"JDC" (space) message & send to 7575

جذباتیت سے اجتناب

حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تو ہماری قوم ایک بار پھر بٹی نظر آئی۔ چند لیڈر پھر جذباتیت کا شکار ہو گئے۔ اس جذباتی قبیلے کے لیڈر ہمارے کپتان صاحب ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو خیبرپختونخوا سے نیٹو سپلائی بند کردیں گے۔ دوسرا جذباتی ردعمل تحریک طالبان کا آیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم حکومت سے مذاکرات پر آمادہ تھے اور عین اس وقت ہمیں حکیم اللہ کی میت دے دی گئی۔ طالبان کا خیال ہے کہ اس حملے کو حکومت کا تعاون حاصل تھا۔ لہٰذا اب مذاکرات کو بھول جانا چاہیے۔ یہ دونوں ردعمل جذباتی ہیں اور پاکستان کے لیے نقصان دہ بھی۔ جذباتیت کا قوم کو ہمیشہ سے نقصان ہوا ہے۔ 1969ء میں ایوب خان کے خلاف جذباتی نعرے لگے اور نتیجے میں ہمیں یحییٰ خان ملا۔ 1971ء میں جذباتی بریگیڈ کے سرخیلوں نے نعرہ لگایا‘ یحییٰ خان جنگ کرو۔ لاہور کی دیواروں پر ہر جگہ کرش انڈیا (Crush India) لکھا ہوا تھا۔ انڈیا کو کرش کرتے کرتے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ بھٹو صاحب اقوام متحدہ گئے تو وہ بھی جذباتی تھے۔ پولینڈ کی تجویز کردہ قرارداد کو پھاڑ دیا۔ اس واقعہ کو بیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اسلام آباد میں ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی کا گرمجوشی سے استقبال کرتی نظر آئی۔ ایوب خان کے جانے کے دو چار سال بعد ہی ہم نے مرحوم کی تصویریں ٹرکوں کے پیچھے پکے رنگوں سے بنائیں اور ساتھ یہ بھی لکھا ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ ہماری قوم کو جتنی جلدی غصہ آتا ہے‘ اتنی ہی جلدی اُتر بھی جاتا ہے۔ معاف کیجیے گا یہ بلوغت کی نشانی نہیں ہے۔ من حیث القوم ہم ابھی طفلِ مکتب ہیں۔ غیر ذمہ دارانہ نعرہ بازی ہمارا طرۂ امتیاز ہے۔ ڈٹ جائو کا نعرہ لگانے والے دوست اکثر ایران کی مثال دیتے ہیں۔ پاکستان کو ایران کی پیروی کا درس دینے والے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ایران کی پانچ ہزار سالہ تاریخ ہے اور ایرانی اپنی ثقافت اور زبان پر بے حد فخر کرتے ہیں۔ ایران کے پاس تیل اور گیس کے بے پناہ وسائل ہیں۔ آبادی پاکستان سے آدھی سے بھی کم ہے۔ ایران کا خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ فی کس آمدنی سات ہزار ڈالر سالانہ ہے۔ ایران کے اندرونی حالات حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ مغربی پابندیوں نے ایرانی معیشت پر بُرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ایران چونتیس سال مغربی ممالک کے سامنے ڈٹے رہنے کے بعد اب اپنی پالیسی پر نظرثانی کر رہا ہے اس لیے کہ خارجہ امور میں نہ کوئی دائمی دوست ہوتے اور نہ ہی دشمن۔ بعض جذباتی حلقوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ جس طرح سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی گئی تھی ویسی ہی مشق اب پھر کی جائے۔ دونوں واقعات میں بے حد فرق ہے۔ سلالہ میں شہید ہونے والے بے گناہ تھے۔ وہ آپ کی اور میری حفاظت کے لیے سرحد پر مامور تھے۔ ان کو تنخواہ سرکاری خزانے سے ملتی تھی۔ ان کی تربیت ہمارے عسکری اداروں نے کی تھی۔ میران شاہ کے پاس ڈرون حملے میں مارے جانے والوں کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ یہ کس قماش کے لوگ تھے۔ لہٰذا اس ڈرون حملے کے بعد خارجہ تعلقات پر نظرثانی بھونڈی سی بات ہے کہ ع چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک دہشت گردی کی اس طویل لہر میں سب سے بھاری قیمت ہمارے پشتون بھائیوں نے چکائی ہے۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بے حد نقصان ہوا ہے اور یہ زخم جلد بھرنے والے نہیں۔ میرے ایک پشتون دوست جو کے پی میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ طالبان سے بدلے چکانے کا دور جلد شروع ہونے والا ہے جو کہ سالہا سال تک چلے گا۔ میرے لیے یہ خیال ہی کافی لرزہ خیز ہے کیونکہ طالبان بھی پاکستانی ہیں اور جو لوگ ان سے بدلے لیں گے وہ بھی پاکستانی۔ مطلب یہ ہوا کہ قبائلی علاقہ ایک عرصے تک مزید سکھ کی سانس نہیں لے سکے گا۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ لیڈر بوکھلائے نظر آتے ہیں۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو نیٹو کی سپلائی بند کردیں گے اور معاملہ اقوام متحدہ میں لے جائیں گے۔ صوبائی حکومت یہ معاملہ یو این میں کیسے لے جا سکتی ہے یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ تحریک طالبان پاکستان والے کہتے ہیں کہ اب امن مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ طالبان اور حکومت دونوں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملہ کا اصل مقصد مذاکرات کے عمل میں خلل پیدا کرنا تھا۔ تو کیا اب آپ مذاکرات سے انکار کر کے امریکہ کی خواہش پوری نہیں کر رہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہونا چاہئیں تاکہ اندرونی خلفشار کم ہو۔ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں آئے۔ ہمارے ہاں ہر سال بیس لاکھ نئے نوجوان لیبر مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں یعنی روزگار تلاش کرتے ہیں۔ انہیں کام فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں شرحِ نمو آٹھ فیصد کے آس پاس رہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری آئے۔ بیرونی سرمایہ صرف اسی صورت میں آتا ہے جب امن ہو اور منافع بخش کاروبار کے مواقع عام ہوں‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ سرمایہ کار کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ اب آئیے ان نتائج کا جائزہ لیتے ہیں جو نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے سے ممکنہ طور پر پیدا ہو سکتے ہیں۔ اوّل: امریکہ کے ساتھ تعلقات جو پچھلے ایک سال میں کچھ بہتر ہوئے ہیں پھر خراب ہو سکتے ہیں۔ دوئم: امریکہ اور نیٹو کے پاس ازبکستان کا متبادل راستہ موجود ہے۔ ازبکستان یہ راستہ خوشی سے پیش کرے گا۔ تاشقند اور ماسکو کے تعلقات میں سرد مہری ہے اور وہ امریکہ سے دوستی کا خواہش مند ہے۔ ازبکستان یہ بھی کوشش کرے گا کہ جاتے جاتے امریکی اور نیٹو افواج کچھ اسلحہ اسے مفت یا کم قیمت پر دے دیں۔ امریکی ٹیکنالوجی روس سے بہتر ہے۔ چہارم: اگر پشاور کی حکومت نیٹو سپلائی بند کرتی ہے تو کے پی میں گورنر راج لگ سکتا ہے اور پاکستان میں مزید چپقلش شروع ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ وہ بولتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔ یہ دانش مند سیاستدان کا شیوہ نہیں۔ چودھری نثار بھی امریکہ پر خوب برسے ہیں۔ لیکن شکر ہے وزیراعظم کے بیانات متوازن ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ آیا حکیم اللہ محسود شہید تھا یا نہیں تو جواب دیا کہ اگر امریکہ ایک کتے کو مار دے تو میں اسے بھی شہید کہوں گا۔ جواب خاصا عامیانہ ہے جو اس پائے کے عالم کو زیب نہیں دیتا۔ یہی بات بہتر طریقے سے بھی کہی جا سکتی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے قولواللناس حسناً۔ میں ایک ایسے ملک میں بھی رہا ہوں جس نے لمبے عرصے تک مغربی عقوبتوں کا مقابلہ کیا اور وہ ہے برما۔ وہاں کے لوگ بہت سادہ طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی اشرافیہ کا طرزِ زندگی پُرتعیش ہے۔ پچھلے ایک سال میں برما نے پھر سے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کر لیے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری پھر سے شروع ہو گئی ہے۔ اول تو دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر اچھا نہیں ہوتا لیکن اگر آپ مغرب سے ٹکر لینے کا جذباتی فیصلہ کر چکے ہیں تو ٹیکس ایمانداری سے دیں۔ رشوت ستانی کا مکمل خاتمہ کریں۔ سادہ طرزِ زندگی اپنائیں۔ ہر کوئی اپنا کام ایمانداری سے کرے۔ جہادی لیڈر اپنے بچوں کو پہلے جہاد پر روانہ کریں۔ فرقہ بندی ختم کریں اور بھائی بھائی ہو جائیں۔ مگر یہ سب کچھ ہونا مشکل ہے۔ بین الاقوامی تعلقات جذباتیت پر نہیں چلتے۔ ڈپلومیسی ٹھنڈے دل و دماغ والوں کا کام ہے۔ لہٰذا اپنے گھر کو پہلے ٹھیک کریں۔ جذباتیت سے اجتناب کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں