"JDC" (space) message & send to 7575

برطانیہ کے عام انتخابات

سچ پوچھئے تو مزا نہیں آیا۔ الیکشن سے پہلے نہ کوئی عبوری حکومت بنی‘ نہ کوئی جعلی ووٹ پڑے‘ نہ کوئی گولی چلی۔ الیکشن کے روز لندن بات ہوئی۔ پتہ چلا کہ کوئی نعرے نہیں لگ رہے کسی نے گو کیمرون گو بہ آواز بلند نہیں کہا۔ کوئی وال چاکنگ نہیں ہوئی۔ الیکشن کادن ختم ہوا تو لیبر پارٹی کی شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔ ابتدا ہی سے نتائج حکمران ٹوری پارٹی کے حق میں جا رہے تھے۔ ہارنے والے لیبر پارٹی کے راہنما ڈان کاسٹر میں اپنی سیٹ تو جیت گئے مگر ان کی جماعت کو 2010ء کے مقابلے میں خاصی کم نشستیں ملی ہیں۔ سکاٹس نیشنلسٹ پارٹی سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ ایڈ ملی بینڈ نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ پولیس اور ریٹرننگ افسروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
آپ کو یقینا علم ہو گا کہ یونائیٹڈ کنگ ڈم اور برطانیہ عظمیٰ ایک ہی ملک کا نام ہے۔ سات سمندر پار یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس نے سو سال ہمارے ملک پر حکومت کی۔ کروڑوں لوگوں کے بڑے ملک بلکہ برصغیر ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے برطانیہ نے کبھی دس ہزار سے زائد اپنے لوگ یہاں نہیں رکھے۔ یقینا لوگ تعلیم اور ڈسپلن میں ہم سے آگے تھے۔ برطانیہ عظمیٰ کے اجزائے ترکیبی میں چار حصے شامل ہیں اور وہ ہیں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ ‘ویلز اور شمالی آئر لینڈ۔ سکاٹ لینڈ میں علیحدگی پسند سوچ آج بھی موجودہے۔ ابھی چھ ماہ پہلے اس سوچ کو ریفرنڈم میں شکست ہوئی تھی مگر یہ ختم نہیں ہو سکی۔
برطانیہ اب صرف گورے لوگوں کا ملک نہیں رہا‘ یہاں کوئی بارہ لاکھ پاکستانی نژاد باشندے ہیں۔ ہندوستان سے گئے ہوئے لوگوں کی تعداد ہم سے قدرے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا، بنگلہ دیش، کینیا اور نائیجیریا سے آئے ہوئے لوگ بھی ہیں۔ عرب بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق تقریباً ساٹھ حلقوں میں مسلمان ووٹروں کی تعداد پچاس فیصد سے اوپر ہے۔ لارڈ نذیر، سعیدہ وارثی، چودھری محمد سرور اور شاہدملک جیسے لوگ اسی جمہوری سسٹم میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔
برطانیہ میں بدلے ہوئے آبادی کے نقشے کی وجہ سے وہاں 75سے زیادہ امیگرنٹس اس وقت ہائوس آف کامنز یا ہائوس آف لارڈز کے ممبر ہیں۔ اس دفعہ بھی انتخابات میں چند دلچسپ واقعات ہوئے۔ انڈیا سے ابھیشک بچن ایک امیدوار کی حمایت کرنے کے لیے انگلینڈ گئے۔ انڈیا نژاد امیدوار کا نام کیتھ واز Keith Vaz ہے۔ جارج گیلووے کا نام آپ نے ضرور سنا ہو گا۔ موصوف بریڈ فورڈ سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ کھلے ڈھلے بیان دینے کے لیے مشہور ہیں۔ بلکہ اگلے روز ایک پاکستانی اینکر نے جارج گیلووے کو انگلینڈ کے شیخ رشید ہونے کا خطاب دیا۔ ان کے حلقہ میں پاکستانی نژاد لوگ کافی تعداد میں ہیں۔ موصوف نے الطاف حسین کے بارے میں بیان دیا کہ وہ جلد گرفتارہونے والے ہیں اور اس بات پر اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اپنے حلقے کے پاکستانیوں کو خوش کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ گیلووے کو ایک پاکستانی نے ہرا دیا ہے۔
انتخاب میں ایک سری لنکا نژاد امیدوار مسٹر جے وردنے Jay Wardne تھے۔ یہ برطانوی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے تصور کئے جاتے ہیں۔ کسی اخبار نے لکھا کہ امیگریشن کر کے باہر سے آئے ہوئے لوگوں میں سے اگر کوئی وزیراعظم بنے گا تو وہ مسٹر جے وردنے ہوں گے۔ UKIPیعنی یو کے انڈیپنڈنٹ پارٹی وہ متعصب جماعت ہے جو باہر سے آنے والے لوگوں کے خلاف ہے۔ یہ پارٹی برطانیہ کو یورپی یونین سے بھی نکالنا چاہتی ہے کیونکہ اس کے نزدیک نئے ممبران یعنی رومانیہ، بلغاریہ وغیرہ کے لوگوں کو یو کے آنے کی مکمل چھٹی ملی گئی ہے اور اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پارٹی کے ایک امیدوار رابرٹ بلے نے بیان دیا کہ جے وردنے وزیراعظم بنے تو میں گولی مار دوں گا۔ پولیس والے انتخابی تقریریں ریکارڈ کرتے ہیں۔ رابرٹ بلے کو انتخاب کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہ برطانوی نظام میں موجود کڑے احتساب کی روشن مثال ہے۔
پاکستانی ایک زمانے میں صرف لیبر پارٹی کو ووٹ دیا کرتے تھے اس لیے کہ لیبر پارٹی باہر سے لوگوں کی امیگریشن کے خلاف نہ تھی جبکہ ٹوری پارٹی کا موقف مختلف تھا۔ اب پاکستانی کمیونٹی میں لیبر پارٹی کی حمایت کم ہو چکی ہے۔ ٹوری یا کنزرویٹو پارٹی عام طور پر امیر لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے جبکہ لیبر پارٹی غریب نواز جماعت تصور ہوتی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انڈین اور پاکستان نژاد کئی لوگ خاصے متمول ہو چکے ہیں اور یہ لوگ اب ٹوری پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ میرے اپنے ایک عزیز جو چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے اس مرتبہ ٹوری پارٹی کے سرگرم حمایتی تھے۔ میرا چھوٹا بھائی عرصے سے لندن میں مقیم ہے۔ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہے۔ اس کا ووٹ ہمیشہ لیبر پارٹی کے لیے مختص ہوتا تھا۔ اس مرتبہ خاصا متذبذب تھا۔ میں نے وجہ پوری تو کہنے لگا کہ لیبر پارٹی عراق میں جارج بش کی حمایت کرنے کی وجہ سے خاصی غیر مقبول ہوئی ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ٹوری پارٹی نے جو خلاف توقع کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجوہ کیا ہیں؟ میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی شخصیت ہے۔ وہ چھ سال پہلے پاکستان آئے تھے۔ اس زمانے میں وہ اپوزیشن لیڈر تھے۔ اسلام آباد میں سٹریٹجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ نے ان کی تقریر کا بندوبست کیا۔ موصوف خوش شکل اور خوش لباس ہیں۔ مقرر بہت اچھے ہیں۔ 43 سال کی عمر میں وزیراعظم بنے‘ اس وقت ان کی عمر 48 برس ہے۔ 2007ء میں معاشی کساد بازاری پوری مغربی دنیا پر اثر انداز ہوئی تھی۔ یورپ کے کچھ ملک ابھی تک اس صدمے سے نہیں نکل پائے لیکن کیمرون کی حکومت کی اچھی پالیسی سازی سے برطانیہ میں بہت جلد ریکوری کے آثار نظر آنے لگے۔ معاشی شرح نمو بڑھنے لگی ۔ امریکہ نے شام میں برطانیہ سے فوجی مدد مانگی مگر کیمرون نے معذرت کر لی۔
آپ ٹوری پارٹی کے انتخابی منشور کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کسی ذہین اور تجربہ کار ذہن کی تخلیق ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ آہستہ آہستہ بجٹ خسارہ ختم کیا جائے گا۔ 2017ء تک یورپی یونین کی ممبر شپ کے بارے میں ریفرنڈم ہو گا۔ کم اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کو 30گھنٹہ فی ہفتہ کی اجرت یا آمدنی پر ٹیکس معاف ہو گا۔ کم لاگت کے دو لاکھ گھر حکومت خود بنا کر لوگوں کو آسان شرائط پر فروخت کرے گی۔ آپ غور کریں کہ اب ٹوری کی پالیسی بھی خاصی غریب دوست ہو گئی ہے۔
کالم لکھتے لکھتے یہ خبر آ چکی ہے کہ 650 کے ایوان میں ٹوری پارٹی 326 نشستیں جیت چکی ہے سکاٹ لینڈ میں نیشنلسٹ پارٹی نے بہت بڑی فتح حاصل کی ہے۔ لہٰذا نئی حکومت کی اولین ترجیح یونائٹڈ کنگ ڈم کو متحد رکھنا ہو گی۔ اسے سکاٹ لینڈ پر بہت توجہ دینا ہو گی گو کہ حکومتی اکثریت بہت واجبی سی ہے لیکن ٹوری پارٹی بلاشرکت غیرے آرام سے حکومت بنا سکتی ہے۔ اس کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010ء کے مقابلے میں اسے تقریباً 20 نشستیں زیادہ ملی ہیں۔ لیبر لیڈر ایڈملی بینڈ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی لیڈر شپ سے استعفی دے دیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی 2013ء میں کچھ پارٹیوں کو واضح شکست ہوئی تھی مگر کسی لیڈر نے استعفیٰ دینے کا تکلف نہیں کیا ‘ہم جمہوریت میں بہت پیچھے ہیں۔
مبارک ہو دس پاکستانی نژاد الیکشن جیت گئے ہیں۔ قارئین کو معلوم ہو گا کہ پانچ سال بعد برطانیہ میں الیکشن مئی کے پہلے ہفتہ میں ہوتے ہیں اور جمعرات کے روز ہوتے ہیں۔ اس کی میں نے دلچسپ تاویل سنی ہے۔ وہاں ہر جمعے کے روز لوگوں کو پے چیک ملتا ہے۔ دیکھا گیا کہ لوگ جمعہ کی شام اور ویک اینڈ پر زیادہ شراب پیتے ہیں۔ الیکشن چونکہ بہت حساس اور اہم معاملہ ہے لہٰذا ووٹ کا فیصلہ بہ قائمیء ہوش و حواس ہونا چاہئے لہٰذا اس اہم فریضے کے لیے جمعرات کا دن مقرر ہوا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں