"JDC" (space) message & send to 7575

گورا رنگ‘ بھارت اور ہم

پچھلے دنوں بھارت کے وزیر مملکت گری راج سنگھ نے ریاست بہار میں اپنے حلقے میں میڈیا سے گفتگو میں یہ کہہ دیا کہ اگر راجیو گاندھی کی شادی کسی نائیجیرین خاتون سے ہوئی ہوتی تو کانگرس کسی طور بھی اسے پارٹی کی صدارت پر فائز نہ کرتی۔ گری راج سنگھ خاصے منہ پھٹ مشہور ہیں لیکن اس مرتبہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گئی۔ نائیجیرین قائم مقام ہائی کمشنر نے دہلی میں میڈیا سے کہا کہ یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔ وزیر موصوف نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ ان کے ریمارکس آف دی ریکارڈ تھے۔ مگر شنید ہے کہ بھارتی فارن آفس نے نائیجیریا کی حکومت کو سوری بول دیا ہے۔
بھارت میں رنگ و نسل کا مسئلہ جماندرو ہے یعنی اتنا ہی پرانا جتنی بھارت کی ریکارڈ شدہ تاریخ۔ آج سے چار پانچ ہزار سال پہلے آریہ لوگ مغرب سے برصغیر میں امواج کی شکل میں آئے۔ شمالی ہندوستان پر قابض ہوئے اور مقامی باشندوں کو جنوب کی طرف بھگا دیا یا انہیں چوتھے درجے کے شہری یعنی شودر بنا دیا۔ آریہ کسی ایک قبیلے سے متعلق نہ تھے۔ ان میں سب سے بڑی قدرِ مشترک ان کی لسانی اکائی تھی لیکن مختلف قبائل کے یہ لوگ مقامی دراوڑ لوگوں کے مقابلے میں ہلکی رنگت رکھتے تھے۔ ہندوازم پروان چڑھا تو معاشرہ چار طبقوں میں تقسیم ہوا۔ آریہ لوگ چونکہ فاتح تھے لہٰذا دونوں اونچے طبقات یعنی برہمن اور کھشتری صرف آریہ لوگوں پر مشتمل تھے۔ دوسرے لفظوں میں گہرے گندمی یا کالے رنگ کے لوگ شروع سے کمتر ٹھہرے۔ ہندوازم نے سوسائٹی کو طبقات میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم اسلام کی نشرو اشاعت میں ممد و معاون ثابت ہوئی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعد میں مساوات کے داعی مسلم معاشرہ میں بھی رنگ و نسل کی تفریق پھر سے شامل ہو گئی اور آج بھی قائم ہے۔
چند ہفتے پہلے بھارت کی ہی ریاست گوا میں نرسوں نے ہڑتال کردی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنا دے دیا۔ ریاست کے وزیراعلیٰ لکشمی کانت بارسیکر نے نرسوں کو نصیحت کی کہ وہ دھوپ میں بیٹھ کر اپنا رنگ کالا نہ کریں ورنہ ان کے شادی کے چانسز خاصے کم ہو جائیں گے۔ جب ان ریمارکس کے بارے میں شور مچا تو وزیراعلیٰ نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں نے تو ایسی بات کی ہی نہیں۔لیکن اس بات کی ضرور داد دینا پڑے گی کہ موجودہ بھارت میں نچلی ذاتوں کی بھلائی کے لیے بھی کام ہو رہا ہے۔ گندمی اور کالے رنگ کے دفاع میں غیر سرکاری تنظیمیں یعنی این جی اوز بنی ہیں لیکن تعصب اتنا گہرا ہے کہ افتادگانِ خاک کو اونچی ذات والوں کے آس پاس لانے میں بہت وقت لگے گا۔ یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ انڈیا میں مسلمانوں کی حالت دَلتوں اور شودروں سے بدتر ہے اور ان کے لئے ترقی یا معاشی بہتری کا کوئی پروگرام نہیں اور عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انڈیا سیکولر ملک ہے۔
بات رنگ ونسل کے تعصب کی ہو رہی تھی۔ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں حکومت نے فیصلہ کیاکہ پسماندہ قبائل کی لڑکیوں کو ایئر ہوسٹس بننے کی تربیت دی جائے چنانچہ ایک سو لڑکیوں کو سیلیکٹ کر کے تربیت دی گئی، جب ان لڑکیوں نے جاب کے لئے مختلف ایئرلائنز میں اپلائی کیا تو صرف آٹھ کو نوکری ملی اور وہ بھی گرائونڈ سٹاف کے طور پر۔ ماہرین سوشیالوجی نے معاملے کی تہہ تک جانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ تمام لڑکیاں گہرے سانولے رنگ کی تھیں۔ یہاں یہ بات محل نظر ہے کہ بھارت کے قبائلی لوگ پاکستان کے برعکس سانولے رنگ کے ہوتے ہیں۔
اور اب بات ہو جائے ان لوگوں کی اور ان کی تنظیموں کی جو اس تعصب کے خلاف کام کر رہے ہیں بالی وڈ کے فلم ڈائریکٹر شیکھر کپور اس کام میں پیش پیش ہیں۔ شیکھر کپور ان دوا ساز کمپنیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں جو رنگ گورا کرنے والی کریمیں بناتی ہیں اور اس سلسلہ میں ایک کمپنی سب سے آگے ہے جس کا رنگ گورا کرنے والا ایک پروڈکٹ بھارت میں خوب بکتا ہے۔ اس سلسلہ میں خواتین کی ایک تنظیم Women of worth کا ذکر ضروری ہے۔ اس تنظیم کا نعرہ Dark is beautiful ہے۔ پچھلے سال اس تنظیم نے سانولے رنگ کی حمایت میں ایک دستخط مہم چلائی اور چند روز میں تیس ہزار دستخط کرا کے گورا کرنے والی کریم بنانے والی کمپنیوں کو بھجوا دیئے۔ کمپنیوں نے جواب دیا کہ ایسے پروڈکٹس کی چونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے لہٰذا ہم یہ بناتے رہیں گے۔ Women of worth کی سربراہ انڈین جرنلسٹ روز لین ڈی میلو ہیں ان کی تنظیم نے انڈین ایکٹریس نندتا داس پر ایک مشہور اشتہار بنایا جس میں نندتا کہتی ہے Stay Unfair Stay Beautiful۔
انڈیا میں کئے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ بینک اور پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیاں فرنٹ ڈیسک پر بٹھانے کے لئے ایسے لڑکے لڑکیوں کا انتخاب کرتی ہیں جو گورے چٹے ہوں۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کی فلمیں اور ٹی وی ڈراموں کے ہیرو اور ہیروئن اکثر گوری رنگت کے ہوتے ہیں۔ پچھلے پچھتر (75) سال میں دو ہیرو ہی ایسے آئے جو سانولے ہونے کے باوجود مقبول ہوئے اور وہ تھے اشوک کمار اور وحید مراد۔ دونوں چاکلیٹ ہیرو کے نام سے مشہور ہوئے۔ البتہ امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان درمیان میں ہیں یعنی نہ کالے نہ گورے۔ پرتھوی راج اور راج کپور کے خاندان نے سلور سکرین کو سب سے زیادہ سٹار دیئے۔ یہ خاندان ایکٹنگ بھی خوب جانتا ہے لیکن پشاور کے اس خانوادے کا ایک پلس پوائنٹ گورا رنگ بھی ہے۔ آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہو گا کہ اکثر ولن یا غلام کالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں کالے رنگ کے لوگ صرف غلط کام ہی کرتے ہیں‘ غورسے دیکھاجائے تو یہ انتہائی لغو بات ہے۔
اردو شاعری میں بھی محبوب کا چہرہ ماہتاب جیسا روشن ہوتا ہے جسے گرہن لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کل کے مشہور سنگر عالمگیر نے بھی جس لڑکی کی گاگر سے پانی پیا تھا وہ گوری تھی میرے خیال میں اگر کوئی کالی لڑکی عالمگیر کو پانی آفر کرتی تو وہ پیاس کے باوجود پینے سے انکار کر دیتا۔
اور اب بات ہو جائے دوسرے ممالک کی۔ برصغیر میں کالے رنگ کا ذکر بہت بے رحمی اورمذاق کے طور پر کیا جاتا ہے مثلاً گندمی رنگ کے شخص کو کالیا یا کالو کہہ کے پکارا جاتا ہے اور طنز و مزاح کے تیروں کی زد میں تو بڑے بڑے بھی آ جاتے ہیں۔ چودھری سر شہاب الدین متحدہ پنجاب کی اسمبلی کے سپیکر تھے۔ چودھری صاحب کا رنگ خاصا پختہ تھا۔ ایک روز چودھری صاحب نے سفید براق سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سر پر پگڑی بھی سفید تھی۔ اسمبلی میں علامہ اقبالؒ سے آمنا سامنا ہوا تو علامہ بے ساختہ بولے چودھری صاحب آج تو ایسا لگتا ہے کہ کٹا کپاس کے کھیت میں آ گیا ہے۔
مغرب میں رنگ کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ امریکہ میں افریقی نژاد لوگوں کو آپ نہ کالے کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی نیگرو۔ تمام سرکاری اداروں اور سکولوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ان کے لئے افریقن امریکن کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہاں بھی بزرگ خواتین سانولے بچوں کی ڈھارس بڑھانے کے لئے ''کالے کرماں والے‘‘ ضرور کہتی تھیں اور اسلام میں بھی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ ابو لہب کا رنگ سرخی مائل سفید تھا اور حضرت بلال حبشیؓ سیاہ فام تھے۔
انڈیا میں گورے رنگ کی برتری کے تصور کو برطانوی سامراج کے آنے سے مزید تقویت ملی۔ سائنسی طور پر آج تک ثابت نہیں ہو سکا کہ رنگ اور ذہانت کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔ برہمن زادہ جواہر لعل نہرو بھارت کا پہلا وزیراعظم بنا تو انڈیا کا دستور لکھنے والا گہرے گندمی رنگ کا شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والا امبیدکر تھا۔ میری دلی خواہش ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی Black is beautiful کہنے والے آگے آئیں کہ شبنم جی کے بعد کوئی سانولی سلونی خوبصورت اداکارہ نہیں آئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں