"JDC" (space) message & send to 7575

بھٹو صاحب‘ چند یادیں

جب تاشقند کا معاہدہ ہوا تو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا سٹوڈنٹ تھا۔ عام تاثر یہ تھا کہ تاشقند میں ہم نے جیتی ہوئی جنگ ہار دی ہے۔ اس تاثر کو بعد میں بھٹو صاحب کے بیانات نے تقویت دی لیکن تاشقند کے جن رازوں سے انہوں نے پردہ اٹھانا تھا ،وہ آج بھی راز ہی ہیں۔ 1966ء کے گورنمنٹ کالج میں زیادہ تر کیرئیر بنانے والے سنجیدہ طالب علم تھے جو سیاست سے دور رہتے تھے، پھر بھی تاشقند میں معاہدے پر دستخط ہوئے تو کالج میں چھوٹا سا مظاہرہ ہو ہی گیا اور ایوب خان کے خلاف نعرے لگے۔ اس سارے عمل میں بنگالی طالب علم پیش پیش تھے۔ ہجوم جذباتی ہو رہا تھا۔ ہمارے معاشیات کے استاد شعیب ہاشمی ہمت کر کے آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ملک کو امن کی ضرورت ہے۔ تمہاری نعرے بازی غلط ہے۔ تاشقند میں جو ہوا، وہ صحیح سمت کی جانب قدم ہے۔ طالب علم تتر بتر ضرور ہو گئے لیکن وہ ہاشمی صاحب کی باتوں سے زیادہ متاثر نہ تھے۔ اُس وقت بھٹو صاحب کا استدلال بہت قوی لگتا تھا۔
بھٹو صاحب نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا یا لے لیا گیا۔ وہ اپنی فیملی کے ہمراہ بذریعہ ٹرین راولپنڈی سے لاہور آئے۔ گورنر ہائوس میں بھٹو فیملی کے کھانے کا انتظام تھا۔ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ تاشقند معاہدے پر اختلافات کی نوعیت شدید نہیں ہے اور چند ماہ تک بھٹو صاحب بھی یہ کہتے رہے کہ مسلم لیگ میں ہی رہتے ہوئے فارورڈ بلاک بنائیں گے۔ بھٹو صاحب بیرون ملک جبری سیر کر کے واپس وطن آ گئے۔ ایک روز پتہ چلا کہ وہ لاہور آئے ہوئے ہیں اور فلیٹیز ہوٹل میں قیام ہے۔ میں نے اور میرے دوست محمد پرویز نے فیصلہ کیا کہ بھٹو صاحب کو ملنے چلتے ہیں۔ ہوٹل پہنچے تو موصوف اپنے سویٹ کے ڈرائنگ روم میں چند لوگوں کے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ انڈونیشیا کے حالات خراب تھے اور یہی موضوعِ سخن تھا۔ بھٹو صاحب سے مصافحہ ہوا اور ہم نے اپنا تعارف کرایا۔ حکم ہوا کہ سامنے کونے میں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن والے بیٹھے ہیں، وہاں جا کر ممبر شپ فارم پُر کریں۔ بھٹو صاحب کو غالباً غلط فہمی ہوئی تھی کہ ہم فیڈریشن کے ممبر بننے آئے ہیں۔ بہرحال ہم نے اتمام حجت کے لیے فارم لے کر جیب میں ڈال لیے۔ چند لمحوں بعد ہم پھر بھٹو صاحب کے گرد دائرے میں شامل تھے۔ 
اتنے میں ایک چھوٹے قد کے منحنی سے صاحب نمودار ہوئے۔ کرتہ پاجامہ زیب تن تھا، ہاتھ میں بستہ نما چیز تھی۔ بھٹو صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ میں آپ میں پاکستان کا بہت بڑا لیڈر دیکھ رہا ہوں۔ یہ صاحب نجومی تھے اور غالباً اُن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ انہوں نے جلدی سے اپنے بستے سے چند اخباری تراشے نکالے اور بھٹو صاحب کو دکھائے۔ ایک تراشے میں پیشین گوئی تحریر تھی جو ایوب خان کے بارے میں تھی، جب وہ آرمی چیف تھے۔ نجومی نے یہ کہا تھا کہ ایوب خان پاکستان کے صدر بنیں گے۔ ساتھ ہی کہا کہ ایوب خان نے مجھے خوب ڈانٹا کہ میں سپاہی ہوں، میرا سیاست سے کیا کام؟ لیکن بعد میں وہ اقتدار میں آئے۔ دوسرے تراشے میں شہنشاہ ایران کے ولی عہد کی ولادت کے بارے میں پیشین گوئی تھی، جو درست ثابت ہوئی۔ یہ اور بات کہ ولی عہد کو تخت نشینی نصیب نہ ہوئی لیکن میں بات 1966ء کی کر رہا ہوں جب شاہِ ایران کے اقتدار کا سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ پھر نجومی نے تیسرا تراشہ نکالا جس میں یہ پیشین گوئی تھی کہ بھٹو صاحب پاکستان کے حکمران ہوں گے۔ بھٹو صاحب نجومی سے واضح طور پر متاثر ہوئے اور اُسے ایک علیحدہ کمرے میں لے گئے۔ نجومی کے ساتھ بات چیت اتنی طویل ہوئی کہ ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ 
چند روز بعد ہم دوبارہ فلیٹیز ہوٹل پہنچے۔ دن کا وقت تھا اور کوئی آدھے گھنٹے بعد بھٹو صاحب نے لنچ کرنا تھا۔ حاضرین میں حبیب جالب مرحوم بھی موجود تھے۔ ہر قسم کے مشروبات چل رہے تھے۔ بھٹو صاحب جب جبری سیر کے لیے بیروت اور یورپ گئے تھے تو جالب نے مشہور نظم لکھی تھی جس کا مطلع تھا ع
دشتِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا
بھٹو صاحب نے اس نظم کی فرمائش کی۔ جالب نے ترنم سے اشعار سنائے۔ پھر بھٹو صاحب کہنے لگے ایوب خان کے دستور کے بارے اشعار سنائیے اور اب جالب کی آواز کا شعلہ لپک رہا تھا ع
ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
اور مجھے پنجاب یونیورسٹی سینیٹ ہال میں 1962ء کی بھٹو صاحب کی وہ تقریر یاد آ گئی جب موصوف نے پوری قوت کے ساتھ ایوب خان کے دستور کی حمایت کی تھی۔ جب جمعیت کے ایک لیڈر نے سوال کیا کہ یہ آئین تو فردِ واحد کی تخلیق ہے، اس پر قومی اجماع نہیں تو بھٹو صاحب نے اُسے سختی سے چپ رہنے کو کہا تھا۔ چار سال کے عرصہ میں بھٹو صاحب کی سوچ بدل چکی تھی۔ اُس زمانے میں گورنمنٹ کالج میں ایک سُرخ سٹوڈنٹ لیڈر تھے، جن کا نام امان اللہ خان تھا۔ یہ کالج کے پرانے خلیفے تھے اور ہر سال فیل ہوتے تھے۔ سیاست اُن کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ ابتدائی جیالوں میں شامل تھے لیکن بعد میں پیپلز پارٹی سے مایوس ہو گئے۔ میں نے امان اللہ خان سے بھٹو صاحب سے ملاقاتوں کا ذکر تفصیل سے کیا۔ کہنے لگے کہ ہم نے لیڈر سے کہا کہ بعض قسم کے مشروبات ہر کسی کے سامنے نہیں پینا چاہئیں، ساتھ ہی امان اللہ نے کہا کہ لیڈر نے اس بات پر حیرانی کا اظہارکیا کہ واقعی ایسا ہے؟اُس زمانے کے رواج کے مطابق میں نے مقابلے کا امتحان دیا اور فارن سروس میں آ گیا۔ بھٹو صاحب کی انتظامی اصلاحات آئیں۔ سرکاری ملازمت سے آئینی گارنٹی واپس لے لی گئی۔ سیاستدانوں کی طرف سے سرکاری افسروں کو ذاتی ملازم بنانے کا رجحان شروع ہوا، جس کے بعد میں بے حد منفی نتائج نکلے۔ عدم تحفظ کی وجہ سے بیورو کریسی میں کرپشن کا رجحان بڑھا۔ پھر بھٹو صاحب کی لیٹرل انٹری آئی، جس میں اچھے افسر بھی آئے لیکن بہت سے سفارشی بھی۔ فارن سروس میں سو سے زائد افسر بھرتی ہوئے۔ جو لوگ میرٹ پر یعنی مقابلے کا سالانہ امتحان دے کر آئے تھے، اُن کی پروموشن کے امکانات بہت کم ہو گئے۔ پھر دلائی کیمپ جیسی خبریں آنے لگیں۔ جے اے رحیم جیسے وفادار مگر جرأت مند سوشلسٹ، پارٹی سے رخصت ہوئے۔ اس دور نے مجھے بھٹو صاحب کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ 
لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو صاحب بہت ذہین اور محنتی لیڈر تھے۔ انہوں نے 1973ء میں متفقہ آئین بھی قوم کو دیا۔ ہاری ہوئی قوم کو حوصلہ دیا۔ بھارت سے نوے ہزار قیدی واپس لائے۔ 
بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو میں بیرون ملک تھا۔ پھانسی سے پہلے حکومت پاکستان نے دوست ممالک کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے خصوصی ایلچی بھیجے گئے۔ مجھے یاد ہے مرحوم نیاز نائیک ابو ظہبی میں شیخ زید بن سلطان کو بھٹو کی برائیاں اپنے بریف کے مطابق سنا رہے تھے۔ شیخ زید غور سے سنتے رہے اور مختصر سا جواب دیا کہ الزامات تو خدا کے پیغمبروں پر بھی لگا کرتے تھے۔ 
بھٹو صاحب کے بارے میں میرے خیالات اب ملے جلے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ شان سے مقتل کی طرف گئے اور معافی طلب نہ کی۔ عوام میں اب بھی اُن کے چاہنے والے بہت ہیں کہ بھٹو صاحب نے عام آدمی کو عزت نفس دی، اذنِ کلام دیا۔ 
میں نے 1970ء میں اپنی زندگی کا پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کو دیا تھا اور 2013ء میں تحریک انصاف کو۔ مگر اب بھی راولپنڈی کے کچہری چوک سے گزرتا ہوں تو مجھے بھٹو صاحب یاد ضرور آتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں