"JDC" (space) message & send to 7575

سوڈان اور پاکستان

سوڈان اور پاکستان میں بہت مشابہت ہے۔ دونوں اسلامی ملک ہیں اور خاص حد تک زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ دونوں میں شریعت کے نفاذ کے مطالبہ کی کافی تائید ہے۔ دونوں برادر ممالک دولخت ہوئے۔ سوڈان اور پاکستان میں یہ سوچ عام ہے کہ علیحدگی کی تحریکیں بیرونی سازش کا نتیجہ تھیں۔ دونوں برطانوی استعمار کے تصرف میں رہے۔ سوڈان کے بیچ میں دریائے نیل بہتا ہے اور پاکستان میں دریائے سندھ۔ دونوں ممالک کے عوام سادہ اور مخلص ہیں۔ باہمی تعاون دونوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ 
سوڈان پاکستان کے نو سال بعد یعنی 1956ء میں آزاد ہوا۔ رقبے کے لحاظ سے یہ سب سے وسیع اسلامی ملک تھا۔ یہ اعتقاد عام تھا کہ اکیلا سوڈان تمام عرب دنیا کی غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ سوڈان کے زیر زمین پانی کے وسائل دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور ایسی وسیع اراضی بھی ہے جہاں آج تک زراعت نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس بات میں بڑی حد تک صداقت ہے کہ سوڈان کی موجودہ زرعی پیداوار ملک کی اصل قابلیت یعنی Potential سے خاصی کم ہے اور پھر چینی سرمایہ کاری کی بدولت 1999ء میں سوڈان تیل برآمد کرنے کے قابل ہو گیا۔ تیل کے بیشتر ذخائر جنوبی سوڈان میں تھے۔ تیل کی برآمد شروع ہوئی اور ساتھ ہی علیحدگی پسند قوتیں بھی زور پکڑنے لگیں۔ 
اسرائیل کا سٹریٹیجک ہدف یہ ہے کہ خلیج عتبہ سے لے کر خلیج عدن تک اس کا اثررسوخ ہو۔ اس لحاظ سے سوڈان جیسا بڑا اسلامی ملک اسرائیل کی آنکھ میں کھٹکتا تھا۔ چنانچہ جوں ہی 2011ء میں جنوبی سوڈان ریفرنڈم کے ذریعہ علیحدہ ہوا تو نئے ملک کا خیرمقدم کرنے والوں میں اسرائیل آگے آگے تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیا ملک بنانے میں مغربی غیر سرکاری تنظیموں‘ این جی اوز اور کلیسائوں کا بھی فعال کردار تھا۔ جنوبی سوڈان کی آبادی کا بڑا حصہ عیسائی ہے یا حیوان پرست یعنی Animistہے۔ 
1911ء میں جنوبی سوڈان کی علیحدگی دیکھنے میں تو پُرامن طریقے سے ہوئی لیکن اس کے پس منظر کو دیکھیں تو یہ طویل خانہ جنگی کا منطقی نتیجہ تھی۔ اس خانہ جنگی کے دوران مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ملک میں شریعت نافذ کی جائے۔ نفاذِ شریعت کی تحریک شمال میں زیادہ مقبول تھی جبکہ جنوب میں اس بارے میں تحفظات تھے۔ 
ملکوں کی تقسیم بھی عجب مسائل کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان بنا تو دریا پاکستان میں تھے اور ہیڈورکس بھارت میں۔ بلکہ گورداسپور اور فیروزپور کے اضلاع بھارت کو اس لیے دیئے گئے کہ راوی اور ستلج پر قائم ہیڈ مادھوپور اور ہیڈ سلیمانکی بھارت کے پاس رہیں۔ سوڈان میں بھی 75فیصد تیل جنوب میں ہے جبکہ تیل صاف کرنے کی ریفائنری شمال میں اور پائپ لائن اور برآمد کا بندوبست بھی شمال کے راستے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شمالی اور جنوبی سوڈان تیل کے وسائل اور آمدنی کی تقسیم کا قابل عمل نظام وضع کریں تاکہ وہ صورت حال پیدا نہ ہو جو برصغیر میں بھارت کی ہٹ دھرمی سے ہوئی ہے اور اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ سوڈان‘ جس کی تیس لاکھ کی آبادی اب بھی جنوب سے تین 
گنا ہے‘ بڑے بھائی کا کردار ادا کرے۔ بصورت دیگر وہی چپقلش سوڈان کے دونوں حصوں میں چلتی رہے گی جو برصغیر کو آزادی کے بعد نصیب رہی اور جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں کے عوام پس ماندہ اور غریب رہے۔ 
پاکستان اور سوڈان میں ایک اور بڑی مماثلت فوجی حکومتوں کی بہتات ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق تھے تو سوڈان میں جنرل جعفر نمیری ان کے ہم عصر تھے۔ پاکستان کی طرح سوڈان میں بھی اسلامی تحریکیں چلیں۔ بیسویں صدی کے پہلے حصے میں مہدی تحریک چلی اور دوسرے حصے میں حسن الترابی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے رہے۔ نفاذِ شریعت کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہے لیکن سوڈان اور پاکستان میں نفاذِ شریعت پر حکومتی اصرار سے کچھ منفی نتائج بھی مرتب ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بینکوں والے پوچھتے تھے کہ سر فقہ کون سی لکھوانی ہے میرے لیے یہ ایک لغو سوال تھا۔ لیکن پھر یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اس سوال کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ حکومت کو زکوٰۃ دینا پسند کریں گے یا نہیں جبکہ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی زکوٰۃ ذاتی طور ادا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ 
سوڈان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ جنوبی سوڈان میں علیحدگی کے بیج بو گیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دونوں ممالک کے سکالر اس سلسلے میں بے لاگ ریسرچ کریں۔ نفاذِ شریعت کے لیے تمام مسلمانوں کا بلکہ تمام آبادی کا اجماع یعنی دل سے ایک رائے پر ہونا ضروری ہے۔ ویسے مجھے ذاتی طور پر ترکی کے وزیراعظم طیب اردوان کی رائے سے اتفاق ہے کہ فرد کو مذہبی ہونا چاہیے جبکہ ریاست کو سیکولر۔ اس سلسلے میں متعدد آرا ہو سکتی ہیں۔ 
اور اب آتے ہیں اس عام اعتقاد کی طرف کہ سوڈان اور پاکستان دونوں بیرونی سازشوں کی وجہ سے دولخت ہوئے۔ مجھے اس نظریے سے صرف پچاس فیصد اتفاق ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1963ء میں مشرقی پاکستان سے تجویز آئی کہ صدر مملکت کا تعلق ایک بار مشرقی حصے سے ہو اور دوسری مرتبہ مغربی پاکستان سے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں پاکستان میں صدارتی نظام تھا اور تمام اختیارات صدر کے پاس تھے۔ حکومت وقت کے وزیر قانون جناب کے ایچ خورشید نے نیشنل اسمبلی میں کہا کہ اس تجویز سے صوبائیت کی بو آتی ہے۔ لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو یہ ایک معقول تجویز تھی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بنگالی بھائیوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں اہمیت نہیں دی گئی۔ اسی طرح سوڈان میں جنوبی سوڈان کے لوگ اہم سرکاری عہدوں پر بہت کم تھے۔ مجھے اس بات سے جزوی اتفاق ہے کہ دونوں ملک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ بنے لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دونوں سے سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو دوررس نتائج چھوڑ گئیں اور ظاہر ہے کہ غلطیوں کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔ فارسی کی کہاوت ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست یعنی اپنی کی ہوئی غلطی کا علاج نہیں ہوتا۔ دونوں ملکوں کو ان غلطیوں کا ادراک کرنا چاہیے جو ان سے سرزد ہوئیں تاکہ آئندہ ان غلطیوں سے اجتناب ہو سکے۔ 
2004ء کی بات ہے۔ میں وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکرٹری برائے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تھا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پاکستان اور سوڈان کے روابط کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اُسی سال دونوں ممالک میں ایک معاہدہ ترتیب دیا گیا کہ دونوں ممالک کے فارن آفس ہر سال ایک مرتبہ باہمی مشاورت کا اہتمام کریں۔ پاکستان اور سوڈان کا جوائنٹ اقتصادی کمشن بھی غیر فعال رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک میں انرجی اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ 
جب ملک اندرونی خلفشار کا شکار ہو تو بیرونی طاقتیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ لہٰذا جمہوری عمل کے ذریعے سیاسی بلوغت کا ہدف حاصل کرنا ضروری ہے۔ اقتصادی ترقی بے محل سیاسی لڑائیوں کو کم کرتی ہے۔ پاکستان اور سوڈان دونوں وسائل سے مالامال ہیں لیکن پس ماندہ ہیں۔ وسائل کے صحیح استعمال کے لیے فنی تعلیم اور درست اقتصادی پالیسی ضروری ہے۔ پاکستان اور سوڈان کو چاہیے کہ باہمی تعاون سے اپنے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں