"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں بیرونی اثرو رسوخ

آپ اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے کہ پاکستان میں بیرونی اثر ورسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ ہمیں کہتا ہے کہ ایران کے ساتھ پائپ لائن معاہدہ منسوخ کر دو اور ہم گہری سوچ میں گم ہوجاتے ہیں۔ یورپی یونین کہتی ہے کہ تجارتی مراعات حاصل کرنی ہیں تو سزائے موت کسی کو نہ دو تو ہم فوراً متذبذب ہوجاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ ہندوستان کو تجارت کے لیے پسندیدہ ملک کا درجہ دو۔ گویا ہر کوئی پاکستان کو حکم دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناکہ غریب کی جورو سب کی بھاوج! کسی بھی ملک میں اثرو رسوخ بڑھانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک اعلانیہ اور دوسرا خفیہ۔ اعلانیہ طریقے میں اقتصادی اور دفاعی امداد شامل ہے۔ حکمرانوں کو مختلف طریقوں سے بااثر ملک قابو کرتے ہیں۔ خفیہ طریقے میں بیرونی ایجنسیاں اپنے ایجنٹ پالتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ میڈیا میں بااثر شخصیات اور ٹی وی چینلز کو ہمنوا بنایا جاتا ہے۔ میں اس کالم میں اعلانیہ طریقے پر ہی بحث کروں گا کیونکہ خفیہ اثرورسوخ کے بارے میں رائے زنی لامحالہ قیاس آرائی کا شکار ہوسکتی ہے اور بغیر دلیل کے بات کرنا یا نتیجہ اخذ کرنا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی یہ بیماری آج کی نہیں بلکہ ’’جماندرو‘‘ ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان کی حالت ہندوستان کے مقابلے میں خاصی کمزور تھی۔ پاکستانی قیادت کا ایک دھڑا اس حق میں تھا کہ مغربی ممالک کی چھتری کے تلے عافیت مل جائے۔ اس گروپ میں ملک غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان اور سر ظفر اللہ خان شامل تھے۔ خواجہ ناظم الدین معاہدہ بغداد یعنی سینٹو میں جانے کے مخالف تھے؛ چنانچہ خواجہ صاحب کی چھٹی کرا دی گئی۔ ایوب خان کئی سال تک امریکہ کی آنکھوں کا تارا رہے۔ سر ظفر اللہ خان چودہ پندرہ سال بین الاقوامی عدالت کے جج رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سر ظفر اللہ سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ انہیں اس عہدے کے لیے کس حکومت نے نامزد کیا۔ موصوف نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ کیا تجاہل عارفانہ تھا۔ بین الاقومی طاقتیں اپنے لوگوں کا مکمل خیال رکھتی ہیں۔ پاکستان کو مغربی چھتری تلے لے کر جانے میں سر ظفر اللہ کا کردار کلیدی تھا۔ پھر یہ روایت جڑ پکڑنے لگی کہ پاکستان میں کچھ بننا ہے تو بیرونی آقائوں کو خوش رکھو۔ اس بات میں بھی خاصی صداقت ہے کہ امریکہ نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے میں جنرل ضیاء الحق کی حوصلہ افزائی کی اس لیے کہ بھٹو صاحب یکسوئی سے ایٹمی پروگرام پر کام کررہے تھے۔ پہلی بار جس سفارت کار نے پاکستانی سیاست کے منظر پر نمایاں کردار ادا کیا وہ سعودی سفیر ریاض الخطیب تھے جنہوں نے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور 2007ء میں ہمیں امریکی اور برطانوی سفارت کار جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت کراتے نظر آئے۔ این آر او کی تکمیل کے مراحل میں کونڈولیزا رائس کا کردار واضح نظر آتا ہے۔ اس سلسلے کی ملاقاتیں زیادہ تر دہلی میں ہوئیں۔ جنرل مشرف اور میاں نوازشریف کے باہمی معاملات جب حد سے زیادہ بگڑ گئے تو سعودی عرب نے پھر درجہ حرارت کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری مرحوم کا کردار بھی اہم تھا۔ ایک بات جو اسلام آباد کو باقی دارالحکومتوں سے مختلف بناتی ہے وہ بیرونی سفارت کاروں کا نارمل سے زیادہ پروٹوکول ہے۔ ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ اہم ممالک کے سُفَراء کا ہم جتنا زیادہ خیال رکھیں گے اتنے ہی ان ممالک سے تعلقات بہتر ہوں گے۔ میں اس بات کا ذاتی شاہد ہوں کہ آج سے دس سال پہلے اسلام آباد میں کچھ سُفَراء کے پاس صدر مشرف کا ذاتی موبائل فون نمبر ہوتا تھا۔ پچھلے سال میں ایک ملک کے قومی دن کی دعوت پر مدعو تھا۔ سکیورٹی بہت سخت تھی۔ تھوڑی دیر بعد صدر زرداری بطور مہمان خصوصی تشریف لائے۔ پچھلے ہی سال ایک اور اہم ملک کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کی تو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے وزراء کی فوج ظفر موج کے ساتھ موجود تھے۔ وہاں ایک صوبے کے گورنر بھی تھے اور دوسرے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی ۔ افواج پاکستان کے قائدین بھی تھے۔ میں نے اپنی لمبی سفارتی زندگی میں میزبان حکومت کی ایسی شرکت کہیں نہیں دیکھی اور میں دس ملکوں میں خدمات سر انجام دے چکا ہوں۔ عام قاعدہ پروٹوکول کا یہ ہے کہ قومی دن کی دعوت میں فارن سیکرٹری یا چیف آف پروٹوکول میزبان حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر کسی ملک کے ساتھ تعلقات بہت خاص نوعیت کے ہوں تو وزیرخارجہ تقریب میں آجاتے ہیں اور اگر وزیرخارجہ مصروف ہوں تو کوئی اور وزیر نمائندگی کرتا ہے۔ جس طرح سے پاکستان کی اعلیٰ قیادت بیرونی سُفَراء کے سامنے بچھی بچھی جاتی ہے اس کا نتیجہ وزارت خارجہ کے افسروں کی بے توقیری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دوسرے تمام ممالک میں سفارتکاروں کی عام ملاقاتوں سے لے کر وزراء تک تمام Appointments وزارت خارجہ کے ذریعے طے پاتی ہیں۔ ہمارے ہاں وزیر اور عوامی نمائندے ویزوں کے حصول کی خاطر سفیروں سے ڈائریکٹ رابطے رکھتے ہیں۔ بات زیادہ سنجیدہ ہوچلی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں صدر غلام اسحاق خان کے بارے میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا۔ موصوف تحصیلدار سے لے کر صدر مملکت تک کے عہدوں پر فائز رہے۔ جب وہ اپنی شاندار اننگز مکمل کر چکے تو کسی نے ان سے پوچھا کہ اب بھی آپ کے دل میں کسی عہدے کی حسرت ہے تو کہنے لگے کہ ہاں میں اسلام آباد میں امریکا کا سفیر بننا پسند کروں گا۔ اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کبیر کی جو شان ہے وہ اسے کسی دوسرے دارالحکومت میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کے تمام اہم فیصلے واشنگٹن میں ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ہمارا کشکول بڑا ہورہا ہے ہماری خود مختاری ویسے ویسے سکڑ رہی ہے۔ معاصر کالم نگار زاہد حسین نے اپنے ایک حالیہ کالم میں انکشاف کیا ہے کہ 2008ء میں برطانوی حکومت نے الطاف حسین کو مشورہ دیا کہ زرداری صاحب کی حمایت کی جائے اور 2013ء میں پھر لندن کی طرف سے کہا گیا کہ اس بار نوازشریف کے صدارتی امیدوار کی سپورٹ کی جائے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان بیرونی مداخلت کی اس دلدل سے کیسے نکل سکتا ہے۔ میرے خیال میں اپنی خودمختاری کو اب بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔ اشرافیہ ایمانداری سے ٹیکس دینا شروع کردے اور انکم ٹیکس افسر تندہی سے ٹیکس وصول کرے‘ حکومت جمع شدہ رقم کو ایمانداری سے خرچ کرے‘ حکومت کا سائز کم کیا جائے‘ دفاعی اور سول اخراجات دس فیصد کم کیے جائیں۔ پاکستان میں 24فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت گیس کی ہے۔ مچھلی اپنے سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔ حکمران ٹھیک ہوں گے تو عوام بھی درست ہونا شروع ہوجائیں گے۔ والدین اچھے کردار کے حامل ہوں گے تو بچے بھی صالح ہوں گے۔ فرد ٹھیک ہوگا تو سوسائٹی کی بھی اصلاح ہوجائے گی اور جب ہم ووٹ سوچ سمجھ کر دیں گے تو صالح قیادت سامنے آئے گی۔ اقوام عالم میں عزت وتوقیر حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنا خود احترام کریں، ورنہ ہربیرونی ایئرپورٹ پر یہی دہرایا جائے گا کہ گرین پاسپورٹ ہے تو ایک طرف کھڑے ہوجائو۔ سزائے موت پر عمل بند کردو۔ ہندوستان سے ہرصورت میں دوستی کرو اور ایران سے گیس نہ لو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں