"JDC" (space) message & send to 7575

اولڈ راوین

میں نے 1961ء میں جب گوجرہ کے ایک عام سے سکول سے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو والد صاحب نے اپنے محدود وسائل کے باوجود مجھے گورنمنٹ کالج لاہور داخل کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک چھوٹے سے قصبے سے لاہور منتقلی بذات خود خاصا بڑا کلچرل شاک (Cultural Shock) تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ والدین کی ہمہ وقت شفیق نگاہوں سے دور ہوسٹل میں رہنا پڑا۔ سچ پوچھیں تو گورنمنٹ کالج جیسی شاندار مادر علمی میں بھی ذہنی طور پر ایڈجسٹ ہونے میں خاصا وقت لگا۔ پندرہ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے۔ میں نے لاہور سے والدین کو پہلا خط لکھا تو آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں نفسیاتی کونسلنگ کا بھی کوئی بندوبست نہیں جو دنیا کے تمام اچھے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں موجود ہے۔ گورنمنٹ کالج میں اس زمانے میں انگریزوں کی نقالی کرنے اور انگریزی بولنے کا خاصا رواج تھا۔ کیا استاد اور کیا شاگرد سب ہی سوٹڈ بوٹڈ تھے، فلم سوسائٹی والے ہر ہفتے انگریزی فلم دکھاتے تھے۔ کالج اور ہوسٹل کے ریڈنگ رومز میں تازہ ترین ریڈرز ڈائجسٹ، ٹائم اور لائف میگزین اور ہندوستان سے شائع ہونے والا فلم فیئر ہوتے تھے۔ مجھے 1961ء میں کالج میں ہونے والا وہ مباحثہ اچھی طرح یاد ہے جس میں قرارداد یہ تھی کہ اس ایوان کی رائے میں شادی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ شمشاد احمد خان کی صدارت تھی۔ قرارداد کے حق میں اور اس کے خلاف بھرپور دلائل دیے گئے لیکن مباحثے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ برطانوی دارالعوام کی طرز پر تھا‘ لہٰذا سامعین کو سوال کرنے کا حق تھا۔ نکتے بہت ہی بذلہ سنج قسم کے تھے جن سے مباحثے کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ مباحثہ چونکہ دو زبانی (Bilingual) تھا اس لیے اور بھی پرلطف بن گیا۔ مجھ جیسے پندرہ سالہ لڑکے‘ جس کی ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں کے لئے یہ انوکھا تجربہ تھا۔ گورنمنٹ کالج کی نفسیاتی اور ثقافتی فضا پر تو انگلش میڈیم والوں کا قبضہ تھا لیکن میرٹ سسٹم آ جانے سے ہم جیسے مڈل کلاسیئے اردو میڈیم والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔ انگلش میڈیم سکولوں سے آنے والے اکثر لاہور کی بیوروکریسی یعنی افسران کے بیٹے بیٹیاں تھے۔ بی اے اور ایم اے میں مخلوط تعلیم تھی اور یہ بھی ہمارے لئے نیا تجربہ تھا۔ 1961ء میں کالجوں میں ایف اے میں اردو لازمی مضمون قرار پائی۔ پروفیسر قیوم نظر ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ اپنے مضمون پر انہیں خوب عبور حاصل تھا۔ شاعر بہت اچھے تھے۔ اردو میں کرکٹ کمنٹری کو رواج دینے کے وہ بانی تھے۔ کالج کے رسالے راوی میں ان کی ایک خوب صورت غزل شائع ہوئی تھی جس کا ایک شعر مجھے اب بھی یاد ہے۔ ؎ دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا سوچو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا ہاں تو جناب کیا زمانہ تھا۔ ہوسٹل کا پورے ماہ کا خرچ ایک سو روپے سے زیادہ نہ تھا۔ ہم کالج کا بلیزر پہن کر بڑے فخر سے سڑکوں پر نکلتے تھے کہ دیکھو ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے ہیں۔ اکنامکس کی کلاس میں شعیب ہاشمی پُرلطف چٹکلوں کی زبان میں معاشیات پڑھاتے تھے۔ وہ ڈرامیٹک کلب (Dramatic Club) کے صدر بھی تھے۔ گورنمنٹ کالج میں انہوں نے بہت ہی شاندار ڈرامے سٹیج کیے۔ شمیم احمد‘ جو بعد میں شمیم ہلالی بن گئیں‘ ڈرامیٹک کلب کی خاصی متحرک ممبر تھیں۔ گورنمنٹ کالج کو سب سے ممتاز کرنے والی بات وہاں کی غیرنصابی سرگرمیاں تھیں۔ کیا کھیل اور کیا مباحثے‘ کالج کے لڑکے لڑکیاں خوب ٹرافیاں جیت کر لاتے۔ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں بھی شاندار پوزیشن لیتے۔ میرے زمانے میں ڈاکٹر نذیر احمد کالج کے پرنسپل تھے۔ لاہور ہی کے رہنے والے تھے لیکن کلکتہ یونیورسٹی سے علم حیوانات یعنی Zoology میں پی ایچ ڈی تھے۔ درویش صفت انسان تھے۔ اردو شاعری اور موسیقی کو خوب سمجھتے تھے۔ سائنس دانوں کی بجائے ادیبوں سے ان کی زیادہ دوستی تھی۔ بہت سادہ لباس زیب تن کرتے۔ کالج کے سامنے والی گرائونڈ جسے بیضوی شکل کی وجہ سے اوول کہا جاتا ہے‘ وہاں لڑکے لڑکیاں اکثر مخلوط کرکٹ کھیلتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا موڈ ہوتا تو وہ بھی میچ میں شریک ہو جاتے۔ ان کے دروازے تمام طلباء کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ اتنا جمہوری اور عزت پانے والا پرنسپل میں نے اور کوئی نہیں دیکھا۔ 1965ء میں نواب کالا باغ یعنی لاٹ صاحب نے ان کا تبادلہ سنٹرل ٹریننگ کالج کر دیا۔ آناً فاناً طلباء نے کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ ان کا نعرہ تھا ’’ہمارا باپ واپس کرو‘‘ اور نواب کالا باغ جیسا طاقتور گورنر اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوا۔ گورنمنٹ کالج جیسے نظم و ضبط اور پڑھاکو ماحول والے ادارے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور غالباً آخری ہڑتال تھی۔ میں گورنمنٹ کالج میں چھ سال پڑھنے والا پکا راوین ہوں۔ اس زمانے کا یادگار واقعہ 1964ء میں ہونے والی صد سالہ تقریبات تھیں۔ پہلے دن صدر ایوب خان مہمان خصوصی تھے۔ مجھے یاد ہے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد نے اس دن بھی اپنا درویشانہ لباس یعنی شلوار اچکن اور کھسہّ پہنا ہوا تھا۔ دوسرے روز بہت ہی کامیاب مشاعرہ ہوا۔ ہمارے انگریزی کے استاد علائوالدین کلیم صاحب اردو کے بڑے پائے کے شاعر تھے۔ انہیں اس شعر پر بڑی داد ملی ؎ نہ کوئی ساحل‘ نہ کوئی منزل‘ کلیم طوفاں میں نائومیری چلی تو بے مدعا چلی ہے‘ رُکی تو بے مُدعا رُکی ہے اس زمانے کے گورنمنٹ کالج میں لبرل خیالات کے لوگ زیادہ تھے۔ طارق علی جیسے مشہور سرخے بھی کالج میں تھے لیکن برداشت اور رواداری غالب تھی۔ دوسروں پر اپنے نظریات ٹھونسنے کی رسم ابھی نہیں چلی تھی۔ ہم لوگ ساتھیوں کے چہروں پر تبسم دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ایم اے کے دنوں کی بات ہے‘ ہمارا کلاس فیلو اور دوست سرمد صہبائی اکثر اپنی محبوبہ کے ساتھ کالج کے لاجیا (Logia) باغ میں نظر آتا تھا۔ لوگ اس خوشدل اور خوش شکل جوڑے کو دیکھ کر جلتے نہیں تھے اور نہ ہی کوئی فتویٰ صادر ہوتا تھا۔ بعد میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے۔ سرمد کی ایک غزل جو کالج چھوڑنے کے فوراً بعد لکھی گئی اور ’’راوی‘‘ میں شائع ہوئی تھی اس کا ایک مصرع غالب کے مضمون میں تھا۔ ملاحظہ فرمائیے: ع سرمد چلا گیا ہے تو کالج اداس ہے گورنمنٹ کالج کا ماحول تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لئے بہترین تھا۔ ڈاکٹر نذیر صاحب آزادی اظہار کے قائل بھی تھے اور اس پر عمل بھی بے خوفی سے کرتے تھے۔ 1962ء میں جب ایوب خان کا اقتدار عروج پر تھا‘ راوی میں مارشل لاء کے خلاف لکھا گیا اور حکومت وقت بہت ناراض ہوئی مگر ڈاکٹر نذیر صاحب نے کوئی پروا نہ کی۔ اس آزادی اظہار کی بدولت کالج کے لڑکے لڑکیاں لکھنے لکھانے اور مباحثوں کی تیاری میں لگے رہتے تھے۔ مجلس اقبال کی ہر ہفتہ نشست ہوتی تھی۔ ایک نشست میں مشہور افسانہ نگار انتظار حسین آئے ہوئے تھے۔ ایک طالب علم نے اپنا افسانہ پڑھا تو انتظار صاحب بولے: گورنمنٹ کالج میں ہر دو تین سال بعد ایک اور قرۃ العین حیدر جنم لیتی ہے لیکن تخلیقی کاموں میں تقلید کوئی برائی نہیں بشرطیکہ نقل نہ ہو۔ لیکن گورنمنٹ کالج کے جید اساتذہ اور ہوشیار طالب علموں کے سامنے کوئی نقل کردہ چیز پیش کرنا ناممکن تھا۔ اسلامیہ کالج کے ساتھ کرکٹ کا سالانہ مقابلہ ایک عجب ماحول ساتھ لاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج کی ٹیم میں ظفر الطاف‘ شفقت رانا، سلیم الطاف اور آفتاب گل جیسے مضبوط کھلاڑی ہوتے تھے۔ اسلامیہ کالج کی ٹیم بھی کچھ کم نہ ہوتی تھی۔ لیکن اصل لطف اس جملے بازی میں ہوتا تھا جو دونوں جانب سے بھرپور طریقے سے ہوتی تھی۔ اسلامیہ کالج چونکہ زیادہ عوامی تھا اس لئے ہم نعرے لگاتے تھے ’’ماجھے گامے ہائے ہائے‘‘ گورنمنٹ کالج کے طلبا سرخ بلیزر کے ساتھ اچھی اچھی ٹائیاں لگاتے تھے لہٰذا دوسری جانب سے اکثر نعرہ لگتا تھا ’’سرخی پائوڈر ہائے ہائے‘‘ ایک مرتبہ کیا ہوا کہ ہماری جانب سے اولڈ راوین احمد رضا خان قصوری کہیں سے ایک بندر ساتھ لے آئے اور اسے اسلامیہ کالج کا بلیزر پہنا دیا۔ طلبا نے اس نئے خیال سے خوب لطف اٹھایا۔ اسلام آباد میں بہت سے اولڈ راوین ہیں لیکن 1961ء سے 1967ء والے کلاس فیلوز کی بات ہی اور ہے۔ ہم دو چار ماہ بعد کسی دوست کے گھر جمع ہوتے ہیں یا اسلام آباد کلب میں مل لیتے ہیں۔ اسلام آباد کے معروف کارپوریٹ وکیل ڈاکٹر اعظم چودھری اس معاملے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کالج کی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ اس کالج کے ہم پر بڑے احسان ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں