"JDC" (space) message & send to 7575

سراپا الفت

لیجیے لطیف الفت صاحب بھی داغ مفارقت دے گئے ۔ہمارے ہاں روایت ہے کہ وفات کے بعد ہمیں جانے والوں کے محاسن یاد آتے ہیں۔ قاسمی صاحب کا شعر ہے ؎
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن الفت صاحب کی بات اور تھی۔ وہ علم و ادب کا ذخیرہ تھے۔ اسم با مسّمیٰ تھے اور سراپا لطافت ۔ کتابیں دنیا جہاں سے منگوا کر پڑھتے تھے۔خوش لباس خوش اخلاق اور خوش لسان تھے۔ نوجوانی میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار سے متاثر ہوئے مگر جمعیت میں بھی وہ منفرد نظر آئے۔ اردو اور انگریزی دونوں خوب بولتے تھے ۔سوٹ اورٹائی پسندیدہ لباس تھا۔ اچھی خوشبو اور اچھے شعر انہیں بے حد پسند تھے۔ خود بھی شعر کہتے تھے لیکن مجموعہ کلام نہیں چھپا۔
الفت صاحب پنڈی وال تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تقریباً تیرہ سال کے تھے۔1947ء کے انہیں بے شمار واقعات یاد تھے۔ ابھی پچھلے سال الفت صاحب اسی سال کے ہوئے تو بیٹوں نے گھر پر ایک بڑا فنکشن کیا۔ مجھے منذر لطیف کا فون آیا کہ انکل آپ نے نہ صرف آنا ہے بلکہ تقریر بھی کرنی ہے۔ میری الفت صاحب سے پہلی ملاقات جدہ میں 1984ء میں ہوئی تھی ،جب ہم دونوں سفارت خانہ پاکستان میں تھے۔ دو چار ملاقاتوں کے بعد یوں لگا کہ برسوں کا یارانہ ہے۔ دفتر میں بوریت ہوتی تو الفت صاحب کے پاس چلا جاتا ۔اچھی چائے پینے کو ملتی اور خوبصورت گفتگو سننے کو۔ میں جب پچھلے سال سالگرہ کے فنکشن میں گیا تو ان کے اکثر احباب ایسے تھے جو انہیں نصف صدی بلکہ اس سے بھی پہلے سے جانتے تھے الفت صاحب دوستی کے پودوں کی محنت سے آبیاری کرتے تھے اور وضع داری کی بدولت اکثر دوستیاں سالوں بعد تن آور درخت بن جاتی تھیں۔
تو گویا سالگرہ کی تقریب میں یوں لگا کہ میری الفت صاحب سے دوستی صرف تیس سال پرانی ہے میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ جن میں سے مجھے طارق جازی ،سعید الدین ڈار ،فہیم اور احمد خان صاحبان اچھی طرح یاد ہیں ،جو اس دوستی میں مجھ سے بہت سینئر تھے ۔ ان سب دوستوں نے الفت صاحب کے بارے اپنے خیالات اور یادوں کا ذکر کیا ۔مجھے یاد ہے کہ اکثر تقریروں میں 1950ء کے عشرے کی یادیں اور جمعیت کا ذکر تھا اور گارڈن کالج راولپنڈی کے طالب علمی کے واقعات جہاں موصوف نے تاریخ اور پولیٹیکل سائنس پڑھنے کے علاوہ فن خطابت بھی سیکھا۔
الفت صاحب کی شخصیت اتنی ہمہ جہت ہے کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ اتنی تہ دار شخصیت کہ لگتا ہے ایک نہیں کئی لوگ وفات پا گئے ہیں۔ الفت صاحب کا تعلق راجپوت منہاس خاندان سے تھا۔ بچپن پنڈی کے علاقے مریڑ حسن میں گزرا ۔ انہیں راجپوت ہونے پر فخر تھا مگر متعصب کبھی نہ تھے۔ ایک روز میں نے شوخ انداز میں پوچھا کہ آپ کے اندر پاکستانی بھی رہتا ہے، اور پوٹھوہاری بھی ، مسلمان بھی زندہ ہے اور راجپوت بھی تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ ہنس کر جواب دیا کہ یہ تمام لوگ میرے اندر بڑے پرامن طریقے سے رہتے ہیں۔
الفت صاحب روزانہ چار پانچ اخبار پڑھتے تھے جب بھی میرے کالم میں کوئی چیز انہیں پسند آتی تو تعریف میں فیاضی سے کام لیتے اور فون کر کے اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ پچھلے سال عباس حیدر زیدی وفات پا گئے تو میں نے کالم لکھا جس کا عنوان تھا‘‘سفید بالوں والا قنصل جنرل‘‘ الفت صاحب نے فون کر کے نہ صرف تعریف کی بلکہ میرے ذمہ ایک خوشگوار فرض بھی سونپ دیا ۔ فرمایا کہ جب میری وفات ہو تو آپ نے کالم ضرور لکھنا ہے لہٰذا یہ کالم الفت صاحب کے حکم کی بجا آوری ہے ،گو کہ ان کے نام کے ساتھ مرحوم لکھنا مجھے عجیب سا لگتا ہے۔
الفت صاحب کو راولپنڈی اور پوٹھو ہار سے بے حد محبت تھی۔ کافی عرصے سے ایک تہمت گردش کر رہی ہے کہ اسی خطے کے مسلمان فوجیوں نے پہلی جنگ عظیم میں حجاز مقدس میں ترک افواج پر گولیاں برسائی تھیں ۔ مرحوم کا خیال تھا کہ یہ تہمت بے بنیاد ہے ۔ اور وہ اس بات کی تہ تک جانے کے لیے خاصی محنت کرتے رہے۔ پرانے فوجیوں سے ملے کئی کتابیں پڑھیں ایک روز کسی فرزند پوٹھوہار نے مجھے بڑے وثوق سے کہا کہ ترکوں پر گولیاں چلا کر وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والا جے سی او چکوال کے پاس ایک گائوں کا رہنے والا تھا۔ چنانچہ میں نے الفت صاحب کو فون کیا ۔ چند روز بعد ان کا فون آیا کہ وکٹوریہ کراس حاصل کرانے والا چکوال کا سپوت تو حجاز مقدس میں لڑا ہی نہیں۔ وہ افریقہ میں لڑا تھا۔ موصوف صحیح معنوں میں معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔
پرانے مخطوطات اور برتن جمع کرنے کا انہیں بے حد شوق تھا۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ان کے والد صاحب کی تلوار اب بھی لگی ہوئی ہے۔ اور نیچے فارسی کا مصرع لکھا ہوا ہے ع
شمشیر پدر خواہی بازوئے پدر آور
یعنی باپ کی تلوار کے وارث بننا چاہتے ہو تو باپ والا زور بازو بھی لائو۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ایک دلچسپ کلاک بھی دیوار پر آویزاں ہے اس کے ہندسے الٹی گنتی میں لکھے ہوئے ہیں اور نیچے خوبصورت مصرع خوش خط ہے ع
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
کاش ایسا ہو سکتا۔
الفت صاحب مجلسی انسان تھے اور ہر محفل کی جان۔ پنڈی میں برسوں تک ایک مشہور ریستوران میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا کیے ۔ بہت اچھے مقرر تھے اور سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ سے متاثر ۔شاہ صاحب کی تقریروں کا ویڈیو ریکارڈ تلاش کرنا بھی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
مرحوم بے حد روشن دماغ روادار اور کشادہ ذہن کے انسان تھے چند ماہ پہلے کی بات ہے میں مذہبی رواداری پر کالم لکھ رہا تھا۔ خیالات کچھ جمع نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے الفت صاحب کو فون کر کے اپنی مشکل بیان کی کہنے لگے کہ یہ ضرور لکھئے کہ بانی دیو بند مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے بریلوی امام کے پیچھے نمازپڑھی کیونکہ اس کی قرات مولانا کو پسند تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جواب ملا میرا تعلق تمام اسلامی افکار اور توجیہات سے ہے ان کے حلقہ یاراں میں اہل تشیع بھی تھے دیو بندی بھی اور بریلوی بھی۔
1985ء کی بات ہے ہم دونوں ریاض میں تھے ،الفت صاحب ہمارے ہمسائے تھے۔ میں بذریعہ کار حج کے لئے جا رہا تھا۔ اکثر دوستوں کا کہنا تھا کہ ریاض سے ہی احرام باندھ کر جانا چاہیے مجھے الجھن ہو رہی تھی کہ احرام کی حالت میں دس گھنٹے کار چلانا مشکل ہو گا۔ الفت صاحب سے رائے مانگی کہنے لگے احرام کا تعلق حج کی نیت سے ہے آپ میقات پہنچ کر حج کی نیت کریں اور غسل کر کے احرام باندھ لیں اور اس طرح میری مشکل آسان ہو گئی۔
پچھلے کئی برسوں سے الفت صاحب قرآن کی شرح و تفسیر کے ایک حلقے سے وابستہ تھے ۔یہ گروپ ہر جمعرات کی شام ملتا تھا ۔ایک جید عربی دان اور عالم قرآنی آیات کی تشریح کرتے تھے ۔الفت صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مذہبی ہونے کی تشہیر نہیں کرتے تھے۔
میں نے پچھلے سال سالگرہ کی تقریب میں کہا تھا کہ لطیف المعشر عربی کا مرکب اضافی ہے جو ان جاذب شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے جو محفل کی جان ہوں۔ لطیف الفت صاحب اسلم بامسمیٰ تھے۔ محفل کی جان تھے۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جس شخص کی آل اولاد ہو وہ مرتا نہیں یعنی اس کا نام زندہ رہتا ہے ۔مدثر لطیف منذر لطیف اور مطاہر لطیف تینوں نیک اور بے حد قابل بچے ہیں۔ وہ اپنے والد کے نیک نام کو مزید روشن کریں گے ع
حق مغفرت کر ے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں