"JDC" (space) message & send to 7575

سٹین فورڈ یونیورسٹی

1884ء میں کیلی فورنیا کے گورنر لیلنڈ سٹین فورڈ کا اکلوتا بچہ سولہ سال کی عمر میں ہیضے کے مرض سے انتقال کرگیا۔ گورنر ارب پتی تھا اور امریکہ میں ریلوے کی ڈویلپمنٹ سے اسے بہت دولت حاصل ہوئی تھی یہ گورنر بننے سے پہلے کی بات ہے۔ گورنر سٹین فورڈ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر تو ہارورڈ جیسی معروف یونیورسٹی ہے لیکن مغربی ساحل اعلیٰ علمی ادارے سے محروم ہے۔ سٹین فورڈ نے اپنی تما م دولت سان فرانسسکو کے پاس نئی مادر علمی کے لیے وقف کردی۔ وفات پانے والے بیٹے کا نام بھی باب والا تھا ۔صرف اس کے ساتھ جونیئر کا لاحقہ لگا ہواتھا۔ '' اب کیلی فورنیا کے تمام بچے ہمارے بچے ہوں گے‘‘ گورنر نے اپنی بیوی سے کہا۔ 1891ء میں آٹھ ہزار ایک سو اسی ایکڑ پر محیط لیلینڈ سٹین فورڈ جونیئر یونیورسٹی مکمل ہوئی جو آج سٹین فورڈ یونیورسٹی کے نام سے معروف ہے۔
اس سال میرے بیٹے غالب حفیظ نے سٹین فورڈ سے ایم بی اے کیا ہے۔ 14جون کو اس کی گریجوایشن تھی جسے ہمارے ہاں کانووکیشن کہا جاتا ہے۔ میں 12جون کو سان فرانسسکو کے دیوہیکل ایئرپورٹ پر اترا تو بر خوردار غالب میرے استقبال کے لیے موجود تھا۔ سامان آگیا تو غالب مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ گھر جاکر آرام کرنا پسند کریں گے یا یونیورسٹی میں ہماری ایک خاتون پروفیسر کا الوداعی لیکچر سننا چاہیں گے۔ واشنگٹن سے چھ گھنٹے کے طویل ہوائی سفر کے باوجود میں نے لیکچر میں جانے کو ترجیح دی کیونکہ ایسے موقع پر بار بار نہیں آتے۔ لیکچر کا عنوان تھا Meaning of life یعنی زندگی کے معانی۔ پروفیسر صاحبہ کے اپنے بیٹے نے جو‘ ان کا شاگرد بھی رہا ہے‘ اپنی والدہ کا تعارف کرایا۔ ویسے تو اکثر سامعین انہیں اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے سٹوڈنٹ رہے تھے لیکن یہ انوکھا تعارف اس طرح سے تھا کہ بیٹے نے بطور والدہ اپنی استاد کی خاص عادات سے سامعین کو آگاہی دی۔ لیکچر میں جو باتیں کہی گئیں ان میں سے دو بہت اہم ہیں اور قارئین انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ ایک تو یہ تھی کہ امید اور رجائیت کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو کئی اور کھلتے ہیں گویا کہ فاضل پروفیسرلاتقنطُوامن رحمۃ اللہ کی تفسیر بیان کررہی تھیں۔ دوسرا اہم نقطہ یہ تھا کہ زندگی صرف اپنے لیے جینے کا نام نہیں۔ کامیاب زندگی کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ آپ نے دوسروں کے لیے کیا کیا۔
سٹین فورڈ یونیورسٹی ،ہارورڈ کا مقابلہ کرتی ہے بلکہ دو شعبوں میں شاید ہارورڈ سے بھی آگے ہو۔ اس یونیورسٹی کی اصل وجہ شہرت اس کا ریسرچ کا نظام ہے۔ اسی سال سو سے زیادہ لوگوں نے اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، سرکاری اور پرائیویٹ شعبوں میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ شہرت سپورٹس کا اعلیٰ معیار ہے۔ یونیورسٹی کی ساکھ اتنی اچھی ہے کہ متمول امریکی اسے شوق سے عطیات دیتے ہیں۔ 2012ء میں اس یونیورسٹی کو ایک ارب ڈالر سے اوپر بطور عطیات ملے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ یونیورسٹی کا بیس فیصد کے لگ بھگ بجٹ عطیات سے وصول ہوتا ہے۔ یہ عطیات عام طور پر اچھے سے اچھے استادوں کی تنخواہوں اور طالب علموں کو سکالر شپ دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کئی نوبل انعام یافتہ آج بھی یہاں پڑھا رہے ہیں۔ فیکلٹی کے معیار کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس بھی آج کل یہاں پڑھا رہی ہیں۔
یقین مانیے کہ سان فرانسسکو آنے تک مجھے علم نہ تھا کہ غالب میاں کی دو سال کی تعلیم پر کتنا خرچ اٹھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر اخراجات اس کی کمپنی نے ادا کیے ہیں لیکن کالم نگار کا تجسس پورا کرنے کے لیے میں نے پوچھ ہی لیا تو جواب ملا کہ دو لاکھ دس ہزار ڈالر یعنی تقریباً دو کروڑ دس لاکھ پاکستانی روپے۔ یونیورسٹی کا نائٹ مینجمنٹ سنٹر دنیا کے اعلیٰ ترین بزنس سکولوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ Phillip Knightکے ایک سو پانچ ملین ڈالر کے عطیے سے بنا ہے ۔ویسے بزنس سکول یہاں عشروں سے چل رہا ہے اور مسٹر نائٹ نے خود بھی یہیں سے 1962ء میں ایم بی اے کیا تھا۔ آپ نائکی (Nike) کے جوتوں اور سپورٹس کپڑوں سے واقف ہوں گے۔ اس بڑی بزنس ایمپائر کے مالک فلپ نائٹ ہی ہیں۔14جون کے کانووکیشن کے فنکشن میں مسٹر نائٹ، کی نوٹ (Key Note) سپیکر تھے ۔ نائٹ مینجمنٹ سنٹر کی وجہ سے بزنس سکول کی عمارتوں میں شاندار اضافہ ہوچکا ہے۔
اب میرا تجسس یہ تھا کہ اگر دو سال کی تعلیم پر دو کروڑ ورپے سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں تو کتنے فیصد طالب علم اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ پتہ چلا کہ تقریباً نصف طالب علم سکالر شپ پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک چوتھائی طالب علموں کو ان کی کمپنیاں سپانسر کرتی ہیں جبکہ بزنس سکول کے ایم بی اے کے چار سو طالب علموں میں سے ایک سو اپنی فیس خود ادا کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی متمول والدین کے بچے اپنی فیس سے زیادہ پیسے بطور عطیہ یونیورسٹی کو دیتے ہیں۔ داخلہ کی درخواست دینے والوں میں سے صرف چھ فیصد کو شرف قبولیت ملتا ہے جبکہ 94فیصد ناامید ہی لوٹتے ہیں۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی اپنے ریسرچ اداروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی اور سلیکون ویلی Silicon Valleyکاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ سٹین فورڈ والے فخر سے کہتے ہیں کہ اگر یہ یونیورسٹی نہ ہوتی تو آئی ٹی کے شعبے میں اتنی تیز ترقی نہ ہوتی۔ یونیورسٹی کے انجینئرنگ ، آئی ٹی اور بزنس مینجمنٹ کے شعبوں نے سلیکون ویلی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ جو انٹرنیٹ میں اور آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں یہ یہیں ایجاد ہوا۔ گوگل سرچ انجن جو ہمیں ہر روز نت نئی معلومات دیتا ہے ،سٹین فورڈ کے دو طالب علموں نے بنایا اور آج بھی وہی گوگل کمپنی کو چلارہے ہیں۔ گوگل کے علاوہ ایچ پی، ایپل اور دوسری بے شمار آئی ٹی سے متعلق کمپنیوں کے دفاتر سلیکون ویلی میں ہیں۔ آج کل یہاں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑی پر شب و روز ریسرچ ہورہی ہے۔ آپ یقین کریں کہ چند سالوں میں گاڑیاں بغیر ڈرائیوروں کے چلیں گی۔ آپ اور میں گاڑی میں آرام سے بیٹھ کر انٹرنیٹ پر اخبار پڑھیں گے اور ہماری گاڑی کا کمپیوٹر ہمیں خود بخود منزل مقصود پر لے جائے گا۔ اس سے حادثات بھی کم ہوجائیں گے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑی امریکی سڑکوں پر آچکی ہے۔ اس کا شور نہ ہونے کے برابر ہے اور دھواں، وہ تو نکلتا ہی نہیں۔
سٹین فورڈ یونیورسٹی کے تمام شعبے دیکھنے کے لیے کئی دن نہیں دو تین ہفتے درکار ہیں۔ یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دنیا جہاں کے کونوں سے سٹوڈنٹ یہاں علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں اور ان میں سے کئی سٹین فورڈ کے وظائف لے کر پڑھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ یونیورسٹی صرف امریکہ کی ہی نہیں پوری دنیا کی خدمت کررہی ہے۔ ایم بی اے کے اس سال کے طالب علموں میں سے صرف دو پاکستان سے تھے جبکہ انڈیا اور چائنہ کے طالب علموں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔
گورنر سٹین فورڈ نے اس یونیورسٹی کے لیے اتنے مالی وسائل چھوڑے ہیں کہ 1930ء تک یہاں طالب علموں سے فیس نہیں لی جاتی تھی۔ لیکن یونیورسٹی کی عمارتوں کو دو مرتبہ زلزلوں سے نقصان پہنچا اور مرمت پر کافی وسائل صرف ہوگئے۔ امریکہ میں دو طرح کی یونیورسٹیاں ہیں ایک سرکاری اور دوسری پرائیویٹ ۔سٹین فورڈ کا شمار موخرالذکر یعنی پرائیویٹ جامعات میں ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایم بی اے پاس کرنے کے لیے فائنل ایئر میں ایک بھی تحریری امتحان نہیں ہوتا۔ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کلاس میں طالب علموں کی کارکردگی کیسی رہی۔ ان کے ریسرچ پروجیکٹ کیسے تھے ۔ ان کے سوالوں کا معیار کیسا تھا۔ جب کسی موضوع پر بحث مباحثہ ہوا تو کس نے کتنی عقل کی باتیں کیں۔
14جون کو بزنس سکول نے ایم بی اے کی ڈگریاں دیں تو اگلے روز یعنی 15جون کو ایک اجتماعی کانووکیشن تھا جس میں تمام ڈیپارٹمنٹ شامل تھے۔ اس دن مائیکرو سافٹ والے بل گیٹس اور ان کی نصف بہتر ملنڈا گیٹس نے تقریریں کیں۔ یہ تقریب ایک بڑے سٹیڈیم میں ہوئی۔ ملنڈا گیٹس نے اپنی تقریر میں بتایا کہ کس طرح گیٹس فائونڈیشن کی کوششوں سے انڈیا میں ایڈز کا پھیلائو رکا ہے۔ میں کانووکیشن کے لیے دو عدد سوٹ اور ٹائیاں لے کر گیا تھا۔ ان میں سے صرف ایک عدد پہلے دن پہنا جاسکا۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی کا ماحول خاصا غیر رسمی یعنیInformalہے۔ پہلے دن بھی سوٹ اور ٹائی والے کم ہی نظرآئے۔ اکثر والدین بھی قمیض پینٹ میں ٹائی کے بغیر آئے ہوئے تھے ۔ ڈگریاں لینے والے کئی طالب علموں نے نیکر اور ٹی شرٹ پر گائوں پہنا ہوا تھا۔ لیکن پوری تقریب طریقے اور تمیز کے ساتھ ہوئی۔میں پھر یہی کہوں گا کہ ریسرچ اور اس کا اعلیٰ معیار اس یونیورسٹی کی روح ہے۔ ابھی حال ہی میں میڈیکل سکول کے ایک پروفیسر کو،جن کا نام ڈاکٹر رونالڈ لیوی ہے ، سعودی حکومت نے کنگ فیصل ایوارڈ دیاہے۔ وہ سٹین فورڈ یونیورسٹی میڈیکل سکول میں سرطان کے شعبے کا ہیڈ ہے۔ ریسرچ کے ذریعہ اس نے سرطان کے مرض کے علاج کے لیے نئی دوائی دریافت کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر رونالڈ لیوی یہودی ہے اور یہاں میڈیا نے سعودی حکومت کی علم دوستی اور مذہبی رواداری کی تعریف کی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ لیلنڈ سٹین فورڈ سینئر اور جونیئر دونوں کو اس یونیورسٹی کی وجہ سے اجر ملا ہوگا۔ میں جس دن بغیر ڈرائیور والی گاڑی میں سفر کروں گا تو باپ بیٹے کو یقیناً یاد کروں گا۔ وہ ایک نادر ادارہ چھوڑکر گئے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں