"JDC" (space) message & send to 7575

ایتھنز کی مسجد

استنبول دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ایک تاریخی حیثیت جواس شہر کو باقی دارالحکومتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ استنبول دومختلف ناموں سے چار سلطنتوں کا دارالحکومت رہا۔ آج کل ترکی کا دارالحکومت انقرہ ہے لیکن استنبول اب بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ بات سیاحت و تجارت کی ہویا میڈیا کی ان سب کا مرکز آج بھی استنبول ہے۔یہ شہر جب قسطنطنیہ یعنی Constantinopleکے نام سے پکارا جاتا تھا تو یہ عظیم عیسائی سلطنت Byzantine Empireکا دارالحکومت تھا۔ پھر مسلمانوں نے اسے فتح کیا تو یہ سلطنت عثمانیہ کا حکومتی مرکز بنا اور پھر دارالخلافہ چونکہ سولہویں صدی عیسوی میں سلطنت عثمانیہ نے خلافت کا روپ دھار لیا تھا۔ ترکی کا ہمسایہ ملک یونان چارسوسال تک عثمانی سلطنت کا حصہ رہا۔ یونانی آج تک ان چارسوسالوں کو اپنی غلامی اور ہزیمت کا دورتصور کرتے ہیں۔ یونانی لوگ Byzantine Empireکے دور کو اپنا سنہری عہد تصور کرتے ہیں۔ آج کا استنبول انہیں اپنی شکست کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن آج بھی یونانی قدامت پسند چرچ میں استنبول کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ استنبول میں مقیم بشپ یعنی پادری کو یونان کے اعلیٰ ترین پادری سے اونچا مقام حاصل ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ اس عظیم شہر کے بغیر نہ عیسائیت کی تاریخ مکمل ہوتی ہے اور نہ ہی اسلام کی ۔ میں تین مرتبہ استنبول گیا ہوں اور چوتھی مرتبہ جانے کی شدید خواہش ہے۔ بات موضوع سے ہٹ گئی لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ ایتھنز میں سوسال سے کوئی جامع مسجد کیوں نہیں بن رہی ،ترک یونانی تعلقات کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ جغرافیہ انہیں اکٹھا کیے ہوئے ہے جبکہ تاریخ انہیں تقسیم کرتی ہے۔ یونان اور ترکی کا بھی بارڈر مشترکہ ضرور ہے لیکن ان کی تاریخی علامتیں، سوچ اور حوالے جداجدا ہیں۔ مثلاً اسلامی دنیا اور ترکی کے لیے استنبول کی فتح ایک عظیم کامیابی ہے جبکہ یونانیوں کے لیے بہت بڑی شکست۔ میں یونان میں چار سال مقیم رہا۔ یہ کوئی بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے۔ یونان میں قدامت پسند کلیسا بہت بڑی قوت ہے۔ اس زمانے میں بھی بات ہوئی تھی کہ یورپ کے اکثر و بیشتر دارالحکومتوں میں مساجد موجود ہیں تو ایتھنز میں کیوں نہیں؟ مسلمان ممالک کے سفراء بھی اس سلسلہ میں کوشش کرتے رہتے تھے لیکن یونانی کلیسا کو ایک طرح کی ویٹو پاور حاصل تھی ۔وہ جامع مسجد نہیں بننے دیتے تھے۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ شہر میں بڑی مسجد ترکوںکی غلامی کے دنوں کی یاد دلائے گی۔ یونان میں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے۔ مسلمانوں میں دوطرح کے لوگ شامل ہیں۔ ایک وہ جو یونانی شہری ہیں اور صدیوں سے وہاں آباد ہیں۔ یہ لوگ ترکی کے بارڈر کے پاس کو موتینی کے علاقے میں رہتے ہیں۔ اس علاقے میں تقریباً تین لاکھ مسلمان ہیں۔ مساجد عام ہیں۔ کو موتینی کے مفتی کا تقرر یونانی حکومت کرتی ہے۔ یہ علاقہ ایتھنز سے تقریباً ساڑھے چھ سو کلومیٹر دور ہے ۔ میں کوموتینی کے راستے سے بذریعہ کاراستنبول گیا ہوں۔ عام یونانی شہری کوئی زیادہ مذہبی نہیں ۔ اتوار کے روز چرچ جانے والے بھی اکثریت میں نہیں تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ عام یونانی کا رویہ بھی دوستانہ تھا۔ مگر اس کے برعکس یونانی کلیسا ریاستی اداروں میں واضح اثرورسوخ رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ قومی دن کی تقریب جس میں تمام سفرا کا جانا لازمی تھا ،ایتھنز کے ایک مرکزی چرچ سے شروع ہوتی تھی۔ انجیل مقدس کی تلاوت ہوتی تھی اور اس کے بعد پریڈ گرائونڈ کی طرف روانگی ہوتی تھی ۔انہی دنوں چند لبرل پارٹیوں نے مطالبہ کیا کہ قومی شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ حذف کردیا جائے۔ یونانی کلیسا نے اس بات کی مخالفت کی اور حکومت کو کلیسا کی بات ماننی پڑی۔ مغربی یورپ کے ممالک مثلاً انگلستان صدیوں سے اس بات کے قائل ہیں کہ کلیسا اور ریاست دوعلیحدہ چیزیں ہیں ،انہیں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے لیکن یونان تک یہ سوچ نہیں پہنچ پائی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یونان جو ماڈرن فلسفہ اور سائنسی سوچ کا گہوارہ تھا خود یورپ کی نشاۃ ثانیہ یعنی Renaissance سے محروم رہا ہے۔ میں جب 1999ء میں ایتھنز پہنچا تو ترکی اور یونان کے تعلقات بہت خراب تھے۔ یونانی حکومت پاک ترک دوستی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی۔ بلکہ ایک دفعہ میں یونانی فارن آفس میں ایک سفارت کار کو ملنے گیا تو اس نے اچھی خاصی تقریر کردی کہ آپ پاکستانیوں کی ترکی کے حوالے سے سوئی خلافت کے زمانے پر اٹکی ہوئی ہے ۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا بدل چکی ہے ،یونان یورپی یونین کا ممبر ہے اور اہم حیثیت کا حامل ہے۔ میں نے اسے بڑے آرام سے کہا کہ پاکستان کے بارے میں آپ کی بدظنی کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کو یونان کی اہمیت کا مکمل ادراک ہے ورنہ ہم نہ یہاں سفارت خانہ کھولتے اور نہ ہی میں آپ کے پاس آتا۔ ایتھنز کی کل آبادی تقریباً پچاس لاکھ ہے۔ اس میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان ہیں جو مصر ،پاکستان ،شام اور بنگلہ دیش وغیرہ سے تارکین وطن ہیں۔ پاکستانی اکثروبیشتر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غیرقانونی طریقے سے یونان میں داخل ہوتے ہیں۔ کشتی سے اترنے سے پہلے اپنا پاسپورٹ سمندر میں پھینکتے ہیں اور یونانی حکومت کے کارندوں کو بتاتے ہیں کہ ہم سال ہا سال سے یہاں موجود ہیں۔ اس طرح انہیں وہاں قانونی حیثیت حاصل کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ یونانی چونکہ کرپشن میں ہمارے مقابلے کے ہیں لہٰذا پاکستانیوں کے ساتھ ان کی دوستی آسانی سے ہوجاتی تھی۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے صوبہ پنجاب سے بھی خاصی تعداد میں غیرقانونی لوگ وہاں جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ باقی یورپ میں جانے کے لیے برصغیر کے لوگوں کے لیے یونان پہلی منزل ہے ۔ ہمارے ضلع گجرات کے خاصے لوگ یونان میں تھے۔ پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ساٹھ ہزار تھی۔ اب مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود جامع مسجدکا نہ ہونا زیادتی ہے۔ ویسے میرے زمانے میں ایتھنز میں درجنوں عارضی قسم کی مساجد تھیں۔ یہ اکثر وبیشتر ایک کمرے پر مشتمل ہوتی تھیں جہاں نہ کوئی محراب ومنبر تھا اور نہ ہی وضوکا بندوبست ۔ پاکستانیوں نے بھی کئی ایک مسجدیں بنائی ہوئی تھیں۔ مولانا طاہرالقادری کی تنظیم کا خاص زور تھا۔ پاکستانی مساجد چونکہ مسالک سے وابستہ تھیں لہٰذا میں جمعہ کی نماز عربوں کی مسجد میں پڑھتا تھا جن کے ہاں دیوبندی اور بریلوی کی تفریق نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سوڈان کے ڈاکٹر محمود خطبہ دیا کرتے تھے جو پیشہ کے لحاظ سے طبیب تھے۔ اس زمانے میں اسلاموفوبیا یعنی اسلام سے خوف اور نفرت کی فضا ایسی عام نہ تھی۔ میرے کئی یونانی دوست تھے۔ یونانی طبعاً خوش مزاج اور یارباش لوگ ہیں۔ لیکن آج کے یورپ میں اسلاموفوبیا وبا کی طرح پھیل چکا ہے۔ فرانس میں سرڈھانپنے والی مسلم خواتین پر حملے ہورہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں مساجد بن سکتی ہیں لیکن میناروں کے بغیر۔ ظاہر ہے کہ یونان اس سوچ سے بچ نہیں سکتا۔ اقتصادی کساد بازاری نے غیرملکیوں کے بارے میں نفرت میں اضافہ کیا ہے۔ سالہا سال سے ایتھنز کے مسلمان جامع مسجد کی خواہش لیے پھررہے ہیں۔ اس سال بالآخر یونانی حکومت نے مسجد بنانے کا فیصلہ کرہی لیا۔ اس فیصلے کا ایک محرک یہ بھی تھا کہ اقتصادی کساد بازاری کا علاج بیرونی سرمایہ کاری ہے جوکہ خلیجی ممالک سے آسکتی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے یورپ کی عمومی طورپر اور یونان کی خصوصی طورپر اقتصادی حالت خاصی خراب ہے اور یونان کو یورپ کا مرد بیمار کہا جانے لگا ہے۔ ایک صدی پہلے یہ لقب ترکی کو ملا تھا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ مسجد کے ٹینڈر ہوچکے ہیں لیکن کوئی کمپنی کام شروع کرنے کا حوصلہ نہیں کرپارہی۔ تین کمپنیاں اب تک ٹینڈر منظور ہونے کے باوجود ایک ملین یورو کے اس پراجیکٹ سے معذرت کرچکی ہیں، اس لیے کہ انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دنیا آگے جارہی ہے لیکن انسانی تہذیب وفکر کا گہوارہ یونان تاریخ کے قدیم اوراق میں پھنسا ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں