"JDC" (space) message & send to 7575

افغان صورت حال اور پاکستان

افغانستان میں صدارتی انتخابات پاکستان کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔آپ کو یاد ہو گا کہ 2009ء کے انتخابات میں پاکستان نے بالواسطہ صدر کرزئی کی مدد کی تھی۔ وہی صدر کرزئی آج پاکستان پر اچھل اچھل کر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے موصوف کی مدد ایسے کی تھی کہ افغان مہاجرین کے لیے ووٹ دینا ممکن بنایا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی اکثریت پشتون ہے اور یہ ظاہر تھا کہ شاید ہی کوئی پشتون ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ووٹ دے۔لہٰذا یہ ووٹ بغیر کسی مداخلت کے حامد کرزئی کو ہی پڑے تھے۔
اب پنج شیر وادی کے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ دوبارہ امیدوار ہیں اور ان کی انتخابی قوت مسلمہ ہے۔ ان کے والد تاجک اور والدہ پشتون تھیں لیکن وہ واضح طور پر شمالی اتحاد کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ کرزئی حکومت میں وزیر خارجہ رہے لیکن ان کا سیاست میں ابتدائی تعارف احمد شاہ مسعود کے معاون اور ترجمان کی حیثیت سے ہوا تھا۔عام خیال ہے کہ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر اشرف غنی ان کے اصل مدمقابل ہوں گے۔ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی پشتون ہیں‘ بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں‘ ایک عرصہ ورلڈ بینک میں رہے۔ بیروت میں پڑھے بیگم ان کی لبنانی ہیں لیکن میری نظر میں ایک تیسرے امیدوار ڈاکٹر زلمے رسول بھی اہم ہیں۔پیشہ کے لحاظ سے معالج ہیں اور ماضی قریب میں وزیر خارجہ تھے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ موصوف کو صدر کرزئی کی حمایت حاصل ہے۔
1996ء میں کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے پاکستان نے بین الاقوامی تنہائی کا خطرہ مول لیا تھا۔پاکستان نے طالبان حکومت سے مختلف اوقات میں تین مطالبے کیے۔ پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو علی الاعلان تسلیم کر لیا جائے تاکہ صحیح معنوں میں دوستی اور تعاون کا آغاز ہو اور کوئی ابہام نہ رہے۔دوسری درخواست یہ تھی کہ اسامہ بن لادن کی میزبانی سے اجتناب کیا جائے۔ تیسری گزارش یہ تھی کہ بامیان میں گوتم بدھ کے تاریخی مجسموں کو مسمار کرنے سے اسلام کا بین الاقوامی تاثر مجروح ہو گالہٰذا مجسموں کو تباہ نہ کیا جائے۔ایک قومی دلیل یہ بھی تھی کہ محمود غزنوی نے بھی ان مجسموں کو نہیں توڑا تھا۔ ان تینوں مطالبات کے بارے میں طالبان کے جواب کیا تھے‘ وہ قارئین کو معلوم ہے۔
طالبان نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے بلکہ یہ دھمکی بھی دی ہے کہ جس شخص کی انگلی پر الیکشن کی سیاہی کے نشان نظر آئے اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔چند روز قبل طالبان نے الیکشن کمیشن کی عمارت پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ طالبان کا استدلال یہ ہے کہ ملک بیرونی قوتوں کے قبضے میں ہے‘ اس صورت حال میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں۔یاد رہے کہ 2009ء کے انتخاب میں بھی دھاندلی کے الزام لگے تھے اور اس مرتبہ پھر یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔صاف نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کے نتائج متنازعہ ہوں گے لیکن پاکستان کی یہ پالیسی صائب ہے کہ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں۔ 
پاکستانی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان میں پُرامن الیکشن ہمارے مفاد میں ہے اقتدار کی پُرامن منتقلی افغان عوام کے لیے نیک فال ہو گی۔شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن نہ کرنے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ اس طرح افغان الیکشن کا عمل متاثر ہو سکتا تھا۔اس سے یہ تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ پاکستان وہاں کسی مخصوص لسانی گروہ کی حمایت کرتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان میں آگ لگانے کی جس نے بھی کوشش کی‘ اس کی اپنی انگلیاں جلی ہیں۔سوویت فوج کو وہاں بھاری نقصان اور ہزیمت اٹھانا پڑی۔امریکہ اور اس کے ساتھ عالمی لشکر بھی اربوں ڈالر خرچنے کے بعد اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔امریکہ اور یورپی ممالک اس مشکل محاذ سے نکلنا چاہتے ہیں۔شاید 1996ء میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ہم نے نیک نیتی سے ہی کیا ہو لیکن اب ہمیں کابل میں بندوق کے زور پر آنے والوں کو تسلیم کرنے کی غلطی نہیں دہرانی چاہیے۔ افغان اپنے مسائل خود حل کریں‘ ہماری اپنی اندرونی مشکلات کافی ہیں۔ہمیں ان پر توجہ دینی چاہیے۔
افغان الیکشن میں میرے نزدیک زلمے رسول ایک اہم امیدوار ہیں۔انہیں صدر کرزئی کی حمایت بھی حاصل ہے۔مجھے اس بات کا ذاتی طور پر علم ہے کہ وہ 1980ء کی دہائی سے قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہیں۔مرحوم ظاہر شاہ کے قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے ان کی اہمیت ہے۔ 
صدر کرزئی نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔وہ طالبان کے ساتھ اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتے ہیں۔لیکن لگتا ایسے ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ‘ ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر زلمے رسول میں سے جو بھی صدر منتخب ہوا وہ اس معاہدے پر دستخط کر دے گا۔ان لیڈروں کا رجحان اس امر کی جانب ہے کہ محدود امریکی فوج افغان استحکام میں معاون ثابت ہو گی۔ اس وجہ سے خانہ جنگی کا خدشہ خاصا کم ہو جائے گا۔دوسری بات یہ ہے کہ افغان معیشت کو بیرونی دفاعی اخراجات پر انحصار کی عادت ہو گئی ہے ۔اگر بیرونی افواج اس سال کے آخر میں مکمل طور پر ملک سے چلی جاتی ہیں تو معیشت کو نئی صورت حال میں ایڈجسٹ ہونے میں خاصی مشکل ہو گی۔
ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ افغان نیشنل آرمی 2015ء میں صورتحال کو سنبھال نہیں سکے گی اور ریت کی دیوار ثابت ہو گی۔یہ تاثر خاصی حد تک غلط ہے۔ افغان نیشنل آرمی کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کے افسر بیشتر تاجک اور ازبک ہیں لیکن امریکہ نے اس فوج کی تشکیل اور ٹریننگ پر بہت سرمایہ لگایا ہے اور محنت کی ہے۔صائب رائے یہ ہے کہ یہ فوج شاید پورے ملک‘ خاص طور پر پشتون آبادی والے دیہی علاقوں کو کنٹرول نہ کر سکے لیکن شہروں پر اس کا کنٹرول ہو گا۔یاد رہے کہ سوویت افواج کے جانے کے بعد بھی کابل میں نجیب اللہ کی حکومت رہی تھی۔افغان فوج تب بے حوصلہ ہوئی تھی جب سوویت یونین کے حصے بخرے ہونا شروع ہوئے۔مجھے مستقبل قریب میں امریکہ کے حصے بخرے ہونے کا کوئی چانس نظر نہیں آتا۔ اور افغان نیشنل آرمی کو امریکہ کی آشیر باد حاصل رہے گی۔
اس دفعہ افغان طالبان نے طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی تو ناکامی کا چانس نظر آتا ہے۔آج کا افغانستان 1996ء سے بہت مختلف ہے۔ اور ایسی کوشش ہوئی تو امریکہ اور بھارت طالبان کے مدمقابل ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ ایران اور چین بشمول روس کے طالبان مخالف قوتوں کی مدد کریں۔لہٰذا اس نازک دور میں پاکستان کے لیے یہی بہتر ہے کہ اندرونی افغان تنازعات سے دور رہے بلکہ کوشش کرے کہ خطے کے دوسرے ممالک بھی غیر جانبدار رہیں ۔
پاکستان اور افغانستان نسلی دینی اور لسانی روابط میں منسلک ہیں ہمارا جغرافیہ ایک ہے۔دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون اشد ضروری ہے۔ماضی قریب میں پاکستان نے افغان امن کے لیے کوششیں کی ہیں اور یہ پالیسی جاری رہنی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں