکول کا بندوبست کرسکیں یا ایسے سفیر چاہئیں جو پاکستان کے مفادات کا نہ صرف تحفظ کریں بلکہ ان مفادات کو فروغ بھی دیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سفارشیں سیاسی حریفوں سے جان چھڑانے کیلئے بھی استعمال ہوئی ہیںاور ریٹائرڈ جرنیلوں کو خوش کرنے کیلئے بھی ہماری نئی قیادت‘ جو اتنی نئی بھی نہیںکو اس بات کا ادراک ہوگا کہ ایک جرنیل اور ایک سفارت کار کی تربیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ نئی قیادت کو قریبی عزیزوں کی طرف سے سفارت کی فرمائشیں بھی آئیں گی۔ ان میں سے اکثر و بیشتر لوگ سفارت کاری کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں لیکن جھنڈے والی کار اور ڈالر کمانے کا شوق ہے کہ چین نہیں لینے دیتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے منہ سے سفارتی ریوڑیوں کودیکھ کر رال ٹپک رہی ہے۔ جہاں تک وزیرخارجہ کا تعلق ہے‘ وہ ایسا شخص ہونا چاہیے جس کی ذات میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا سٹریٹیجک وژن ہو اور شاہ محمود قریشی جیسی لچکدار مگر اصول پسند شخصیت۔ بھٹو صاحب پاک چین دوستی کے معمار تھے اور یہ کام انہوں نے بطور وزیرخارجہ کیا تھا۔ ایوب خان کے زیرسایہ بھی اس سویلین وزیر خارجہ کی حیثیت منفرد تھی۔ قریشی صاحب کا کرشمہ یہ تھا کہ ہیلری کلنٹن بھی ان کے ساتھ سر جوڑنے پر آمادہ نظر آئیں۔ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور بین الاقوامی جوڑ توڑ کو سمجھتے تھے۔ نئے وزیر خارجہ کا نصب العین تجارت کا فروغ اور بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان کی طرف رغبت دلانا ہونا چاہیے۔ پاکستان کے خراب امیج کی وجہ سے یہ کام آسان نہیں لہٰذا پاکستان کی اقتصادی سفارت کاری کا امتحان بہت جلد شروع ہونے والاہے۔ سیکرٹری خارجہ‘ وزارت خارجہ کا انتظامی سربراہ بھی ہوتا ہے اور وزیرخارجہ کے پالیسی امور کا مشیر بھی۔ وہ اپنی وزارت کا پرنسپل اکائونٹنگ افسر بھی ہوتا ہے۔ وزیرخارجہ‘ سیکرٹری خارجہ کی مرضی کے بغیر ایک نائب قاصد کی تقرری بھی نہیں کر سکتا۔ دونوں میں تعاون کی فضا ہو تو وزارت اور اس کے افسروں کیلئے اچھا ہوتا ہے۔ سیکرٹری خارجہ فارن پالیسی کی گتھیاں بھی سیاسی قیادت کو سمجھاتا ہے اور مفید مشورے بھی دیتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ سیکرٹری خارجہ وزیر اعظم کوبیرونی دورے کرا کے مٹھی میں بند کر لیتے ہیں۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنتی ہے۔ یہ پالیسی تمام ملکوں میں کئی ادارے مل کر بناتے ہیں مثلاً امریکہ میں وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور تھنک ٹینک سب اپنی سفارشات کانگریس میں امور خارجہ کی کمیٹیوں کو بھیجتے ہیں اور یہاں سے گزرکریہ سفارشات وائٹ ہائوس جاتی ہیں۔ پاکستان میں نیشنل اسمبلی میں خارجہ امور کی کمیٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلی اسمبلی میں اسفندیارولی اس کمیٹی کے صدر تھے اور یہ بہت ہی غیر فعال کمیٹی تھی۔ نئے سیکرٹری خارجہ کو کئی خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے تو وہ اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں کہ سفارت کاری مزے لوٹنے اور ڈالرکمانے کا نام ہے۔ اس کیلئے ہمارے سفارت خانوں کی کارکردگی بہتر بنانا ازبس ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اب دفتر خارجہ کی رائے کو اہمیت ملنی چاہیے۔ سول ملٹری تعلقات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ہندوستان امریکہ اور افغانستان کے حوالے سے پالیسی اب دفتر خارجہ اور قومی اسمبلی میں بننی چاہیے۔ اگرچہ فوجی قیادت کا مشورہ اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن خارجہ پالیسی کے حوالے سے سویلین قیادت کواب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا ہوگا تاکہ کارگل جیسے المیے آئندہ رُونما نہ ہوں۔ پچھلے عشرے میں یہ روایت زور پڑ گئی تھی کہ سیکرٹری خارجہ عام طور پر فارن سروس کا ریٹائرڈ افسر ہوتا تھا۔ ایسے افسروں کو دوسال کے کنٹریکٹ پر اس منصب پر مقرر کیا جاتا تھا اور ایک ماہ کے نوٹس پر انہیں ملازمت سے الگ کیا جا سکتا تھا۔ اس صورت حال میں خارجہ سیکرٹری کنٹریکٹ دینے والوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے۔ اگر یہ روایت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے توڑ دی جائے تو ملک کیلئے اچھا ہوگا۔ اور اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ واشنگٹن بھیجے جانے والے سفیر میں کیا خصائص ضروری ہیں۔ اوّل‘ اسے امریکہ اور وہاں فیصلہ سازی کا بخوبی علم ہو۔ دوم‘ یہ ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنے سفیر پر مکمل اعتماد ہو۔ 2014ء آنے ہی والا ہے۔ افغانستان میں امریکی شکست یقینی ہے‘ اس کا ملبہ پاکستان پر گرے گا اور یہ کہا جائے گا کہ اگر پاکستان سو فیصد ہمارا ساتھ دیتا تو یہ شکست نہ ہوتی۔ نئے سفیر کا پاکستانی فوجی قیادت کیلئے قابل قبول ہونا بہتر ہوگا۔ حسین حقانی کا شروع سے فوجی قیادت کے ساتھ مسئلہ رہا۔ ہمارے سفیر کو امریکی قیادت کی طرف سے اچھی پذیرائی ملنی چاہیے۔ اچھے سفیر جذباتی نہیں ہوتے۔ شیری رحمن کے عرصہ سفارت میں پاک امریکہ تعلقات میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مغربی معاشروں میں صنف نازک سے تعلق رکھنے والی سفیر زیادہ قبولیت پاتی ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جوسمجھتے ہیں کہ وزارت خارجہ والوں کو سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں۔ صاحبزادہ یعقوب خان، جمشید مارکر اور ملیحہ لودھی ہمارے کامیاب سفیر رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فارن سروس نے بھی چند ایک شاندار سفیر پیدا کیے اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا سفیر کو جھگڑالو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ واشنگٹن میں اعلیٰ قیادت کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات ضروری ہیں۔ ہمارے جھگڑالو قسم کے سفارت کار کا ذکر سات سال تک امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رہنے والے StrobeTalbott نے اپنی کتاب Engaging India کے صفحہ نمبر105 پر کیا ہے۔ یہ 1998ء کی بات ہے۔ ٹالبوٹ پاکستان کے دورے پر آیا اور ہماری وزارت خارجہ کے ایک افسر میٹنگ کے دوران اتنے غصے میں آئے کہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے۔ بقول ٹالبوٹ دوسرے لوگوں کو اس سفارت کار کو بٹھانا پڑا۔ کامیاب خارجہ تعلقات ملک کی بقا اور ترقی کیلئے ضروری ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کڑا امتحان بہت قریب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیرخارجہ، سیکرٹری خارجہ اور سفیروں کی تقرریاں بہت سوچ سمجھ کر کی جائیں۔ سفارتی ریوڑیاں بانٹنے سے اجتناب کیاجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں