"JDC" (space) message & send to 7575

پہلی دفاعی لائن

مُسلَّم ہے کہ کسی بھی ملک کی وزارت خارجہ اس کی پہلی دفاعی لائن کا کام کرتی ہے۔دوسرے ممالک سے تعاون استوار کرنے‘ تجارت بڑھانے اور ملک کا امیج بہتر کرنے میں سفارت کاروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔دنیا کے اہم ممالک میں ہونے والی سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کا بروقت ادراک کرنے میں سفیر حضرات بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔پاکستان کو اہم مسائل پر کیا پوزیشن لینی چاہیے‘ سفیر اس بات کا بھی باقاعدگی سے مشورہ دیتے رہتے ہیں۔وزارت خارجہ کے افسر تقریبا ً بیس سال کی سروس اور اچھی کارکردگی کی بنا پر پہلی مرتبہ سفیر بنتے ہیں۔
یہ بھی محل نظر رہے کہ ایک سفیر کی پوسٹنگ پر لاکھوں روپے صرف ہوتے ہیں۔اگر سفیر کمزور ہو گا تو لاکھوں روپیہ ضائع جائے گا اور جگ ہنسائی علیحدہ ہو گی۔ہمارے ہاں بوجوہ نان کیریئر سفیروں کا غلط انتخاب ہوتا ہے۔ ایک تو ہمیں یہ غلط فہمی ہے کہ ہر شخص سفیر کا کام کر سکتا ہے چنانچہ بینکار‘ پروفیسر‘ وکیل ‘سیاست دان اور ریٹائرڈ فوجی افسر سب سفیر بنا کر بھیج دیے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کامیاب سفارت کار بہت کم ہوتے ہیں۔ میرے ذہن میں صاحبزادہ یعقوب خان‘ جمشید مارکر اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی کامیاب سفارت کاروں کی مثال ہیں جبکہ درجنوں دوسرے نان کیریئر سفراء نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف جس کی وجہ سے مجھے اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ہوئی۔سید حسن رضا کو پچھلے سال اپریل میں بطور سفیر قطر بھیجا گیا اور اس سال فروری میں وہ ملائشیا چلے گئے کہ حکم سرکار تھا۔ گویا یہ سفیر کبیر صرف دس ماہ قطر میں رہے اور ان دس ماہ میں سے بھی پانچ ماہ وہ لاہور میں ٹریننگ کے لیے رہے۔اب ان کی جگہ ایک بینکار کو بھیجا جا رہا ہے۔حسن رضا کا شمار وزارت خارجہ کے اچھے افسروں میں ہوتا ہے۔وہ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک کے پڑھے ہوئے ہیں۔جب جدہ میں تھے تو او آئی سی کے سیکرٹری جنرل جناب احسان اوگلو کی نظر انتخاب ان پر پڑی اور تین سال تک وہ اسلامی تنظیم کے سیاسی اور قانونی امور کے ڈائریکٹر رہے۔ملائشیا ایک اہم ملک ہے جہاں حسن رضا کو موجودہ حکومت نے بھیجا ہے گویا ایک طرح سے افسر کی پروموشن ہوئی ہے۔دریں اثناء حکومت پاکستان نے قطر سے مائع گیس امپورٹ کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔ اس خبر نے اس تبادلے کو یار لوگوں کے لیے دلچسپ بنا دیا ہے۔
نان کیریئر سفراء کے نامناسب انتخاب کی دوسری وجہ فیورٹ زم یا میرٹ سے چشم پوشی ہے۔کیا کروں 1998ء کا سال مجھے بھلائے نہیں بھولتا۔اس سال مجھے برما میں چند ماہ کے بعد رخصتی کے احکامات ملے تھے۔ حسن رضا کی اشک شوئی تو بڑے ملک بھیج کر‘ کر دی گئی ہے۔ مجھے جزائر مالدیپ جانے کا حکم ہوا تھا جہاں بچوں کی تعلیم کا معقول انتظام نہ تھا چنانچہ میں نے اسلام آباد میں جوتے چٹخانے کو ترجیح دی تھی۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وزارت خارجہ نے بھی بغیر اُف کئے مالدیپ کے احکام جاری کر دیئے تھے کہ بیچاری غریب کی جورو کی طرح سب کی بھاوج ٹھہری۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 1998ء میں چار نان کیریئر سفیر بنائے گئے تھے۔برما میں عامر حفیظ بٹ کو بھیجا گیا جو ایک نجی کمپنی میں اکائونٹنٹ تھے اور حاکم وقت کے قریبی عزیز۔بحرین میں ایک ریٹائرڈ کرنل کو بھیجا گیا۔ان کی ایک کوالیفکیشن یہ تھی کہ کیپٹن صفدر کے رشتہ دار تھے۔ڈنمارک میں قرعہ فال پروفیسر عطاء الحق قاسمی کے نام نکلا۔نیروبی کے لیے حمید اصغر قدوائی منتخب ہوئے۔ان کا تعلق بنک سے تھا۔ان چاروں میں سے قاسمی صاحب پڑھے لکھے تھے‘ باقی تینوں پر یہ تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔اکتوبر 1999ء میں جمہوریت کی بساط الٹی تو ان میں سے بشمول قاسمی صاحب‘ تین کی چھٹی ہو گئی۔صرف حمید اصغر قدوائی نیروبی میں ڈٹے رہے۔ ہمارے نظام کے کھوکھلے پن کا یہ واضح ثبوت تھا۔
جنرل مشرف نے راج سنگھاسن سنبھالا تو انڈونیشیا میں ایک ریٹائرڈ جنرل کو بطور سفیر بھیجا۔انہیں نہ جانے کیا سوجھی کہ حکومت پاکستان کی دو شاندار عمارتیں وزارت خارجہ کی منظوری کے بغیر بیچ ڈالیں۔وزارت خارجہ نے پھر اُف تک نہ کی بلکہ جس افسر نے شور مچایا اسے سالہاسال تک او ایس ڈی رہنا پڑا اور اس حالت میں اس نے دار فانی کو خدا حافظ کہا۔کوئی دو سال ہونے کو آئے‘ پی اے سی نے متعلقہ جنرل اور اس وقت کے وزارت خارجہ کے افسروں کو بلایالیکن 
زمین پر اُنڈیلا گیا دودھ استعمال نہیں ہو سکتا۔ جس علاقے میں وہ شاندار عمارتیں تھیں وہ علاقہ میں نے دیکھا ہے یہ جکارتہ کا دل ہے اور بہت ہی مہنگا‘ اب جس نئی جگہ عمارتیں بنائیں گئی ہیں وہ وہاں سے دور بھی ہے اور پلاٹ کا سائز بھی چھوٹا ہے۔جنرل صاحب نے جن کا نام غالباً مصطفی انور حسین تھا‘ یہ کام کیوں کیا شاید وہ خود اس کی بہتر تشریح کر سکیں۔سفارت کاری اب ٹیکنیکل کام بن گیا ہے۔ اپنی پہلی دفاعی لائن کو مضبوط بنانے کے لیے افسروں اور سفیروں کی میرٹ پر تقرری ضروری ہے ۔اقربا پروری اور یار دوستوں کو خوش رکھنے کے لیے اگر حکمران اپنے منظور نظر بطور سفیر بھیجتے رہے تو نقصان ملک کا ہو گا۔سفارت خانے عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں ۔بٹلر نما نان کیریئر سفیر لگا کر حکمران اپنی جھوٹی انا کی تسکین کرتے ہیں۔ جب یہ باہر جاتے ہیں تو ایسے خوشامدی سفیر ان کے پروٹوکول میں لگے رہتے ہیں۔ میں یہاں اس تاثر کو زائل کرنا چاہتا ہوں کہ وزارت خارجہ کے تمام افسر ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہیں۔ اپنی ملازمت کے دوران میں نے دو فارن سیکرٹری ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اصولوں کی خاطر اپنا عہدہ چھوڑ دیا لیکن ایسے بہادرلوگ علیحدہ کالم کے حقدار ہیں۔
یہاں میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ اچھے سفارت کار اچھی تربیت اور تجربے سے بنتے ہیں۔ اور یہ تصور کہ ہر کوئی اچھا سفیر بن سکتا ہے‘ غلط ہے۔ہمارا دور سپیشلائزیشن کا دور ہے۔ جس طرح‘ اچھے سے اچھا بیورو کریٹ براہ راست کور کمانڈر نہیں بن سکتا‘ اسی طرح اچھے سے اچھا ریٹائرڈ جرنیل ضروری نہیں کہ اچھا سفیر بھی ثابت ہو۔دونوں پیشوں کی ٹریننگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ایک پیشے کا مقصد حربی اہداف ہیں اور دوسرے کا صلح جوئی اور امن کے لیے کوششیں۔دونوں قومی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں لیکن راہیں جدا ہیں۔ اور پھر ہمارا دور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ یورپ کے ترقی یافتہ جمہوری ملک اکثر فوجی بیک گرائونڈ کے افسروں کو بطور سفیر قبول ہی نہیں کرتے میرے ایک دوست مسٹر"Know all" ہیں‘ اردو میں ہم انہیں ہمہ دان کہہ سکتے ہیں۔ وہ حکومتوں کے ناکردہ گناہوں کی پیشین گوئی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ حکومت فوجی ہو یا سویلین‘ پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ کی‘ انہیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کس محکمے میں کس جگہ واردات ہونے والی ہے۔کچھ پیشین گوئیاں ان کی صحیح نکلی ہیں اور اکثر غلط۔پچھلے دنوں میرے پاس آئے اور کہنے لگے‘ دوحہ میں واردات ہونے والی ہے۔وہاں سے مائع گیس درآمد ہو گی اسی لیے سفیر کو تبدیل کیا گیا ہے۔میں نے سمجھایا کہ سفیر کا تیل اور گیس کی خریداری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن موصوف بضد ہیں کہ تعلق ہو سکتا ہے۔ساتھ ہی کہنے لگے کہ آنجہانی احتساب بیورو والے سیف الرحمن بھی تو وہیں ہیں ۔میں نے پھر بھی قائل ہونے سے انکار کر دیا کہ سیف الرحمن تو کرپٹ لوگوں کو پکڑا کرتے تھے۔ تنگ آ کر کہنے لگے تمہیں سمجھ نہیں آئے گی‘ دنیا بہت ترقی کر چکی ہے۔
اس سارے قصے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی دفاعی لائن کے لیے افسر صرف اور صرف میرٹ پر سیلیکٹ ہونا چاہئیں۔ جس کا کام ہے اسے کرنے دیں۔شاہد آفریدی کو ہاکی ٹیم کا کپتان بنا دیں گے تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔بدنامی علیحدہ ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں