"JDC" (space) message & send to 7575

جمہوری کلچر

جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں۔ یہ ایک رویے کا نام ہے‘ ایک کلچر کا نام ہے۔ جمہوری رویے کا ایک بڑا ٹیسٹ یہ ہے کہ حکمران خود قوانین کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ عوام شرفا کو ووٹ دیتے ہیں یا جگے ڈاکو کو ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکمران اپنے احتساب کے لیے تیار رہتے ہیں یا ہربات میں استثنیٰ کی رٹ لگاتے ہیں۔ جمہوری رویے آہستہ آہستہ سیکھے جاتے ہیں۔ جمہوری کلچر کو مضبوط ہونے میں لمبا عرصہ لگتا ہے۔ سخت سے سخت تنقید کو تحمل سے سننا جمہوریت ہے۔ دوسروں کے نقطۂ نظر کا احترام جمہوری کلچر ہے۔ معاف کیجیے گا تعارف ذرا ثقیل ہوگیا۔ ہرملک اور ہرمعاشرے میں جمہوری کلچر مضبوط سے لے کر کمزور ہونے کے مختلف درجات میں ہوسکتا ہے ۔ دراصل اس موضوع پر لکھنے کا خیال مجھے اس وقت آیا جب پچھلے دنوں یورپ میں یہ سوال پوچھا گیا کہ اٹلی کے سابق وزیراعظم برلسکونی (Barlusconi)اگر برطانیہ میں ہوتے تو کیا وزیراعظم منتخب ہوسکتے تھے۔ برلسکونی بہت ہی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ تیس چالیس سال پہلے رئیل اسٹیٹ یعنی جائیداد کے کاروبار میں یکایک امیر ہوگئے۔ اپنا میڈیا گروپ تشکیل دیا۔ جس کے اخبار بھی ہیں اور ٹی وی چینلز بھی۔ کئی مقدمات کا سامنا کرچکے ہیں۔ ان میں سرکاری راز اپنے اخبار کو دینے کا کیس بھی تھا۔ ٹیکس چوری میں بھی سزاسنائی گئی۔ اب تازہ ترین کیس جس میں برلسکونی کو سات سال قید کی سزاسنائی گئی ہے وہ ایک کم سن طوائف سے تعلقات کے متعلق ہے۔ اٹلی میں عصمت فروشی جرم نہیں۔ دنیا کے اس قدیم ترین پیشہ کو اٹلی میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ میں 2004ء میں اٹلی سرکاری دورے پر گیا تھا۔ مجھے عرصہ دراز سے شام کو سیر کرنے کی عادت ہے۔ جب میں روم میں اپنے ہوٹل سے قریب ترین پارک کی طرف نکلتا تھا تو راستے میں درجنوں دلال قسم کے لوگ لڑکیوں کی تصویروں سے بھری البم لے کر کھڑے نظر آتے تھے۔ روم کے کچھ حصوں میں یہ لعنت تکلیف دہ حدتک پائی جاتی ہے چنانچہ برلسکونی صاحب پر یہ الزام نہیں کہ دوسال قبل جب وہ وزیراعظم تھے تو ان کے ایک طوائف کے ساتھ تعلقات تھے بلکہ الزام صرف یہ ہے کہ طوائف کی عمر اس وقت صرف سترہ سال تھی۔ موصوفہ کا نام ماہ ردج ہے اور ان کا اصل وطن مصر ہے۔ اٹلی کے لوگوں نے تین مرتبہ برلسکونی کو وزیراعظم منتخب کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے اٹلی کے لوگ اوباش قسم کے آدمی کو ووٹ دینے کو برا نہیں سمجھتے جبکہ برطانیہ میں یہ ممکن نہیں کہ اس قسم کا شخص وزیراعظم بن سکے۔ ثابت یہ ہوا کہ برطانیہ کا ووٹر زیادہ سمجھ دار ہے اور وہاں کا سیاسی کلچر اٹلی سے بہت آگے ہے۔ اور اب آتے ہیں وطن عزیز کی طرف۔ چند ہفتے پہلے اخبار میں پڑھا کہ نیب (NAB)نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو غالباً توقیر صادق کی تقرری کے بارے میں بلایا۔ موصوف نے نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا اور دلیل یہ دی کہ بطور وزیراعظم مجھے ہرقسم کی تقرری کرنے کا حق تھا اور اب مجھے سوال جواب سے استثنا حاصل ہے۔ یعنی ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے لہٰذا ہمیں چمڑے کے سکے چلانے کا اختیار ہے اور اقتدار ختم ہو جانے کی صورت میں تمام عمر استثناء حاصل ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اٹلی کے سابق وزیراعظم نے یہ نہیں کہا کہ بطور منتخب حکمران مجھے حق حاصل تھا کہ جس کو چاہوں سرکاری معلومات فراہم کردوں‘ یا یہ کہ بطور وزیراعظم کم ٹیکس دینا میرا استحقاق تھا۔ پس ثابت ہوا کہ اٹلی کا جمہوری کلچر ہم سے میلوں آگے ہے۔ ہم چونکہ ابھی تک جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرے سے پوری طرح نکل نہیں پائے لہٰذا ہمارے رویّے خاصی حدتک غیرجمہوری ہیں۔ مزارعے نے ووٹ کس کو دینا ہے اس بات کا فیصلہ جاگیردار کرتا ہے ۔ کاروکاری کے جھگڑوں کے فیصلے عدالتوں کی بجائے پنچایت اور جرگہ میں ہوتے ہیں۔ باپ بچوں کو بتاتا ہے کہ تم ڈاکٹر بنو گے اور تم انجینئر ۔ نوجوانوں کی شادی اور رشتوں کے فیصلے بھی والدین ہی کرتے آئے ہیں۔ دیہات میں پسند کی شادیوں پر قتل ہوتے ہیں یعنی ہمارا جمہوری کلچر ابھی طفل مکتب ہے۔ البتہ یہ بات امید افزا ہے کہ اس طفلِ مکتب نے پچھلے چند سالوں میں کافی کچھ سیکھ لیا ہے۔ ہندوستان میں چونکہ جمہوری عمل تسلسل سے جاری ہے لہٰذا ان کا جمہوری کلچر پاکستان سے آگے ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ بطور وزیراعظم میں سیاہ وسفید کا مالک ہوں اور مجھے مکمل استثناء حاصل ہے۔ البتہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ ہندوستانی عوام نے بھی ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وہاں کئی ریاستوں میں اب بھی لوگ جرائم پیشہ سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں اور یہ وبا ہریانہ‘ اترپردیش اور بہار میں عام ہے۔ یوپی میں ایسے ہی جرائم پیشہ ایک سیاست دان پانچ مرتبہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں اور وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں جمہوریت کے تسلسل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ عام طبقے کے لوگوں نے برہمن کی سیاست پر اجارہ داری ختم کردی ہے۔ یہ لالوپرشاد یادیو‘ مایا دتی اور ملائم سنگھ یا دیو تمام نچلے اور عوامی طبقے کے لوگ ہیں۔ انہیں جمہوری نظام سے اتنا فائدہ ہوا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہٰذا یہی لوگ جمہوریت کے اس وقت ہندوستان میں بڑے محافظ ہیں۔ ہندوستان میں جمہوریت پر کاری ضرب اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے ذریعہ لگی تھی۔ لیکن وہ تجربہ اتنا ناکام ہوا کہ دوبارہ کسی کو جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہندوستان کے عوام نے اپنی ووٹ کی طاقت سے اندرا گاندھی کی پالیسی کو رد کیا گوکہ وہ 1971ء کی جنگ کی سیاسی ہیروین تھیں۔ پاکستان میں آج بھی آفریدی آفریدی کوووٹ دیتا ہے‘ ارائیں آرائیں کو اور جاٹ جاٹ کو۔ یہ جمہوری کلچر کے ناپختہ ہونے کی دلیل ہے۔ جمہوریت کی تعریف عرف عام میں وہ نظام ہے جوکہ عوام کی حاکمیت پر مبنی ہو اور عوام کی فلاح وبہبود کو یقینی بنائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ پیرزادہ یوسف رضا گیلانی جس استثنا ء کی بات کرتے ہیں اس کا دستورِ پاکستان میں ذکر ہی نہیں۔ آئین میں استثناء صرف صدر مملکت اور گورنر صاحبان کو حاصل ہے اور وہ بھی اقتدار ختم ہونے کے ساتھ ہی کافور ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری رویوں کو تقویت دینے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب مزید جمہوریت آئے گی اور الیکشن ہوں گے۔ 2013ء کے الیکشن میں کچھ کچرا صاف تو ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں