"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ کے بدلتے رنگ

علامہ اقبالؒ کو یقین تھا کہ زمانے میں ثبات صرف اور صرف تغیر یعنی تبدیلی کو ہے۔ ایک دیو مالائی کہانی میں جو کردار پیچھے کی طرف دیکھتا ہے وہ پتھر ہو جاتا ہے۔تو زندگی مسلسل تبدیلی کا نام ہے اس میں فرہاد والی لگن ہونی چاہیے تاکہ جوئے شیر کا راستہ بنانے کے لیے پہاڑوں کو کاٹا جا سکے۔شیریں جو کہ منزل مقصود کا مفہوم ہے ،صرف آگے بڑھنے اور محنت سے حاصل ہوتی ہے۔من حیث القوم امریکیوں میں آگے بڑھنے کی لگن نمایاں ہے۔عام خیال یہ ہے کہ مہاجر زیادہ محنتی ہوتے ہیں اور امریکہ کی بیشتر آبادی مہاجروں پر مشتمل ہے۔آج امریکہ کے ہر بڑے شہر میں چائنا ٹائون موجود ہے۔ انڈین زیادہ منظم ہیں اور ان کا حکومتی اداروں میں اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔لیکن مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی ڈاکٹروں کی شہرت یہاں بہت اچھی ہے۔ جن لوگوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ ہسپانوی نسل کے لوگ ہیں ۔یہ لوگ یا تو جنوبی ریاستوں مثلاً ٹیکساس اور جارجیا میں پہلے سے موجود تھے یا لاطینی امریکہ سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔کئی لوگوں کو میں نے یہاں کہتے سنا ہے کہ مستقبل قریب میں ہسپانوی زبان امریکہ کی دوسری سرکاری زبان بن جائے گی۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی اور دیگر یورپی لوگ 2050ء تک یہاں صرف 46فیصد رہ جائیں گے یعنی اقلیت میں بدل جائیں گے۔یورپی اوریجن کے لوگوں کی تعداد اس لیے بھی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے کیونکہ آبادی کے اس حصہ کا فیملی سائز عام طور پر چھوٹا ہوتا ہے۔یہاں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ بچوں کو پالنا اور ان کی تعلیم و تربیت مشکل کام ہے اور اس کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔مثلاً تیس چالیس سال پہلے عام لوگ اٹھارہ سے بیس سال کی عمر میں کمائو ہو جاتے تھے اب یہ عمر پچیس سال تک چلی گئی ہے کیونکہ اعلیٰ
تعلیم اور ہنر سیکھنے کا عمل طویل ہو گیا ہے ۔الغرض اب امریکی بچے اُڈارو ہونے میں کچھ مزید سال لیتے ہیں گویا کہ والدین پر انحصار کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے لہٰذا کئی نوبیاہتا جوڑوں کا خیال ہے کہ بچہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔اس طرز فکر کی سمجھ یہاں آ کر ہی آتی ہے۔میں نے یہاں ورکنگ ایج کے والدین کی زندگی قریب سے دیکھی ہے ۔ دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں۔پانچ سال سے چھوٹے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر میں چھوڑتے ہیں۔شام کو بچوں کو اس سنٹر سے وصول کر کے تھکے ہارے واپس گھر آ جاتے ہیں۔ڈے کیئر والے ان کی آمدنی کا خاصا حصہ لے جاتے ہیں۔دوسرے متمول لوگوں میں سالانہ تعطیلات پر باقاعدگی سے جانے کا رواج ہے۔کئی والدین کا خیال ہے کہ چھوٹے بچے ساتھ ہوں تو تعطیلات کا مزا نہیں آتا۔
میڈیکل کی سہولتیں بہت بہتر ہو گئی ہیں۔نئی نئی دوائیاں ایجاد ہونے اور سرجری میں نمایاں پیش رفت سے ایک اوسط امریکی کی زندگی کی طوالت تقریباً 76سال ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیکل کیئر کا بجٹ آئندہ برسوں میں زیادہ ہو گا۔یہاں کے ہسپتالوں میں نرس کا کردار کلیدی ہوتا ہے ۔نرس یہاں آدھی ڈاکٹر ہوتی ہے اور ہسپتال میں داخل مریضوں کا خیال بھی اسی کا فریضہ ہے ۔ اسی لیے یہاں دوسرے ملکوں سے ہر سال ہزاروں نرسیں ہجرت کرکے آتی ہیں۔ اس عمل میں انڈیا اور فلپائن آگے آگے ہیں۔ اب بات کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ میں موجود انڈین ڈاکٹروں نے بھارت میں امریکی سٹینڈرڈ کا نرسنگ سکول بنایا ہے جہاں سلیبس اور ٹریننگ سب امریکی معیار کے ہیں۔یہاں سے تربیت یافتہ نرسوں کو امریکہ آ کر کوئی امتحان نہیں دینا پڑتا۔
ایک منفی رجحان جو یہاں عام نظر آتا ہے وہ ہے خوش خوراکی۔ہمارے ہاں لاہور والے خوش خوراکی کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن امریکنوں کا کوئی جواب نہیں۔فاسٹ فوڈ کھا کھا کر امریکی ادھ موئے ہو رہے ہیں ۔موٹاپے کے شکار لوگوں کی شرح36فیصد ہو گئی ہے۔میرے بھانجے ڈاکٹر فیصل کی بیوی ڈاکٹر عائشہ ذیابیطس کے مریضوں کا علاج کرتی ہے۔میاں بیوی نے مجھے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کی دعوت دی۔ہمارے اردگرد نہایت صحت مند امریکی بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے کہا عائشہ تمہارے مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔یاد رہے کہ موٹاپے اور ذیابیطس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
امریکی معیشت میں کرنسی نوٹوں کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں نوے سے پچانوے فیصد ادائیگیاں کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ ہوتی ہیں۔گویا ہر طرف پلاسٹک منی کا راج ہے۔میں واشنگٹن سے سان فرانسسکوکی جانب بائی ایئر روانہ ہوا تو لنچ کا وقت تھا۔بھوک لگی ہوئی تھی ۔دور سے آتی ہوئی انواع و اقسام کے سینڈ وچ سے لدی ہوئی ٹرالی نے اشتہا اور چمکا دی ۔ ٹرالی پاس آئی تو دیکھا کہ مسافر کھانا لے کر ایئر ہوسٹس کے ہاتھ میں کریڈٹ کارڈ تھما دیتے ہیں۔پتہ چلا کہ امریکہ میں اندرونی پروازوں پر کھانا خریدنا پڑتا ہے۔اب ہمیں اپنی پی آئی اے کی یاد آئی کہ بیچاری مفلسی کے دور میں بھی کھانا دے کر پیسے نہیں مانگتی۔آخر مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔میرا خیال ہے کہ نہر سویز کراس کرتے ہی مروت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔
اب میں نے سینڈ وچ کے دس ڈالر ایئر ہوسٹس کو دیے۔اپنے کریڈٹ کارڈ میں پاکستان چھوڑ آیا تھا تاکہ شاپنگ کرنے میں بداعتدالی نہ ہو جائے۔ایئر ہوسٹس نے کرنسی نوٹ لینے سے صاف انکار کر دیا حالانکہ نوٹ اصلی تھا اور اس پر صدر ہملٹن کی تصویر بھی صاف نظر آ رہی تھی۔میرے ہمسائے گورے مسافر کو مجھ پر ترس آ گیا ۔ کہنے لگا کہ کریڈٹ کارڈ آپ میرا استعمال کر لیں اور مجھے دس ڈالر دے دیں۔لیکن کریڈٹ کارڈ کے عام استعمال سے زندگی میں سہولت بھی خاصی آئی ہے۔نہ بار بار بینک جانے کی ضرورت ہے اور نہ چیک لکھنے کی۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ میں مذہبی آزادی ہے۔یہاں چرچ ،مساجد ،مندر ،گوردوارے اور یہودیوں کے سیناگاگ کئی جگہ نظر آتے ہیں۔ اور یہ بھی مثبت بات ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتے۔لیکن ایک حالیہ سروے کے مطابق مذہب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ یک سروے کے مطابق شادی شدہ جوڑوں میں سے صرف پچاس فیصد نے مذہبی رسومات کے ساتھ زندگی کا بندھن باندھا ہے ،باقی پچاس فیصد اپنے ذاتی فیصلے کے مطابق ازدواجی زندگی گزار رہے ہیںلیکن امریکی قانون انہیں شادی شدہ تصور کرتا ہے۔اگر ایک مرد اور عورت کا پوسٹل ایڈریس ایک عرصے تک ایک ہی ہے تو وہ رشتہ ازدواج میں منسلک سمجھے جاتے ہیں۔
میں نے اس سے پہلے بھی لکھا ہے کہ امریکہ کی اصل طاقت بہت بڑے دفاعی بجٹ کے علاوہ ریسرچ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہے۔دنیا جہاں کے اعلیٰ دماغ یہاں پر ہیں۔یہ معاشرہ تعلیم ہنر اور محنت کی قدر کرتا ہے۔یہاں سفارش بہت کم چلتی ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے ہی لگا لیں کہ کتنے پڑھے لکھے اور ہنر یافتہ پاکستانی یہاں نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ کئی ایک نے نام کمایا ہے۔یہ معاشرہ میرٹ کی قدر کرتا ہے۔چند روز پہلے میں ریاست ایلی نوائے کے شہر کاربن ڈیل میں تھا ۔وہاں ایک پاکستانی ڈاکٹر مجھے کہنے لگے کہ ہماری ریاست کے چار گورنر کرپشن کے الزام میں جیل گئے ہیں اور ان میں سے دو اب بھی سزا بھگت رہے ہیں۔یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔
بات ریسرچ کی ہو رہی تھی۔ہماری زندگی میں بے پناہ سہولت لانے والی ایجادات مثلاً ہوائی جہاز اور کمپیوٹر امریکہ کی ایجاد ہیں۔اس معاشرے اور اس کی معیشت میں بار بار ابھرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔امریکہ میں بنی ہوئی کار Teslaسو فیصد بجلی پر چلتی ہے اور سڑکوں پر خاصی تعداد میں موجود ہے۔ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑی تجرباتی مراحل میں ہے لیکن یہ مراحل خاصے آگے جا چکے ہیں اور اس کے سڑکوں پر آنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔امریکہ کی ترقی کا راز خوب سے خوب تر کی تلاش ہے جو ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔یہاں ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کی تعداد کم نہیں۔سٹین فورڈ یونیورسٹی والے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے سترہ سابق سٹوڈنٹ فضا میں جا چکے ہیں۔واقعی زمانے میں ثبات صرف اور صرف تغیر کو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں