"JDC" (space) message & send to 7575

کیمپ ڈیوڈ سمٹ‘ ایک جائزہ

کیمپ ڈیوڈ کا نام سنتے ہی 1978ء کا سال ذہن میںآتا ہے‘ جب امریکہ اور اسرائیل نے مل کر مصر کی مشکیںباندھ دی تھیں۔ مصر اور اسرائیل کی سب لڑائیاں فلسطین کی وجہ سے ہوئیں۔ مصر اور اسرائیل کی صلح کراتے وقت اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ فلسطینی مسئلے کا پُرامن سیاسی حل نکالا جائے گا۔ مصر نے صلح کر لی۔ قاہرہ میں اسرائیل کا سفارت خانہ کھل گیا۔ انور السادات اور مناہم بیگن کو نوبل امن بھی مل گیا لیکن فلسطین کا مسئلہ ویسے کا ویسا ہی ہے۔
اب ایک اور عرب امریکی سمٹ کانفرنس کیمپ ڈیوڈ میں ہوئی ہے جس میں خلیجی ممالک کے سربراہ اور صدر اوباما شریک ہوئے اس ایک روزہ کانفرنس کا ایجنڈا تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بات ہوئی۔ ایران کے ساتھ پی پانچ جمع ایک کا متوقع معاہدہ بھی زیر بحث آیا۔ پی فائیو یا پانچ کی اصطلاح سلامتی کونسل کے دائمی ممبران کے لئے استعمال ہوتی ہے اور یہاں ان پانچ کے علاوہ جرمنی بھی شریک ہے۔
عرب عجم مخاصمت اسلام آنے سے بھی پہلے کی ہے۔ دونوں اپنی اپنی ثقافت‘ شناخت اور تاریخ پر فخر کرتے ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد دو عنصر اور نمایاں ہوئے اسلامی انقلاب نے بادشاہت کا دھڑن تختہ کر دیا تھا۔ خلیجی حکمران چونک اٹھے کہ کل کلاں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی نہ ہو‘ رہی سہی کسر نئی ایرانی قیادت نے نکال دی۔ ان کاکہناتھا کہ انقلاب برآمد کیا جائے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اسلامی انقلاب اسلامی ممالک کو ہی ایکسپورٹ ہو سکتا تھا۔ صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تو خلیجی ممالک نے عراق کے لئے تجوریوں کے منہ کھول دئیے۔
صدر احمدی نژاد کے زمانے میں یہ تاثر عام ہوا کہ اسرائیل کو للکارنے والا پورے خطے میں ایک ہی ملک ہے اور وہ ہے ایران۔ اس سلسلہ میں حزب اللہ اور حماس کی کھل کر حمایت کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ احمدی نژاد عرب عوام میں بے حد مقبول تھے کیونکہ امریکہ اوراسرائیل کیخلاف نعرہ بازی خوب کرتے تھے۔ رہی سہی کسر شام کی جنگ اور ایٹمی پروگرام نے نکال دی۔ داعش نے جنم لیا تو امریکہ اور اسرائیل کے دل و دماغ میں ایران کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ شام‘ عراق اور بحرین میں ایرانی پالیسی میں مسلکی رنگ واضح ہوا۔ اب خلیجی ممالک کی پریشانی بالکل عیاں تھی۔ یمن کی صورت حال محاورۃً وہ آخری تنکا تھا جس نے عربی اونٹ کی کمر پر مزید بوجھ ڈال دیا اور اسے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ اب بہت ہو چکا، ہم مزید مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
معاف کیجئے گا تمہید لمبی ہو گئی۔ خلیجی ممالک کادفاع مغربی ممالک سے قریبی مفاہمت پر قائم ہے۔ یہ ممالک ہر سال جدید ترین ہتھیاروں کی لسٹ لے کر مغربی ممالک جاتے ہیں۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ روشن امکانات ہیں کہ جون کے بعد ایران اقتصادی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا اور اس کی مالی اور عسکری طاقت بہت بہتر ہو جائے۔ اس پس منظر میں خلیجی حکمران کیمپ ڈیوڈ گئے تاکہ صدر اوباما سے اپنے دفاع کی ضمانت حاصل کر سکیں۔ خلیجی حکمران یہ چاہتے تھے کہ امریکہ سے اس سلسلہ میں کوئی تحریری معاہدہ ہو جائے مگر امریکہ نے زبانی وعدے وعید ہی کئے ہیں۔ ایک پرابلم یہ بھی تھا کہ صدر اوباما کا آخری دور یعنی Lame luck period شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ اس زمانے میں کسی بھی امریکی صدر کے لئے طویل المدت معاہدے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اختتامی بیان میںکہا گیا ہے کہ امریکہ اور خلیجی تعاون کونسل کے رُکن ممالک مل کر بغداد کی داعش کے خلاف مدد کریں اور القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے بھی تعاون جاری رکھیں گے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق یمن میں حوثی باغیوں کو اسلحہ کی سپلائی روکی جائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمن کے مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کیا جائے گا۔ دونوں اطراف نے اس امر کا اظہار کیا کہ صدر بشار الاسد شام پر حکومت کرنے کا جوازکھو بیٹھے ہیں لیکن شامی حکومت کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا مشترکہ اعلامیہ میں ذکر نہیں۔ امریکہ اور خلیجی ممالک کے تعاون کو سٹریٹیجک لیول پر لایا جائے گا۔ خلیجی ممالک کو اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ فراہم کیا جائیگا اور بلاسٹک میزائل کے استعمال کی تربیت دی جائے گی۔ سمندری سکیورٹی میں تعاون فروغ پائے گا۔ اشارہ واضح طور پر اس طرف ہے کہ باب المندب کو ہر صورت کھلا رکھا جائے گا۔
سمٹ کانفرنس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الخبیر نے کہا کہ امریکہ اور خلیجی ممالک میںعلاقے کے مسائل پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی موصوف نے سمٹ کانفرنس کو تاریخی اور بے مثال قرار دیا۔ ان کے بیان کے مطابق تین اساسی ایجنڈا پوائنٹ تھے۔ جن پر نہ صرف سیر حاصل بات ہوئی بلکہ تعاون کا فیصلہ بھی ہوا۔ نمبر ایک عسکری تعاون بڑھایا جائے، نمبر دو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مل مقابلہ کیا جائے اور تیسرے تمام علاقائی چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے اور ان میں ایرانی مداخلت سب سے اہم ہے۔
مجھے سعودی وزیر خارجہ کا بیان خالص سفارت کاری کا نمونہ لگا۔ سفارت کار عام طور پر چھوٹی کامیابی کو بڑھا چڑھا کر خوبصورت الفاظ میںپیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ مجھے یہ بات واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ امریکہ اب ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے مراسم میں توازن رکھے گا۔ دوسرے امریکہ خلیجی ممالک کے دفاع کے لئے اب اس طرح نہیں آئیگا جیسے1991ء میں کویت سے صدام حسین کا قبضہ چھڑانے آیا تھا۔ ایک تو امریکہ کا خلیجی تیل پر انحصار اب کم ہو گیا ہے دوسرے افغانستان اور عراق میں جنگوں کے بعد امریکہ تھکا تھکا لگتا ہے۔
خلیجی ممالک کے دفاعی بجٹ دیکھیں توعقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اگر برطانیہ اور جرمنی میں صلح ہو سکتی ہے تو ایران اور خلیجی ممالک میں کیوں نہیں۔ یہ اربوں ڈالر جو دونوں اطراف اسلحہ خریدنے پر لگائیں گی۔ اس پیسے کے بہتر مصرف بھی ہو سکتے ہیں۔ عربوں اور ایران کو چاہئے کہ صلح کر کے یہی وسائل تعلیم‘ ٹیکنالوجی اور صحت پر صرف کریں۔ انڈسٹری لگائیں باہر سے افرادی قوت منگانے کی بجائے اپنے لوگوں کو فنی تعلیم دیں۔ ہارورڈ اور آکسفورڈ کے لیول کی یونیورسٹیاں بنائیں جہاں مسلم ممالک سے سٹوڈنٹ سکالر شپ لے کر تعلیم حاصل کرنے آئیں۔
مشہور عربی روزنامہ الشرق الاوسط نے رضا پہلوی کا بیان شائع کیا ہے۔ رضا پہلوی شہنشاہ ایران کے بڑے صاحبزادے ہیں اور اپنے نام کیساتھ ولی عہد کا سابقہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ موصوف کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں مسلکی رنگ تہران کے موجودہ حکمران لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اور عربوں میں بہت ساری مشترک اقدار ہیں جن کی پاسداری ضروری ہے۔ بات تو بالکل صحیح ہے آپ کو یاد ہو گا کہ 1979ء سے پہلے ایران اور سعودی عرب میںکوئی مخاصت نہ تھی۔
لیکن آج ایران اور خلیجی ممالک پر جذبات غالب ہیں۔ جدید ترین ہتھیار خریدنے کے لئے پیسہ وافر ہے۔ دونوں‘ مغربی ممالک سے بے تحاشہ اسلحہ خریدیں گے اور اس اسلحہ سے مسلمان مسلمان کو مارے گا اور اس اسلحہ کے باوجود اپنے دفاع کی ضمانت حاصل کرنے پھر امریکہ بہادر کے پاس جائیں گے اور یہ وہی امریکہ ہے جو اسرائیل کا سرپرست ہے ؎
میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں