"JDC" (space) message & send to 7575

ون پوائنٹ ایجنڈا

کوئی لاکھ کہتا رہے کہ نریندر مودی نے پاکستان کو چارج شیٹ نہیں دی‘ لیکن یہ تاثر عام ہے کہ بھارت کے لیے سب سے اہم ایجنڈا پوائنٹ‘ ممبئی کا واقعہ ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک تھا تو وہ بی جے پی حکومت کی وزیر خارجہ شریمتی سشما سوراج نے دور کردیا کہ جب تک دہشت گردی کے بموں کی گھن گرج قائم ہے‘ امن کی بات کسی کو سنائی نہ دے گی۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت کہتا تھا کہ پاکستان کی سوئی ہر وقت کشمیر پر اٹکی رہتی ہے۔ اب وہی بات بھارت کے بارے میں کہی جاسکتی ہے کہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے ذاتی فعل نے چھ سال سے برصغیر میں امن کوششوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ دہشت گرداپنے مقاصد میں کامیاب رہے کہ انہوں نے حکومتی رویوں کو بدل ڈالا۔
یاد ہوگا چند سال پہلے مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں من موہن ،گیلانی ملاقات ہوئی تھی۔ مشترکہ اعلامیے میں یہ کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردوں کو‘ امن کے لیے کوششوں پر‘ اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ مگر بعد میں کیا ہوا ع 
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
من موہن سنگھ واپس بھارت گئے تو میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور وہ حال کیا کہ موصوف خواہش کے باوجود چکوال بھی نہ آسکے۔معتبر بھارتی اخبار ہندو نے لکھا ہے کہ مودی کی نوازشریف کو کونے میں دھکیلنے والی پالیسی ٹھیک نہیں اور اب یہ بات عیاں ہے کہ نوازشریف کو حلف برداری کی تقریب میں سوچ سمجھ کربلایاگیا۔ اس فیصلے کے پیچھے بھارتی بزنس لابی کا بھی ہاتھ تھا۔
پس پردہ رابطے پہلے سے ہوچکے تھے اور میری رائے میں ہمارے وزیراعظم کا بھارت جانا صحیح فیصلہ تھا۔ دونوں وزرائے اعظم ترقی کے ایجنڈے کواہمیت دے رہے ہیں۔ پاکستان کئی محاذوں پر لڑرہا ہے لہٰذا مشرقی سرحد کو گرم نہ ہونے دینا ہمارے مفاد میں ہے۔ بھارت کو بھی پاکستان ، افغانستان اور وسط ایشیا کی وسیع منڈی نظر آرہی ہے جو اس صورت میں میسر آئے گی کہ پاکستان راہداری دے۔
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم مودی نے ممبئی کا قصہ کیوں اٹھایا۔ اس کا جواب سیدھا سا ہے کہ الیکشن سے پہلے وہ پاکستان کے خلاف اتنے نعرے لگاچکے ہیں کہ اگر وہ مکمل خاموش رہتے تو بھارتی میڈیا اور رائے عامہ ضرور کہتے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ بھارت کئی سالوں سے کہہ رہا ہے کہ ہم عالمی قوت بننے ہی والے ہیں۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک عالمی قوت کے بہت بڑے شہر کو چند دہشت گرد لڑکے جاکر دو دن تک یرغمال بنائے رکھیں۔ ممبئی کا واقعہ حقیقتاً بھارت کے لیے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ اس کے زخم ابھی تک مکمل مندمل نہیں ہوسکے۔
یاد ہوگا کہ ممبئی کے واقعہ کے فوراً بعد بھارت نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان ڈی جی‘ آئی ایس آئی کو بھیجے اور جلد بازی میں ہاں کردی گئی تھی۔ بعد میں یہ وعدہ واپس لینا پڑا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ممبئی کے واقعے کے بارے میں پاکستان بھارت کی زخم خوردہ انا کو تسکین دینے کے لیے کیا کرے ۔ کیا وہ حافظ سعید کو بھارت کے حوالے کردے ۔ ایسا ممکن نہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حافظ سعید کو پاکستانی عدالت نے بری کیا ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ معاملہ حافظ سعید کی حوالگی یا سزا سے ہی ختم ہوجائے گا اور بھارت کے مطالبات کا سلسلہ دراز نہیں ہوتا جائے گا؟
پاکستان کے حوالے سے‘ بھارت کو امریکہ کی نقل کرنے کا شوق بھی کبھی کبھی چراتا ہے۔ ممبئی کے واقعہ کے بعد بھارت سرکار اس بات پر بھی غور کرتی رہی کہ مریدکے پر دو چار بم برسادیئے جائیں تاکہ پاکستان کو سبق سکھا دیاجائے اور بھارت کی مجروح انا کی تسکین ہوجائے۔ اس آپشن کے حق میں رائے یہ تھی کہ وہ دہشت گرد جو پاکستانی قبائلی علاقوں سے امریکی افواج پر افغانستان میں حملے کرتے ہیں ان کے تعاقب میں امریکی ڈرون بھی تو پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ لیکن پھر کسی عقل مند بنیے کو خیال آیا ایسی صورت میں پاکستانی فضائیہ ضرور کارروائی کرے گی کیونکہ بھارت اور امریکہ میں بہت فرق ہے اور دوسرے مریدکے‘ قبائلی علاقے میں واقع نہیں ہے۔
تو پھر ایسی صورت میں کیا پاکستان ممبئی واقعہ کے دوسرے ملزموں کو عدالتوں سے سزا دلوائے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتی اور سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اجمل قصاب کو عجلت میں پھانسی دے کر سارا کیس بھارت نے خود خراب کرلیا۔ واقعہ کے چشم دید گواہوں کے بیان ریکارڈ کرنے کی تو پاکستانی افسران کو اجازت دی گئی لیکن پاکستانی وکلا کو جرح کرنے سے منع کردیاگیا۔ ان حالات میں اگر بھارت اپنے مطلب کا فیصلہ پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی۔
میں بھارت سے مستقل مخاصمت کا ہرگز حامی نہیں اس لیے کہ سفارت کار کی بیشتر عمر صلح‘ امن اور تعاون کی راہیں ڈھونڈنے میں گزرتی ہے۔ بھارت سے لڑائیاں کرکے ہمیں کیا حاصل ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ بھارت کے بارے میں پاکستانی ذہن یکسو نہیں۔ ہمیں بھارتی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ بھارتی کیلا ہم شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن رائے عامہ پر حاوی کچھ ادارے اب بھی بھارت سے دوستی اور تعاون نہیں چاہتے اور ایسی ہی صورت حال سرحد کے اس پار بھی ہے۔ تجارت میں دونوں ملکوں کا فائدہ ہے؛ بشرطیکہ گرائونڈ ہموار ہو۔ میرے ایک دوست‘ جو زراعت میں پی ایچ ڈی ہیں‘ اگلے روز کہنے لگے کہ بھارتی کھاد‘ دبئی کے راستے پاکستان آرہی ہے اور آتے آتے اس کی قیمت دگنی ہوجاتی ہے ۔ اگر یہی کھاد براہ راست واہگہ سے آئے تو ہماری زرعی اجناس کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ تجارت اقتصادی خوشحالی کی راہیں کھولتی ہے اور جنگ جوئی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ تجارت کے ذریعے خوش حالی حاصل کرنے کی‘ سب سے بڑی مثال چین کی ہے۔ تجارت کے ذریعے امن بھی آتا ہے۔ آج کا چینی‘ امریکی معیشت کی بحالی کے لیے دعائیں مانگتا ہے‘ تاکہ چین کے قرضوں کی واپسی ممکن ہوسکے۔
دراصل زمینی حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے بھارت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ بھارت کی معیشت کچھ سال پہلے دنیا میں آٹھویں نمبر پر تھی اب یہ تیسرے نمبر پر آگئی ہے۔ گیارہ ستمبر اور ممبئی کے واقعے کے بعد پاکستان پر سیاسی دبائو بڑھ گیا ہے۔ اب بھارت کی بات ہر کوئی غور سے سنتا ہے۔
ان حالات میں بھارت سے دوستی اور تعاون درست پالیسی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ نوجوان لیبر مارکیٹ میں داخل ہورہے ہیں‘ اتنی ملازمتیں دینا حکومت کے بس کی بات نہیں لہٰذا فعال پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہی مسئلے کا حل ہے۔ فعال پرائیویٹ سیکٹر کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے خطے میں امن ازبس ضروری ہے۔ تو کیا پاکستان کو بھارت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے چاہئیں؟ میں ہرگز اس بات کے حق میں نہیں ہوں۔ بھارت کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے‘ ورنہ وزیراعظم نوازشریف کو دعوت ہی نہ آتی۔ بھارت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اس کا ون پوائنٹ ایجنڈا دونوں ملکوں کو نقصان پہنچائے گا ۔ مٹھی بھر دہشت گردوں کو پاک بھارت تعلقات پر حاوی کرنا عقلمندی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں