"JDC" (space) message & send to 7575

قدیم یونان‘ عظیم یونان

قدیم یونان کے انسانیت پر بڑے احسانات ہیں۔ فلسفہ‘ طب‘ منطق اور علوم ریاضیات نے قدیم یونان میں خوب فروغ پایا۔ برٹرینڈرسل کے استاد الفریڈ وائٹ ہیڈ کا کہنا ہے کہ فلاسفر دنیا میں ایک ہی گزرا ہے اور وہ تھا افلاطون۔ دیگر فلسفیوں نے بس افلاطون کے علم کی تشریح کی ہے۔ مسلمانوں نے عباسی عہد میں یونانی علوم سے کسبِ فیض کیا۔ اس عہد کے مسلم سکالر ارسطو کو المعلم الاول کہتے تھے۔ یونانی علوم عربوں کے ذریعہ سے سپین پہنچے۔ سپین میں ان علوم کا یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور یورپ میں احیائے علوم کی تحریک چلی۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ عہد حاضر کی سائنٹیفک ترقی میں قدیم یونان اور مسلمانوں کا اہم رول ہے۔ 
یونان دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں جمہوری طرزِ حکومت پریکٹس کیا گیا۔ قدیم یونان میں شہری ریاست کے آئیڈیا نے جنم لیا۔ ایتھنز ایسی ہی ایک شہری ریاست تھی جس کی آبادی ڈھائی ہزار سال پہلے تقریباً ایک لاکھ تھی۔ شہر کے آس پاس کے گائوں بھی ریاست کا حصہ تھے۔ ریاست کے لوگوں کو حکمرانوں پر تنقید کرنے کا حق سب سے پہلے یونان میں ملا‘ بلکہ چھ ہزار یا اس سے زائد ووٹ کے حقدار لوگ اگر کسی حکمران کے خلاف لکھ دیتے تھے تو حکمران کو نہ صرف اقتدار چھوڑنا پڑتا تھا بلکہ اسے ریاست بدر بھی کیا جا سکتا تھا۔ قدیم یونان میں چار شہری ریاستیں تھیں جن میں سے ایتھنز اور سپارٹا زیادہ معروف تھیں۔ 
لیکن یونانی شہری ریاست میں ہر کسی کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ صرف صاحبِ جائیداد لوگ ووٹ دے سکتے تھے۔ خواتین اور غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے مشہور یونانی فلاسفر سقراط کو جمہوریت بالکل پسند نہ تھی۔ افلاطون کا خیال تھا کہ کسی بہت پڑھے لکھے فلاسفر کو ہی بادشاہ بننے کا حق ہونا چاہیے لیکن اس زمانے کے لیے یہ بھی ایک انقلابی خیال تھا کہ حکمرانی کی بنیاد علم اور دانائی ہو نہ کہ کوئی موروثی حق۔ سقراط کا خیال تھا کہ جمہوریت ایک انبوہی طرز حکومت ہے جس کے انتخاب میں ہجوم اور اس کی سوچ اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ارسطو کا خیال تھا کہ جمہوریت کو صرف پڑھے لکھے اور دانا ووٹر ہی کامیاب طریقے سے چلا سکتے ہیں لہٰذا یہ نظام تمام ممالک یا قوموں پر مسلط کرنا ٹھیک نہیں۔ اور اب بات ہو جائے یونان کے عظیم فلسفیوں کی جن کا گرو سقراط تھا۔ سقراط‘ افلاطون اور ارسطو تینوں ہم عصر تھے۔ سقراط افلاطون کا استاد بھی تھا اور یہ دونوں ایتھنز کے رہنے والے تھے۔ دونوں کا تعلق متمول گھرانوں سے تھا لہٰذا کسبِ رزق کے فکر سے آزاد تھے۔ سقراط سارا دن ایتھنز کے مرکزی علاقے اگورا (Agora) میں گھومتا۔ اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتا اور پھر انہیں کہتا کہ وہ اپنے استاد کے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں۔ سقراط آزادیٔ اظہار کا بہت بڑا داعی تھا۔ اس وقت کی ایتھنز کی شہری ریاست یونانی دیومالا کے مطابق دیوی دیوتائوں کو سرکاری طور پر تسلیم کرتی تھی‘ جبکہ سقراط دیومالائی مخلوقات کو ماننے سے انکاری تھا۔ غالباً وہ یہ بھی سوچتا ہوگا کہ انہی مخلوقات میں سے چند ایک کو خالق کا درجہ بھی حاصل تھا؛ چنانچہ سقراط نے ریاستی خدائوں کو ماننے سے انکار کردیا۔ وہ نوجوانوں کو اپنے ہم خیال بنانے میں لگا رہتا۔ روزانہ سینکڑوں نوجوانوں کو اگورا میں لیکچر دیتا اور بحث مباحثہ میں مصروف رکھتا؛ چنانچہ اس پر مقدمہ چلا۔ جیوری پانچ سو افراد پر مشتمل تھی۔ 280 نے سقراط کو سزا دینے کا فیصلہ دیا‘ 220 نے رہائی کا۔ اکثریت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے سقراط نے بڑے سکون سے زہر کا پیالہ پی لیا لیکن اپنے خیالات سے منحرف نہ ہوا۔ اس واقعہ کے وقت اس کی عمر 70 سال تھی۔ 
اور اب آتے ہیں سقراط کے شاگرد افلاطون کی طرف جو فلسفہ میں اپنے استاد سے زیادہ مشہور ہوا۔ افلاطون نے ایتھنز میں پہلی اکیڈمی بنائی۔ ارسطو اسی اکیڈمی میں پڑھا۔ یاد رہے کہ ارسطو کا تعلق مقدونیہ سے تھا اور وہ بعد میں سکندراعظم کا اتالیق مقرر ہوا۔ افلاطون کے سینکڑوں اقوال زریں کتابوں میں موجود ہیں۔ کالم کی تنگیٔ داماں کی وجہ سے صرف دو درج ذیل ہیں۔ افلاطون کہتا ہے کہ عقلمند اس لیے بولتے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ ہوتا ہے جبکہ بے وقوف اس لیے بولتے ہیں کہ وہ بولنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرا زریں قول یہ ہے کہ بچہ اگر تاریکی سے ڈرے تو اُسے معاف کیا جا سکتا ہے لیکن زندگی کی ٹریجڈی تب شروع ہوتی ہے جب بالغ لوگ روشنی سے ڈرنے لگ جائیں۔ میں ایتھنز میں چار سال رہا ہوں اور مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ اگورا میں خوب گھوما پھرا ہوں۔ افلاطون کی اکیڈمی مغربی دنیا میں اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ تھا۔ افلاطون فلسفہ میں آئیڈلزم یعنی مثالیت کا علم بردار تھا جبکہ ارسطو حقیقت پسند تھا۔ 
اور اب ذکر ہو جائے اس عظیم طبیب کا جس کا نام ہیپو کریٹ تھا۔ یہاں میں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ طب کی وہ شاخ جسے ہم طب یونانی کہتے ہیں یونان میں ناپید ہو چکی ہے۔ پاکستان سے گئے ہوئے کئی لوگ یونانیوں سے ضرور پوچھتے ہیں کہ لقمان حکیم کہاں کا رہنے والا تھا۔ مجھے چار سال میں کوئی یونانی ایسا نہیں ملا جو حکیم لقمان کے نام سے بھی واقف ہو۔ غالباً حکیم صاحب کسی اور دیس کے متوطن تھے جیسا کہ طبِ یونانی ہم تک ابنِ سینا کی بدولت پہنچی اور ابن سینا کی بیشتر زندگی بخارا میں گزری۔ اس لیے اغلب امکان ہے کہ حکیم لقمان بھی بخارا‘ سمرقند یا بغداد کے رہنے والے ہوں گے۔ شاید طب یونانی کے کوئی عالم یہ عقدہ حل کر سکیں۔ ہیپوکریٹ کی وجہ شہرت وہ حلف نامہ ہے جو قدیم یونانی طبیب پڑھتے تھے اور یہ حلف نامہ ماڈرن میڈیکل اخلاقیات کی بنیاد بھی ہے۔ حلف نامہ خاصا لمبا ہے اور کالم کی تنگ دامانی پھر آڑے آ رہی ہے‘ صرف چند 
اقتباسات پیش ہیں۔ ''میں اپنے علم کو خدمتِ خلق کے لیے استعمال کروں گا۔ اپنے استاد کے بچوں کو بغیر کسی معاوضہ کے علم طب پڑھائوں گا۔ کسی مریض کو زہر نہیں دوں گا‘ نہ ہی کسی حاملہ عورت کو ایسی دوائی دوں گا جس سے اس کا حمل ضائع ہو۔ اپنے مریضوں کے بارے میں معلومات میں اپنے تک ہی رکھوں گا (یعنی کسی غیرضروری شخص کے ساتھ شیئر نہیں کروں گا) 
افلاطون فلسفے کے علاوہ ریاضیات کا بہت بڑا عالم تھا۔ قدیم یونانیوں نے علوم فلکیات میں بھی کمال حاصل کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ زمین گول ہے۔ قدیم یونان میں ریاضیات اور علوم طبیعیات یعنی فزکس کا ایک بڑا نام ارشمیدس کا ہوا ہے۔ ارشمیدس کو اس بات کا ادراک تھا کہ ٹھوس اشیا جب پانی یا دوسرے سیّال مادوں پر تیرتی ہیں تو ان کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ اب وہ اس کھوج میں تھا کہ ٹھوس اشیا اس حالت میں اپنا کتنا وزن کھوتی ہیں۔ اس مسئلے کا حل اسے تب ملا جب وہ حمام میں غسل کر رہا تھا۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ کپڑے پہننا ہی بھول گیا۔ باہر گلی میں بھاگ کر چلاّیا میں نے پا لیا‘ میں نے پا لیا۔ 
ماڈرن دنیا کو ڈائیلاگ سمپوزیم اور اکیڈمی جیسے افکاری ادارے دینے والا شخص بھی افلاطون ہے اور شہرہ آفاق کتاب ریپبلک (Republic) کا مصنف بھی یہی فلاسفر ہے۔ آپ نے افلاطونی محبت کی اصطلاح بھی سنی ہوگی۔ عام طور پر اسے جسمانی محبت کا الٹ سمجھتا جاتا ہے لیکن افلاطون کا کہنا تھا کہ مخلوق سے سچی محبت کا راستہ خالق سے محبت ہے۔ 
امید ہے کہ آپ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ قدیم یونان کے انسانیت پر بڑے احسانات ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں