"JDC" (space) message & send to 7575

پاک چین دوستی

میں نے گزشتہ ہفتہ چین میں گزارا۔ میں اسلام آباد کونسل برائے ورلڈ افیئرز (ICWA) کا ممبر ہوں جس کے بانی ممتاز سفارت کار آغا شاہی مرحوم تھے۔ ہماری تنظیم کو چین کے مشہور تھنک ٹینک چائنا پیپلز انسٹیٹیوٹ آف فارن افیئرز (CPIFA) نے بین الاقوامی صورت حال پر بات چیت کے بلایا تھا۔ دونوں تنظیموں میں تبادلۂ خیال کا یہ سلسلہ چند برسوں سے جاری ہے۔ اگلے سال ہماری تنظیم نے CPIFA کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ ہمارے وفد میں پانچ سابق سفیر اور تین پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندے شامل تھے۔ پہلا مشکل مرحلہ بیجنگ کے لیے ٹکٹوں کا حصول تھا۔ چینی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا موسم گرما کی تعطیل کے بعد واپس جارہے تھے۔ بہت تگ و دو کے بعد ہمیں پی آئی اے کی پرواز پر دس نشستیں ملیں۔ چین کی سیر کے شوق میں دو بیگمات بھی وفد کے ساتھ جارہی تھیں جن میں میری نصف بہتر بھی شامل تھیں۔ جب ہم بیجنگ پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ ائیرپورٹ کافی بڑا ہے۔ CPIFA کے نمائندے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہماری فلائٹ ایک گھنٹہ لیٹ پہنچی تھی۔ چینی عام طور پر بات کرنے میں بہت محتاط ہیں‘ لیکن ہمارا استقبال کرنے والے مسٹر ہان کے منہ سے نکل گیا کہ پی آئی اے کا تاخیر سے آنا معمول کی بات ہے۔ جن قوموں میں ترقی کی لگن ہو‘ وہ وقت کی بہت قدر کرتی ہیں۔ ہمیں امیگریشن اور کسٹم کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑا۔ یہ کام مسٹر ہان اور ان کی رفیقہ کار مس رین جیا نے کیا۔ پورا ہفتہ یہ دونوں ہمہ وقت وفد کے ساتھ رہے۔ پروگرام پہلے سے تیار تھا اور اس پر پورا ہفتہ لمحہ بہ لمحہ عمل ہوا۔ بیجنگ بہت بڑا شہر ہے۔ سنا ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے اس شہر میں لاکھوں چینی سائیکلوں پر سفر کرتے تھے۔ جی ہاں‘ ان کے پاس موٹرسائیکل بھی بہت کم تھے اور آج لاکھوں نئی سے نئی کاریں سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ ٹریفک میں واضح طور پر نظم و ضبط نظر آتا ہے۔ سائیکل اور موٹرسائیکل والے بھی نظر آتے ہیں لیکن بہت کم۔ زیر زمین میٹرو ٹرین بھی چلتی ہے۔ ہر طرف ہریاول ہی ہریاول ہے۔ اتنے درخت اور پھول دنیا کے بہت کم بڑے شہروں میں پائے جاتے ہیں۔ میں نے کئی لوگوں سے سنا ہے کہ 1970ء کی دہائی تک چینی بھائی ہمارے کراچی شہر کو رشک سے دیکھتے تھے اور حبیب بینک پلازا کی عمارت کو دیکھ کر تو حیرت زدہ ہوجاتے تھے۔ آج بیجنگ، شنگھائی، ارمچی اور جانڈو کی اکثر عمارتیں فلک بوس ہیں اور جلد ہی کاشغر بھی اس صف میں شامل ہونے والا ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا معیار صفائی کی اہمیت ہے۔ ہم چین کے تین شہروں میں گئے اور کسی جگہ بھی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ جی ہاں‘ کاشغر کا قدیم شہر جس کی تنگ گلیوں میں ہم ایک گھنٹہ پھرتے رہے‘ صاف ستھری تھیں۔ بیجنگ میں بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے ہماری چینی تھنک ٹینکوں سے تین نشستیں ہوئیں۔ پچاس ساٹھ کی دہائی میں بہت سے مغربی ممالک چینی حکومت کو لفٹ نہیں کراتے تھے۔ چنانچہ بیرونی ممالک سے بات چیت کی سبیل نکالنے کے لیے وزیراعظم چو این لائی نے چند تھنک ٹینک تشکیل دیے۔ اس زمانے میں چین مغربی دنیا کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ آج پوری دنیا چین کی طرف کھنچی چلی آرہی ہے۔ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے اور ایشیا میں چین سب سے آگے ہیں۔ وہ مجموعی قومی پیداوار میں جاپان سے آگے نکل چکا ہے اور امریکہ کے بعد دوسری اقتصادی قوت ہے۔ آج ہر بڑی مغربی کمپنی کا دفتر چین میں ہے۔ بیجنگ کا فائیو سٹار ریجنٹ ہوٹل جہاں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا‘ اس کی لابی میں مغربی ممالک کے بہت لوگ نظر آتے تھے۔ ہوٹل میں پہلے دن ہی ہمارے ساتھ لطیفہ ہوا۔ یہ انیس منزلہ شاندار عمارت ہے۔ ہمیں بارہویں فلور پر ٹھہرایا گیا تھا۔ لفٹ میں پہنچ کر بارہ نمبر دبایا تو لفٹ نے چلنے سے انکار کردیا۔ پتہ چلا کہ لفٹ کو استعمال کرنے کے لیے بھی کمرے کو کھولنے والی الیکٹرانک چابی کا استعمال ضروری ہے۔ یہ حفاظتی تدابیر کا حصہ ہے تاکہ کوئی غیر متعلقہ شخص لفٹ کو استعمال نہ کرسکے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہوٹل کے ہی ایک ملازم نے بات سمجھا دی ورنہ ہم بالکل تیار تھے کہ میزبانوں سے شکایت کریں کہ ہمیں ایسے ہوٹل میں کیوں ٹھہرایا ہے جس کی لفٹ ہی کام نہیں کرتی۔ میں روزانہ سیر کا عادی ہوں۔ حالت سفر میں ورزش کا شوق پورا کرنے کے لیے ہوٹل کے جمنازیم یا سوئمنگ پول چلا جاتا ہوں۔ ہوٹل ریجنٹ کا جمنازیم بہت بڑا تھا اور سوئمنگ پول پانچویں فلور پر تھا۔ اس کے نواح میں جکوزی اور Sauna تھے۔ ہمارے وفد کے اکثر لوگ کئی مرتبہ چین یاترا کر چکے تھے۔ میں چونکہ پہلی مرتبہ گیا تھا لہٰذا دیوار چین دیکھنے کی خواہش صرف مجھے ہی تھی۔ پہلے ہی روز پاکستانی سفارت خانہ میں ڈنر تھا۔ وہاں اپنی دیرینہ خواہش کا ذکر کیا تو سفارت خانہ کی ایک افسر جو میرے ساتھ وزارت خارجہ میں کام کر چکی تھیں فوراً کار اور لوکل گائیڈ کا انتظام کرنے لگ گئیں۔ اگلے روز علی الصبح سفارت خانے کی کار اور چینی خاتون ایکو ہوٹل آگئے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم عظیم دیوار چین پہنچ گئے۔ عالمی عجوبے کا کچھ حصہ ہم نے لفٹ چیئر کے ذریعے دیکھا اور باقی پیدل چل کے۔ یہ واقعی ایک نادر تجربہ تھا جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ تین ہزار کلو میٹر طویل یہ دیوار بنانے میں بھی طویل عرصہ لگا تھا۔ دیوار بنانے والے ہزاروں مزدور اسی کے اندر دفن ہیں۔ کئی حکومتیں بدلیں لیکن اس دفاعی منصوبے پر کام جاری رہا۔ زندہ قومیں اعلیٰ اہداف کے حصول کے لیے بڑی جانفشانی سے کام کرتی ہیں۔ چین ایک عظیم ملک ہے۔ 1980ء میں ڈینگ شیائو ینگ کے عہد سے شروع ہونے والا سفر آج بھی پورے زورو شور سے جاری ہے۔ پچھلے بیس سال میں قومی پیداوار پانچ گنا بڑھی ہے۔ اس ترقی کا راز ڈسپلن اور محنت ہے۔ شہری آبادی کو حکم ہے کہ ایک ہی بچہ ہونا چاہیے‘ لہٰذا کسی کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کی جرأت نہیں۔ یہ لوگ حکومت کے احکام کو مانتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسی سال جون میں سنکیانگ میں مظاہرے ہوئے تھے‘ ایک پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا تھا۔ کئی مظاہرین موقع پر ہی مارے گئے تھے اور جو پکڑے گئے انہیں پچھلے ہفتے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی رٹ چپے چپے پر قائم ہے۔ بیجنگ سے ہم ارمچی اور کاشغر گئے۔ چینی حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس علاقے کی سیاسی بے چینی کی اصل وجہ اقتصادی پس ماندگی ہے‘ لہٰذا سنکیانگ کے لیے بہت بڑے ترقیاتی منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں۔ یہ علاقہ مستقبل میں ایک بہت بڑے تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرلے گا۔ کاشغر دو ہزار سال پہلے شاہراہ ریشم پر ایک اہم شہر تھا۔ اب کاشغر ایک ماڈرن تجارتی مرکز ہوگا جہاں بڑے فری زون بن رہے ہیں۔ پاکستان، افغانستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان سے تاجر یہاں آکر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ چین نے کاشغر سے خنجراب تک بڑی سڑک بنا دی ہے۔ وہ عطا آباد جھیل کی وجہ سے خراب ہونے والی شاہراہ قراقرم کی بھی مرمت کررہے ہیں۔ سنکیانگ کی ترقی میں گوادر کا اہم رول ہوگا۔ آج سے پچاس سال پہلے چین نے پاکستان کے سٹریٹیجک محل وقوع کا ادراک کرلیا تھا۔ اب اقتصادی شعبے میں تعاون بڑھے گا۔ خدا کرے کہ ہم بھی سڑکوں‘ ریلوے اور پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام وقت پر کریں اور چینی بھائیوں کو مایوس نہ کریں‘ وہ ہم سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں