"JDC" (space) message & send to 7575

مٹی پائو پالیسی

ہم بہت چالاک اور ہوشیار لوگ ہیں۔ انگریز کے دیئے ہوئے میرٹ سسٹم کو ہم نے ایسا گلے سے مروڑا ہے کہ انگریز خود حیران رہ جائیں۔ لیکن چالاک ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سمجھدار اور مخلص بھی ہیں۔ ہم اپنے چہیتوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کے ایسے گُر جانتے ہیں کہ اگر اس شعبدہ بازی کی تربیت کا کوئی ادارہ پاکستان میں قائم ہوجائے تو کئی ملکوں سے لوگ یہ فن سیکھنے وطن عزیز آئیں گے‘ لیکن کسی کو احساس نہیں کہ اس فن میں مہارت حاصل کرکے ہم اپنے ملک کو کھوکھلا بھی کررہے ہیں۔ سیاق وسباق کی خاطر یہ بتاتا چلوں کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے آخری ایام میں بیرون ملک ٹریڈ افسروں کا انتخاب ہوا۔ انتخاب یعنی سلیکشن کے عمل کو شفاف ظاہر کرنے کے لیے لاہور کی نجی شعبے کی معروف یونیورسٹی کے ذریعے تحریری ٹیسٹ کا بندوبست کیا گیا۔ 270امیدواروں نے ٹیسٹ دیا اور دوسوکامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد انٹرویو کا مرحلہ آیا۔ یقینا کچھ چہیتوں کے تحریری ٹیسٹ میں کم نمبر آئے ہوں گے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ انٹرویو کے نمبر ستر فیصد ہوں گے جبکہ تحریری ٹیسٹ کے تیس فیصد ۔ اس نادر فارمولا کے تحت آپ کسی بھی نالائق شخص کا انتخاب بالکل میرٹ کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔ دے دی نا انگریز کو مات۔ انہیں بڑا فخر تھا کہ ہم نے برصغیر میں میرٹ سسٹم رانج کردیا ہے۔ اب یہ ٹریڈ افسر میرٹ کی بنیاد پر سلیکٹ ہوکر بیرون ملک سفارت خانوں میں جاچکے ہیں۔ سینٹ کی امورخارجہ کی کمیٹی میں یہ مسئلہ حال ہی میں زیربحث آیا۔ کمیٹی کی صدارت سینٹر حاجی عدیل خان کررہے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ نظریہ ضرورت کے تحت اس مسئلے پرمزید بحث نہ کی جائے کیونکہ یہ لوگ باہر جاچکے ہیں۔ یعنی ’’مٹی پائو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔ اس سے تو یہی بات پھر ثابت ہوگئی کہ باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے ہماری اشرافیہ ایک ہے خواہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں نظر آئے۔ اب اس بات کی تشریح ضروری ہے کہ ٹریڈ افسر سفارت خانہ میں کیا کرتا ہے۔ ٹریڈ افسر جسے ٹریڈ کمشنر، کمرشل اتاشی اور کمرشل کونسلر بھی کہا جاسکتا ہے پاکستان کی برآمدات کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ یعنی اس ملک میں پاکستانی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرتا ہے۔ مارکیٹنگ اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ فلاں ڈی سی نے اپنے ضلع میں سیاسی آقائوں کو خوش رکھا ہے لہٰذا اسے باہر کسی اچھے سے دارالحکومت میں ٹریڈ افسر لگادیا جاتا ہے۔ ڈی سی صاحب کے لیے یہ تین سال آرام اور تفریح کے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کافی عرصہ پہلے ٹریڈ سروس بنائی گئی تھی تاکہ بیرون ملک اس سروس کے لوگوں کو ہی برآمدات کے فروغ کے لیے بطور ٹریڈ افسر بھیجا جائے لیکن کچھ طاقتور کیڈرز (Cadres) نے یہ تجربہ کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ہمارے ہاں میرٹ اور Professionalismکا گلہ گھونٹنا عام سی بات ہے۔ ٹریڈ افیسر کا کام اب خاصا ٹیکنیکل ہوگیا ہے۔ اسے میزبان ملک کی Tarrif Regimeیعنی کسٹم ڈیوٹیوں اور ان ڈیوٹیوں کے علاوہ Non Tarrif barriers کا مکمل علم ہونا چاہیے۔ اسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تمام قوانین ازبر ہونے چاہیں۔ وہ اگر یورپ میں ہے تو اسے کوٹہ سسٹم Anti dumping Lawکا مکمل علم ضروری ہے۔ پاکستانی مصنوعات کی نمائش منعقدکرنا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ انڈیا نے اپنے سفارت خانوں میں ٹریڈ افسر کبھی باہر کی سروس سے نہیں لیے۔ وہاں کوئی ڈپٹی کمشنر کمرشل کونسلر نہیں بن سکتا۔ ہندوستان والے اپنی فارن سروس کے افسروں کو شروع سے برآمدات کے فروغ کی تربیت دیتے ہیں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے جب میں یونان میں سفیر تھا تو ہمارے سفارت خانہ میں کوئی ٹریڈ افسر نہیں تھا۔ وہاں ہوٹل ہلٹن میں پاکستانی مصنوعات کی تین روزہ نمائش ہوئی۔ محترمہ سلیمہ ہاشمی خاص طورپر Interior Design کے لیے آئی تھیں۔ ساتھ ہی اسی ہوٹل میں پاکستانی فیشن ڈیزائن کی ترویج کے لیے فیشن شومنعقد کیا گیا۔ پاکستانی ماڈلز کی قیادت ونیزہ احمد نے کی۔ ڈائرکشن حسن شہریار یٰسین کی تھی۔ فیشن شو کے دوران تین سو یونانی تاجروں کو ڈنر بھی دیا گیا جس کے لیے PIAنے خاص طورپر شیف (Chef)کراچی سے بھیجا۔ یونانی تاجر ہماری مصنوعات سے بھی متاثر ہوئے اور فیشن شو دیکھ کر تو خوشگوار حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ ڈنر کے بعد اکثر میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئے ۔ عمومی رائے یہ تھی کہ سفیر صاحب ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کے ملک پاکستان میں صرف لڑائی مارکٹائی ہوتی ہے‘ ہمیں آج پتہ چلا کہ پاکستان کو دوسرے زاویوں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک یونانی دوست نے کہا کہ سفیر صاحب آپ نے اتنا اچھا پاکستانی کھانا کھلایا‘ اگر کچھ شراب بھی ساتھ ہوتی تو مزہ دوبالا ہوجاتا۔ میں نے جواب دیا کہ مہمانوں کو شراب پیش کرنا ہماری قومی پالیسی نہیں۔ معاف کیجیے میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ ٹریڈ پروموشن یعنی برآمدات کا فروغ خاصی فنی چیز بن گئی ہے۔ اس موضوع پر ہزاروں ڈالر خرچ کرکے ماہرانہ رپورٹیں بنتی ہیں۔ لیکن بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مارکیٹنگ کی کوشش اہم ہے مگر جب تک آپ کا ملک ڈیلیوری، قیمت اور کوالٹی میں دوسرے ممالک کا مقابلہ نہیں کرے گا آپ اچھے نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ اب لوڈشیڈنگ نے ہی ہماری برآمدات کے ڈیلیوری شیڈول کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے وہ ملک اٹھائیں گے جو ہمارا مقابلہ کررہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ کی جنگ بہت بے رحم ہے اور لائق ٹریڈ افسر اس جنگ میں ہمارا ہراول دستہ ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے دور میں بھیجے گئے ٹریڈ افسر پورس کے ہاتھی ثابت نہ ہوں۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے میرے بیٹے نے امریکی فارمیسی بورڈ کا امتحان دینے جانا تھا۔ اس امتحان میں بیٹھنے کی پہلی شرط یہ تھی کہ ٹوفل TOEFLکا ٹیسٹ اچھے نمبروں سے پاس کیا ہو۔ یہ انگریزی زبان کی استعداد کا ٹیسٹ ہے جوکہ پاکستان میں بھی منعقد ہوتا ہے۔ امتحانی پرچے یعنی سوال امریکہ ہی سے آتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ بیٹا آرام سے پاکستان میں ٹوفل کا ٹیسٹ دے کر امریکہ چلا جائے گا لیکن امریکن فارمیسی بورڈ نے کہا کہ ہمیں پاکستان سے پاس کردہ ٹوفل ٹیسٹ کے نتائج قابل قبول نہیں۔ لہٰذا اس عام سے ٹیسٹ کے لیے بھی بیٹے کو امریکہ بھیجنا پڑا۔ خلیج کے ایک بہت بڑے اور پاکستان دوست ملک کے سفیر سے ابھی حال ہی میں میری ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ ہم برادر ملک پاکستان سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر اور انجینئر لینا چاہتے ہیں لیکن مشکوک ڈگریاں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہر ڈگری کو جانچ پڑتال کے لیے بھیجنا پڑتا ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔ تو جناب ہماری بندرجیسی چالاکی قومی سطح پر ہمیں بہت مہنگی پڑ رہی ہے اور مزید پڑے گی۔ 65سال کی مٹی ڈالو والی پالیسی ہمیں یہاں تک لے آئی ہے۔ سنا ہے کہ ٹریڈ افسروں کی تقرری کا معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ آیا اس میں امتحان اور انٹرویو کے طریقہ کار کو بھی چیلنج کیا گیا ہے یا نہیں۔ ایک سادہ سی تجویز ہے کہ اسی امتحان میں تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے نمبروں کا تناسب سی ایس ایس والا کردیں۔ فوراً پتہ چل جائے گا کہ کون سفارش سے یا مٹھی گرم کرکے باہر گیا ہے۔ سفارت خانوں میں تمام عہدے حساس اور اہم ہیں۔ اپنی دفاعی لائن کے ہراول دستے میں مشکوک لوگ نہ بھیجیں۔ جو چلے گئے ہیں ان کی تحقیق قومی مفاد کا تقاضاہے ۔ مٹی پائو والی پالیسی کو دفن کرکے اب اس کی پختہ قبر بنانی چاہیے تاکہ یہ باہر نہ نکل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں