"JDC" (space) message & send to 7575

القاعدہ اور اسامہ بن لادن

گیارہ ستمبر2001ء کے واقعہ نے دنیا ہلاکر رکھ دی۔ سکیورٹی اور بین الاقوامی تعلقات کا مفہوم بدل ڈالا۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اب بھی کہتے ہیں کہ یہ محض ڈرامہ اورمسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھنائونی سازش تھی۔ پچھلے دنوں اسامہ بن لادن کی تیسری برسی تھی تو بین الاقوامی میڈیا میں پھر اسامہ کا ذکر چھڑا۔ دراصل اسامہ اور القاعدہ لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ القاعدہ کا بانی اسامہ ہی تھا لیکن اس تنظیم کے اصل بانی ڈاکٹر عبداللہ عزام ہیں۔ وہ جدہ کی ملک عبدالعزیز یونیورسٹی میں اسامہ کے استاد تھے۔ القاعدہ کی بنیاد موصوف نے 1988ء میں پشاور میں رکھی۔ اسامہ بانی ممبران میں ضرور شامل تھا۔ شروع میں القاعدہ کا کام زیادہ تر رفاہی تھا۔ عرب جنگجو جو افغانستان میں لڑرہے تھے ان کا خیال رکھنا اور مختلف عرب ملکوں میں ان کے اہلخانہ سے رابطہ رکھنا بنیادی کام تھا۔ ان تمام لوگوں کے کوائف ایک رجسٹر میں درج تھے اور اس رجسٹر کو القاعدہ کہا گیا۔
اگلے ہی سال یعنی 1989ء میں شیخ عزام ایک حملہ میں مارے گئے اور قیادت اسامہ کے پاس آگئی۔ عبداللہ عزام فلسطینی تھے ان کی تعلیم و تربیت قاہرہ میں ہوئی۔ اخوان المسلمین کے افکار سے متاثر تھے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعودی عرب آگئے اور جدہ کی یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔نوجوان طالب علموں میں اخوان کی فکر کی ترویج کا کام بھی کرتے تھے ان کے خیالات اور سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں جدہ یونیورسٹی سے فارغ کردیاگیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے فوجی قبضے کے خلاف مزاحمت شروع ہوچکی تھی۔ عرب نوجوان جوق در جوق لڑنے کے لیے براستہ پاکستان افغانستان جانے لگے۔ شیخ عزام اور ان کے بعد اسامہ بن لادن بھی پشاور چلے آئے۔ شیخ عزام کی قیادت اور اسامہ بن لادن کی دولت نے مل کر ایک مضبوط تنظیم کی بنیاد رکھی جو چوتھائی صدی گزرنے کے بعد آج بھی زندہ ہے۔
اسامہ بن لادن 1957ء میں ریاض میں پیدا ہوا۔ بن لادن فیملی ارب پتی ہے اورسعودی عرب میں بڑے بڑے تعمیراتی ٹھیکے بن لادن کمپنی کے پاس تھے۔ مکہ اور مدینہ منورہ میں حرمین کی توسیع میں اس کمپنی کا کلیدی کردار رہا۔ اسامہ کے والد سعودی شاہی خاندان کے مقربین میں شمار ہوتے تھے اور اس کی بڑی وجہ ان کی کمپنی کی شاندار کارکردگی تھی۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ اسامہ منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوئے تو بالکل غلط نہ ہوگا۔ والد کی وفات کے وقت خاندان کے اثاثوں میں اسامہ کا حصہ تیس کروڑ ڈالر کے برابر تھا۔ اسامہ نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ القاعدہ پر صرف کیا اور خود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔
پچھلے دنوں مشہور عرب صحافی عبدالباری عطوان کی اسامہ کے بارے میں تازہ کتاب پڑھی تو اس کی زندگی کے نئے زاویے سامنے آئے۔ میرے ذہن میں دو سوال پیدا ہوئے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد اور سپر پاور کی انتہائی دشمنی کے باوجود یہ تنظیم آج بھی زندہ ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ اسامہ کے بعد القاعدہ اپنی طبعی موت مر جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ القاعدہ آج بھی شام اور یمن میں متحرک ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن جیسے دولت مند انسان نے پرآسائش زندگی کی بجائے دکھوں بھرے جیون اور مہم جوئی کا انتخاب کیوں کیا؟ ان سوالوں کے جواب تاریخ دے گی۔ 
میں یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ اسامہ میرے نزدیک ہیرو نہیں ہے۔ اس کے اعمال کی وجہ سے عالم اسلامی کو بے حد نقصان ہوا اور پھر ا سلام میں تو ایک بے گناہ کا عمداً قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو پھر کیا بات ہے کہ اسلامی ممالک میں آج بھی ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اسامہ کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ فقط جہالت ہے ،یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔
دراصل پراسرار زندگی اور مہم جو شخصیت کا اپنا سحر ہوتا ہے جو عام انسان کے لیے پرکشش ہوتا ہے۔ عام انسان جو کچھ نہیں کرسکتا وہ اسے اپنے ہیرو میں نظرآجائے تو وہ سپرہیرو بن جاتا ہے۔ عبدالباری عطوان کے بیان کردہ ایک دلچسپ قصے سے بات کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔ عطوان جو لندن سے مشہور عربی اخبار القدس العربی نکالتا ہے۔وہ 1996ء میں ،اسامہ بن لادن کے انٹرویو کے لیے افغانستان آیا اور تین روز اسامہ کے ساتھ ایک غار میں گزارے کہ یہی اسامہ کا مسکن تھا۔ رات ہوئی تو عطوان نے پوچھا کہ کہاں سونا ہے ۔اسامہ نے جواب دیا ،میں اسی غار میں سوتا ہوں۔ لکڑی کے پھٹوں سے بنا ہوا عجیب سا بہت بڑا بیڈ تھا۔ بیڈ کے نیچے درجنوں ہینڈ گرنیڈ پڑے ہوئے تھے۔ چھت سے بندوقیں لٹک رہی تھیں۔دیواروں پر بے شمار پستول لگے ہوئے تھے۔ عطوان کا کہنا ہے کہ مجھے ساری رات نیند نہیں آئی جبکہ اس بیڈ پر اسامہ کلاشنکوف کو سینے سے لگائے خوب گہری نیند سوتا رہا۔
سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد اسامہ واپس سعودی عرب چلا گیا۔1990ء میں کویت پر صدام نے قبضہ کیا تو امریکی فوج آگئی اور بھی ممالک سے افواج ،سعودی حکومت کی درخواست پر آئیں ۔یاد رہے کہ ان میں مصری ، شامی اور پاکستانی افواج بھی شامل تھیں۔اسامہ کو دیار مقدسہ میں امریکی افواج کے آنے کا شدید دکھ تھا۔ اسی دوران اسامہ کی شاہ فہد سے ایک اہم ملاقات ہوئی۔ اسامہ نے بادشاہ کو باور کرانے کی کوشش کی کہ کویت کو آزاد کرانے کے لیے امریکی مددکی چنداں ضرورت نہیں۔ یہی کام افغانستان سے جہادیوں کو لاکر کیاجاسکتا ہے۔ شاہ فہد نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور اسامہ کی بات نہیں مانی ورنہ سعودی عرب کا بھی وہی حشر ہوتا جو آج پاکستان کا ہورہا ہے۔القاعدہ نے سعودی عرب میں امریکہ مخالف کارروائیاں کیں تو اسامہ کی سعودی شہریت منسوخ کردی گئی۔ اسے سوڈان میں پناہ لینا پڑی۔
عطوان بھی القاعدہ کا ہم خیال نہیں ہے لیکن اس کی کتاب سے اسامہ بن لادن کا جو تصور ابھرتا ہے وہ ظالم قاتل کا نہیں ہے۔ اسامہ اسلامی شعائر کا سختی سے پابند تھا۔ اسے عربی شاعری سے گہرا شغف تھا۔ گھڑ سواری اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اسامہ میں تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ بہت دھیمے لہجے میں بات کرتا اوراولاد کو ہمیشہ سادگی کی تلقین کرتا تھا۔ وفات کے وقت اس کے پاس صرف چھ جوڑے شلوار قمیض تھے۔ تین گرمیوں اور تین سردیوں کے ،دو سویٹر تھے اور فقط ایک کوٹ ۔اسامہ نے پانچ شادیاں کیں۔ وفات کے وقت چار بیویاں اس کے عقد میں تھیں۔ ایک دفعہ ایک مغربی صحافی نے چار شادیاں کرنے کی وجہ پوچھی تو اسامہ نے مذاقاً جواب دیا کہ اس سے مرد کو ہر وقت دولہا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ اسامہ کی زندگی کا واحد مزاحیہ جملہ ہے جو ریکارڈ کیاگیا ۔ ورنہ عام طور پر سنجیدگی مزاج پر غالب رہی۔
اسامہ کی بڑی بیوی خیریہ اس سے عمر میں آٹھ سال بڑی تھی اور سب سے چھوٹی امل پچیس سال چھوٹی تھی۔ مغربی میڈیا نے اس کہانی کو ترویج دی ہے کہ اسامہ کی توجہ امل پر مرکوز رہتی تھی۔ بڑی بیویاں ، امل سے شدید حسد کرتی تھیں اور اسامہ سے نالاں رہتی تھیں لہٰذا خیریہ نے کویتی قاصد کو کہا کہ اسامہ کے ایبٹ آباد میں ہونے کی خبر متعلقہ اشخاص کو دے لیکن یہ بات بے پرکی لگتی ہے کہ اس سے بیویوں کی اپنی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔
ایک اور معروف عرب صحافی رامی خوری کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی پیدائش بیک وقت افغانستان کے پہاڑوں اور مصر کی جیلوں میں ہوئی۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری اور ان کے ساتھیوں نے مصری جیلوں میں بہت تشدد دیکھا جس کا بدلہ انہوں نے اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر حملہ کرکے لیا۔آج کی القاعدہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ مختلف ملکوں میں اس کی شاخیں ہیں۔ اب کمانڈ اور کنٹرول اپنی مرکزیت کھو بیٹھا ہے۔ لیکن تنظیم میں فکری رابطہ ہے اور اس کی طاقت میں کمی نہیں آئی۔ اب یہ پاکستان اور افغانستان کو چھوڑ کردوسرے خطوں میں چلی گئی ہے۔ لیکن امریکن ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری پاکستان میں ہی ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو۔ ایبٹ آباد پر امریکی حملے سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی تھی ۔خدا کرے دوبارہ ایسا نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں