"JDC" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کی تغیر پذیر صورتحال

سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ایک زمانے سے مغربی ممالک سے منسلک رہی ہے، خاص طور پر امریکہ تو ایک عرصہ سے سعودی عرب کا حلیف ہے۔ جمال عبدالناصر کے مصر کے ساتھ تنائو ہویا صدام حسین سے خطرہ سعودی عرب اور امریکہ ایک ساتھ نظر آئے۔ خلیجی ممالک مغربی دنیا کی انرجی ضروریات پوری کرتے ہیں اور یہ نہیںچاہتے کہ اس حساس خطہ میں حالات خرابی کی طرف جائیں۔ آبنائے ہرمز کو ہر صورت کھلا رکھنا مغربی ممالک کا پہلا ہدف ہے۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں مغربی ممالک کا سب سے بڑا چہیتا اسرائیل ہے۔ 1973ء کی جنگ کے بعد سستے تیل کا دور ختم ہوا۔ عربوں نے اپنے وسائل کی اہمیت کا ادراک کیا اور اس بات کا بھی شعور پیدا ہوا کہ یہ قدرتی وسائل محدود ہیں اور ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ لہٰذا انہیں اچھے داموں فروخت کرکے آمدنی کے متبادل ذرائع پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس سوچ میں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم پیش پیش تھے۔ انہیں بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کا شدید دکھ تھا۔ وہ جمال عبدالناصر کے بعد دوسرے عرب لیڈر تھے‘ جنہوں نے مغربی دنیا سے دو ٹوک انداز میں بات کی۔ اب بھی عرب اور اسلامی ممالک میں کئی مبصر یہ کہتے ہیں کہ شاہ فیصل کو منظر سے ہٹانے میں مغربی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ اس شک کے باوجود سعودی عرب اور امریکہ کے قریبی تعلقات جاری و ساری رہے۔ سعودی خارجہ پالیسی میں ایک خاص قسم کا ٹھہرائو ہے۔ سعودی حکمران عام طور پر بہت ہی صابر اور ٹھنڈے مزاج کے لوگ ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات سب سے پہلے سعودی عرب نے کی لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ اسرائیل تمام عرب مقبوضہ علاقے خالی کردے۔ سعودی عرب کی اس تجویز کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی‘ سوائے اسرائیل اور اس کے حواریوں کے۔ پچھلے ماہ سعودی وزیرخارجہ سعودالفیصل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے سے معذرت کی۔ پوری دنیا حیران تھی کیونکہ اس قسم کے سخت سعودی فیصلے کبھی ان کی خارجہ پالیسی کا خاصہ نہیں رہے۔ اور ابھی حال ہی میں سعودی عرب کا بطور غیر مستقل ممبر سکیورٹی کونسل کیلئے انتخاب ہوا۔ سعودی عرب نے یہ کہہ کر نشست سنبھالنے سے انکار کردیا کہ سکیورٹی کونسل کے معیار دوغلے ہیں۔ اپنے موقف کے حق میں سعودی عرب نے تین دلائل دیئے۔ اول یہ کہ اقوام متحدہ ایک لمبے عرصے میں فلسطین کے مسئلے کا عادلانہ حل نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ دوئم یہ کہ سکیورٹی کونسل جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے باوجود مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک نہیں کراسکی اور سوئم یہ کہ شام اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر چکا ہے لیکن سلامتی کونسل نے دمشق کی حکومت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بادی النظر میں سعودی دلائل کافی مضبوط اور صائب نظر آتے ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ سالہا سال سے قائم ہے اور ہرقسم کا حل امریکی ویٹو کا شکار ہوتا رہا۔ لیکن یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ امریکہ کے ویٹو اسرائیل کے حق میں تواتر سے استعمال ہوئے لیکن سعودی امریکہ تعلقات پر آنچ نہیں آئی تو اب ہی کیوں سعودی عرب نے اتنا بڑا قدم اٹھالیا ہے۔ میرے خیال میں فلسطین کے مسئلے کا حوالہ دو وجوہ کی بنا پر آیا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کیلئے پورے عالم اسلامی میں ہمدردی کا عنصر موجود ہے۔ دوسرے یہ باور کرانا بھی مقصود ہے کہ صرف ایران ہی فلسطینی عوام کے حقوق کا علمبردار نہیں۔ سعودی حکومت کی دوسری دلیل یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے نجات نہیں دلا سکی۔ اب یہ بھی حقیقت ہے۔ اسرائیل ایک عرصے سے ایٹمی طاقت ہے اور مغربی قوتوں نے کبھی بھی سنجیدگی سے اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ تو اسرائیلی قوت کو خطے میں اپنے مفادات کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ تو مغربی معیار تویقیناً دوہرے ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی علاقات اخلاقیات کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کے تابع کم ہی ہوتے ہیں۔ شام کے خلاف کوئی عالمی کارروائی اس لئے نہیں ہوسکی کہ اول تو مغربی ممالک ایک اور جنگ کے قطعی طور پر موڈ میں نہیں ہیں۔ دوسرے روس پہلے تو سلامتی کونسل میں مداخلت کے خلاف ویٹو کی دھمکی دیتا رہا اور آخری ترپ کا پتا اس نے شامی کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی یقین دہانی کراکے کھیلا ہے۔ اب شام میں بیرونی عسکری مداخلت کاخطرہ ٹل گیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے بھی اس بات کا ادراک کرلیا ہے کہ شام میں اسلام پسند حکومت کی آمدمغربی مفادات پر کاری ضرب ثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا فی الحال بشار الاسد کا ہی اقتدار میں رہنا اسرائیلی سکیورٹی کی ضمانت ہے۔ سعودی عرب کا دوہرے معیار والا طعنہ یہاں بھی برمحل ہے۔ اس لئے کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے ایٹمی ہتھیاروں کا غلط الزام لگا کر عراق پر تو دھاوا بول دیا لیکن شامی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیںہوئی۔ صدر اوباما اور صدر روحانی کی ٹیلی فون پر بات چیت نے سعودی حکومت کو ایک اور صدمے سے دوچار کیا ہے۔ فی الحال یہ لگتا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت اور حزب اللہ دونوں محفوظ ہیں۔ یقینی طور پر خطے میں سعودی مفادات کو دھچکا لگا ہے۔مصر میں بھی امریکی اور سعودی اہداف بالکل ایک جیسے نہیں ہیں۔ سعودی حکومت سو فیصد فوجی حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ جبکہ امریکہ نے اقتصادی امداد کو مصر میں انتخابات سے مشروط کیا ہے۔میں نے سات سال سعودی عرب میں گزارے ہیں۔ سفارتی ذمہ داروں اور عربی زبان جاننے کی وجہ سے مقتدر اور عوامی‘ دونوں حلقوں سے رابطہ رہا۔ سعودی عوام عام طور پرسیاسی گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں۔ حکومت چونکہ ایک خاندان یعنی آل سعود کی ہے لہٰذا اس میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ میرے کچھ بے تکلف سعودی دوست گلہ کرتے تھے کہ پاکستانی ہر وقت سیاسی گفتگو میں الجھے رہتے ہیں۔ سعودی فیصلے آہستہ آہستہ اور سوچ سمجھ کر ہوتے ہیں۔ شاہی خاندان آپس میں مشورہ کو اہمیت دیتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے مختلف علاقے یا موضوع اہم شخصیات کے سپرد کر دیے جاتے ہیں اور پھر آخری فیصلہ باہمی مشورے کے بعد ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔مشہور عربی ضرب المثل ہے۔ ’’فی العُجلۃ ندامۃ‘‘ یعنی جلد بازی میں شرمندگی ہے اور سعودی حکمران اس مقولے پر عمل کرتے ہیں اور فیصلہ سازی کا عمل کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ لہٰذا حالیہ سعودی فیصلے اور سلامتی کونسل کی نشست قبول نہ کرنا میرے لئے بھی حیرانی کا باعث ہیں۔ شاید سعودی صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب اقوام متحدہ کی اصلاح کرسکتا ہے؟ کیا وہ تن تنہا مغربی ضمیر کو جھنجھوڑ سکتا ہے کہ وہ دوہرے معیار ترک کردے؟ کیا وہ روس کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ شامی حکومت کی حمایت نہ کرے؟ آپ کا جو بھی جواب ہو میرا جواب نفی میں ہے۔ مغربی ممالک کا مشرق وسطی کے تیل پر انحصار کم ہو رہا ہے۔ امریکہ کے پاس تیل وافر مقدار میں ہے اور روس کے پاس بھی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا سعودی غم و غصہ عارضی ہے یا سعودی فارن پالیسی واقعی تبدیل ہو چکی ہے۔ اس سوال کا جواب قبل از وقت ہوگا۔ اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے حالیہ فیصلے یقینا مقبول ہوں گے لیکن ہمیں ایک چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایران اور سعودی عرب مغربی قوتوں سے ٹکرلے سکتے ہیںاس لئے کہ بے پناہ وسائل کے مالک ہیں اور اندرونی خلفشار کا شکار نہیں۔ پاکستان کیلئے ازبس ضروری ہے کہ سب سے دوستی رکھے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں