"JDC" (space) message & send to 7575

پاک برطانیہ تعلقات

برطانیہ کی عالمی حالات پر گہری نظر ہے۔ برصغیر کی حساس صورت حال ہو یا افغان مسئلے کی گتھیاں برطانیہ ان باتوں کو امریکہ سے بھی بہتر جانتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں پے در پے غلطیوں کے بعد ویسے بھی امریکہ اپنی اندرونی صورت حال کو درست کرنے پر زیادہ مائل نظر آتا ہے‘ اس لیے کہ بیرونی مہم جوئی سے اس کی معیشت ایک بڑے صدمے کا شکار ہوئی ہے۔ ہمارے خطے میں پسپائی کے بعد لگتا ہے کہ امریکی واپسی کے خلا کو کسی حد تک برطانیہ پُر کرے گا۔ پاکستان اور برطانیہ کئی لحاظ سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ آپ برطانوی ہائی کمشن اسلام آباد کے ویزہ سیکشن جائیں تو ذرا رش کو ملاحظہ فرمائیں۔ وہاں اردو اور انگریزی کے علاوہ پنجابی پوٹھوہاری اور ہندکو میں بھی اعلان ہوتے ہیں۔ برطانوی تعلیمی اداروں میں بہت سارے پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ وہاں پاکستان سے ہجرت کر کے گئے ہوئے افراد کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ تجارتی اور ثقافتی لحاظ سے بھی برطانیہ پاکستان کے لیے اہم ہے۔ لندن دنیا کے چند ایک اہم مالی مراکز میں شامل ہے۔ بین الاقوامی ہجرت میں زبان بنیادی کردار ادا کرتی ہے لہٰذا آپ نے دیکھا ہوگا کہ پاکستانی زیادہ تر امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ کا رُخ کرتے ہیں۔ 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد مغربی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں منفی تاثر پیدا ہوا۔ میں اُس وقت یونان میں سفیر تھا۔ یونان میں امریکہ مخالف جذبات موجود تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں یونانی ٹی وی چینلز پر میرے کافی انٹرویو نشر کیے گئے۔ زیادہ تر اینکر مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے تھے کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے جو بیج بوئے تھے وہی فصل کاٹی ہے۔ لیکن سفارت کار عمومی طور پر محتاط ہوتے ہیں۔ اُن کے منہ سے اپنی پسند کے الفاظ سُننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ برطانیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ برطانوی عوام عمومی طور پر بیرونی مہم جوئی کے خلاف تھے۔ خاص طور پر عراق کی جنگ میں کودنے کے وہ بہت خلاف تھے۔ اس وقت وزیراعظم ٹونی بلیئر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کے بعد برطانیہ اور سپین میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے اُن کے باعث مغربی حکومتوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ مسلمان مجموعی طور پر رجعت پسند ہیں۔ ترقی اور ارتقا کے خلاف ہیں۔ مغرب نے چونکہ فکری اور مادی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے لہٰذا مسلمان مغرب کے خلاف ہیں۔ وہ جمہوریت کو پسند نہیں کرتے اور مخالف نقطہ نظر سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ اس اسلام مخالف پراپیگنڈے کا ایک بڑا ہدف پاکستان تھا جس کے بارے میں ڈیوڈ کیمرون نے چند سال پہلے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ وہی ڈیوڈ کیمرون پچھلے ہفتے سرکاری دورے پر پاکستان آئے تو یہاں کے حکام کے ساتھ شیر و شکر ہو رہے تھے۔ لہجہ بدلا ہوا تھا یہاں تک کہا کہ پاکستان کے دشمن برطانیہ کے بھی دشمن ہیں۔ باہمی تجارت کو دو سال میں تین بلین پائونڈ تک بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا اور اسلام آباد اور کابل کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے لیے پاکستان آسان اور مختصر ترین راستہ ہے۔ ہم سادہ لوح اور جذباتی لوگ ہیں۔ جب برطانیہ کا وزیراعظم اسلام آباد آ کر کہتا ہے کہ آپ کے دشمن ہمارے دشمن ہیں تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے کہ اب برطانیہ بھارت کے خلاف ہو جائے گا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ بات برطانوی وزیراعظم نے صرف اور صرف دہشت گردی کے سیاق میں کی ہے۔ ایک زمانے میں سلطنت برطانیہ میں کسی نہ کسی جگہ سورج ضرور روشن رہتا تھا۔ اب برطانیہ واپس اپنے جزیرے میں محدود ہو گیا ہے۔ لیکن انگریز بہادر کی اب بھی عالمی اہمیت ہے۔ برطانیہ سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور یورپی یونین کا اہم ممبر‘ پاکستان کی بیشتر ٹیکسٹائل‘ چمڑے کی مصنوعات اور سامان جراحی یورپ جاتا ہے۔ اب برطانیہ کی کوشش ہے کہ پاکستانی برآمدات ترجیحی بنیادوں پر یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر لیں۔ میں چھ سات مرتبہ انگلستان گیا ہوں لیکن اکثر و بیشتر ذاتی حیثیت میں۔ صرف ایک دورہ سرکاری یا نیم سرکاری نوعیت کا تھا اور اس دورے میں‘ میں نیشنل ڈیفنس کالج‘ جو کہ اب یورنیورسٹی بن چکا ہے‘ کے وفد میں شامل تھا۔ یہ دورہ تعلیماتی نوعیت کا تھا۔ اس دوران برطانیہ کے مختلف سول اور ملٹری اداروں میں جانے کا موقع ملا۔ ان سب اداروں کا معیار بہت اعلیٰ درجے کا تھا۔ آپ لندن کے سائوتھ ہال میں چلے جائیں یا بریڈ فورڈ یا گلوسگو آپ کو یہ گمان گزرے گا کہ پاکستان میں پھر رہے ہیں۔ ان میں سے ننانوے فیصد لوگ بے حد امن پسند ہیں اور برطانوی قانون کا مکمل پاس کرتے ہیں لیکن ایک چھوٹی سی اقلیت انتہا پسندی کے جراثیم بھی رکھتی ہے۔ اس مرض کا علاج دونوں حکومتوں کا کام ہے۔ یہ تقریباً سب کے سب برطانوی شہری بن چکے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کرنا اور انہیں صحیح تربیت دینا برطانوی حکومت کا فرض ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب یہ لوگ پاکستان آئیں تو انتہا پسندوں سے دور رہیں۔ ہم ایک بین الاقوامی گائوں میں رہتے ہیں۔ دنیا میں کسی جگہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کرتا ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہمیں برطانیہ سے انٹیلی جنس یعنی معلومات کا تبادلہ بھی کرنا پڑے گا اور اپنے سکیورٹی اداروں کی استعداد بڑھانے کے لیے اپنے لوگوں کو تربیت کے لیے وہاں بھیجنا ہوگا۔ برطانیہ میں موجود پاکستانی اور دوسرے لوگ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن وہ سکیورٹی صورت حال اور بجلی کی آنکھ مچولی کی وجہ سے نہیں آ رہے۔ سرمایہ کاری سے ہمارے لوگوں کو روزگار ملے گا اور انتہا پسندی کم ہوگی۔ ہمیں برطانیہ کو یہ بھی باور کرانا کہ جو انتہا پسند تنظیمیں پاکستان میں کالعدم قرار پا چکی ہیں اُن کی سرگرمیاں برطانیہ میں بھی ہماری سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس دورے کی سب سے اچھی خبر میرے لیے یہ تھی کہ ایک عرصے کے بعد کراچی اور لاہور میں برٹش کونسل لائبریریاں دوبارہ کھلیں گی۔ میں نے 1971ء میں سی ایس ایس کی تیاری برٹش کونسل لاہور میں بیٹھ کر کی تھی۔ بہت اچھی لائبریری تھی۔ پاک برطانیہ تعلقات میں متوقع بہتری ایک خوش گوار تاثر کو جنم دے رہی ہے۔ دونوں جمہوری ملک ہیں اور نوازشریف حکومت کا سب سے پہلا وزیراعظم کی سطح کا مہمان اُس ملک سے آیا جہاں جمہوریت صدیوں سے قائم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں