"JDC" (space) message & send to 7575

ساحل نیل لہو لہو

مجھے مصر چھوڑے ہوئے زمانہ بیت گیا لیکن انس و محبت کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ مصری سفارت کاروں سے جب بھی دوستی ہوئی وہ سالوں چلی۔ مصری طبعاً ہنسنے ہنسانے والے اور محفل ساز لوگ ہیں۔ پاکستان اور مصر کے رشتے میں دوستی بھی نظر آتی ہے اور مسابقت بھی۔ مصر‘ جمال عبدالناصر کے زمانے سے ہندوستان کے قریب رہا۔ خلیج کی ریاستوں میں افرادی قوت کے حوالے سے بھی مجھے پاکستان اور مصر میں واضح مسابقت نظر آئی۔ لیکن بات مصری لوگوں کی ہورہی تھی۔ میرا تجربہ ہے کہ مصری اور پا کستانی فوراً گھل مل جاتے ہیں۔ دونوں کی طبیعت خاصی ملتی ہے۔ مصری لطیفے پوری عرب دنیا میں چلتے ہیں۔ عرب دنیا میں مصر کی کلیدی پوزیشن ہے۔ لہٰذا مصر میں ان دنوں فوج کے ہاتھوں عوام کا قتل عام پورے عالم اسلام پر گہرے اثرات چھوڑے گا۔ جب جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو میں دمشق میں تھا۔ میرے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں مسٹر دوریش مصری رہتے تھے جن سے حسب توقع میری دوستی چند ہی روز میں ہوگئی۔ درویش صاحب نے مجھ سے استفسار کیا کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ میں نے سرکاری سا جواب دیا کہ بس نوے دن کی بات ہے‘ جنرل صاحب الیکشن کرا کے چلے جائیں گے۔ مسٹر درویش مسکرائے اور کہنے لگے کہ جنرل جانے کے لیے نہیں آیا کرتے۔ انہیں اپنے ملک میں اس بات کا خوب تجربہ تھا۔ مصر فرعونوں کے زمانے سے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کی حکومت دیکھ رہا ہے۔ صدر مرسی پہلے جمہوری حکمران تھے جو مصریوں کو راس نہیں آئے۔ مصر میں جمہوری روایت خاصی کمزور ہے۔ ٹوکیو میں مصر کے سفیر ہشام الزمیتی گزشتہ دس برس سے میرے دوست ہیں۔ ان سے فیس بک کے ذریعے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان کا موقف ظاہر ہے کہ سرکاری ہے۔ فرماتے ہیں کہ مصر کو تباہی سے بچا لیا گیا ہے۔ میرا تخمینہ ہشام کے بالکل الٹ ہے۔ میرے خیال میں مصر اب بہت ہی غیر یقینی صورت حال میں داخل ہوگیا ہے۔ صدر عدلی منصور اور وزیراعظم حازم ببلاوی فقط فوج کے ہاتھ میں مہرے ہیں۔ جو خون کی ہولی مصر میں کھیلی گئی ہے اس سے پوری دنیا میں شور برپا ہے۔ صدر اوباما نے پورے شدومد سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے لیکن میرے خیال میں امریکہ کا موقف دوغلا ہے۔ امریکہ نے صرف لفظی مذمت پر ا کتفا کیا ہے۔ مصر کی فوجی امداد بند کی نہ پابندی لگانے کا عندیہ دیا۔ ترکی کا موقف بہت واضح ہے جس نے قاہرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ یورپی ممالک میں بھی ردعمل منفی ہوا ہے۔ لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان نے اپنا نقطۂ نظر بہت صراحت سے بیان کیا ہے۔ قومی اسمبلی نے مصر میں حالیہ ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اورجمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ شاید سعودی عرب کی وجہ سے پاکستان اپنا ردعمل دھیما رکھے لیکن پاکستانی حکومت کا واضح موقف خوش آئند ہے۔ لگتا ہے کہ مصر میں معاملات بہت الجھ گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے خلاف روزانہ بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلتے ہیں۔ اخوان کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنا بے حد آسان ہے۔ نماز ظہر یا جمعہ کے لیے آنے والوں کو صرف اتنا بتانا ہوتا ہے کہ بڑا اجتماع یا مظاہرہ کس جگہ ہوگا۔ ایس ایم ایس نے یہ معاملہ بہت آسان کردیا ہے۔ اخوان کے ساتھ اب جمہوریت کے حامی سیکولر عناصر اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مظاہروں میں شامل ہورہی ہیں۔ سب سے اچھا حل تو یہ ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں مگر ان میں اخوان کے دوبارہ جیتنے کا امکان واضح ہے اور اگر اخوان پر الیکشن میں حصہ لینے کی پابندی عائد کر دی جائے تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ آج کل رات کے وقت مصر کے تمام بڑے شہروں میں کرفیو ہوتا ہے۔ اخوان کے مطابق 2600 افراد مارے گئے ہیں جبکہ حکومتی اعداد و شمار اس سے ایک تہائی ہیں۔ مرنے والوں کی تعداد جو بھی ہو‘ مصر کے تمام شہروں میں غم و غصہ صاف نظر آتا ہے۔ پچھلے جمعہ کو یوم الغضب کا نام دیا گیا۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جرائم پسند لوگ دونوں جانب شامل ہوگئے ہیں۔ ان کا مقصد صرف لوٹ مار ہے۔ کئی نقاب پوش نوجوان اسلحہ لیے گھوم رہے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر اس لیے بھی دکھ ہوتا ہے کہ قاہرہ بے حد پرامن شہر ہوتا تھا۔ مصری اکثرکہتے تھے کہ پاکستانی حکومت انتہا پسندوں سے تساہل سے کام لیتی ہے۔ حسنی مبارک اورانور سادات کے مصر میں ایمن الظواہری کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں شخصی آزادیوں پر عرصے سے قدغن تھی۔ چنانچہ عرب سپرنگ میں بڑا مطالبہ یہی تھا کہ عوام آزادیٔ رائے مانگ رہے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ حکومتی ادارے اور کارندے ان سے غیرت و احترام سے پیش آئیں لیکن موجودہ افسوسناک صورت حال کی وجہ سے عرب بہار کے تمام خواب کافور ہوچکے ہیں۔ مصر چونکہ عرب دنیا کا دل ہے لہٰذا باقی عرب ممالک پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ میں مصر کے سرکاری ٹی وی کے ذریعہ وزیراعظم البرادعی کی تقریر سن رہا تھا۔موصوف نے صاف لفظوں میں کہا کہ مصر میں نہ فوجی حکومت چل سکتی ہے اور نہ مذہبی۔ مجھے ان کی بات میں وزن نظر آیا۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کا خاصہ اثر ورسوخ ہے لیکن فوجی حکومت والی بات سمجھ نہیں آئی۔ موجودہ حکومت نے سویلین چہروں کو آگے کردیا ہے جبکہ ان کٹھ پتلیوں کی ڈور فوج کے ہاتھ میں ہی ہے۔ لیکن مصری عوام چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ دونوں طرح کی فوجی حکومتوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا نے مصری حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ عرب امارات اور اردن نے سعودی بیان کی تائید کی ہے۔ سعودی اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان ہمارے دائیں بازو کی مانند ہے اور مصر بائیں بازو کی مانند۔ پاکستانی معاشرہ چونکہ نسبتاً زیادہ آزاد ہے لہٰذا پاکستان میں اپنے مسائل سے نپٹنے کی استعداد زیادہ ہے۔ مصر کے برعکس پاکستانیوں نے پانچ سال تک ایک ایسی منتخب حکومت کو برداشت کیا جس کی پرفارمنس بہت ہی کمزور رہی۔ آنجہانی انور سادات نے اپنی سوانح عمری میں مصر کو انسانی تہذیب کی جنم بھومی قرار دیا ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں حضرت موسیٰؑ نے جنم لیا اور فرعون کے گھر میں پرورش پائی۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں حضرت زلیخا رہتی تھیں۔ وہ کنواں جس میں حضرت یوسفؑ کو قید رکھا گیا وہ میں نے دیکھا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں جلیل القدر فقیہ امام شافعیؒ مدفون ہیں۔ دنیوی طور پر دیکھا جائے تو یہ اہرام مصر کی سرزمین ہے جہاں فرعون اپنے قیمتی اموال کے ساتھ دفن ہوتے تھے‘ اس خیال سے کہ یہ مال اگلے جہان میں بھی کام آئے گا۔ آج وہ اشیاء عجائب گھروں کی زینت ہیں۔ آریہ مہر شہنشاہ ایران قاہرہ کی ایک عام سی قبر میں دفن ہیں جس کا اکثر لوگوں کو علم ہی نہیں۔ کمال شہرت کے زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ کلیوپٹرا(CLEO PATRA) کا دیس ہے۔ نجیب محفوظ کا وطن ہے جس نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔ عمرشریف کا دیس ہے جس نے فن تمثیل میں بڑا نام کمایا۔ یہ ڈاکٹر مجدی یعقوب کا ملک ہے جو قلب کی جراحی کے بانیوں میں سے ہیں۔ سب سے بڑھ کر میرے لیے مصر خوش دل لوگوں کی سرزمین ہے جو مشکل سے مشکل اوقات میں بھی لطیفہ گوئی ضرور کرتے ہیں۔ آج یہ ملک ذہنی طور پر تقسیم ہوچکا ہے۔ دریائے نیل کا پانی انسانی خون کی ارزانی سے سرخ ہورہا ہے لیکن اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ پھر سے کسی موسیٰؑ صفت انسان کو مصر بھیج دیں جو وقت کے فرعونوں کو راہ راست پر لے آئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں