"JDC" (space) message & send to 7575

ہاتھی کے دانت

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ بی جے پی اور نریندر مودی کے اسلام دشمن تصورات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مودی سنگھ پریوار کی پیداوار ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کا تعلق بھی بی جے پی سے تھا لیکن ان کی تربیت سنگھ پریوار سے نہیں ہوئی تھی۔ مودی کا مسلمانوں کے خلاف تعصب تو گجرات کے مسلم کش فسادات میں واضح ہو گیا تھا۔ فسادات کے نتیجے میں کئی مسلمانوں کو کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔ گجرات کے وزیراعلیٰ مودی نے 2002ء میں اپنی ایک تقریر میں ان کیمپوں کو بچے پیدا کرنے کے سینٹر کہا۔ اسی تقریر میں مودی نے مسلمانوں پر بہت ہی بھونڈا فقرہ کسا اور وہ تھا ''ہم پانچ ہمارے پچیس‘‘ یعنی ایک مسلمان خاوند اس کی چار بیویاں اور ان کے پچیس بچے۔ موصوف مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خائف لگتے ہیں اور مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں دوبارہ ہندومت کی طرف مائل کیا جائے۔ گھر واپسی کی تحریک اسی مقصد کے حصول کے لیے چلائی گئی ہے۔ بی جے پی اس تحریک میں فعال نظر آتی ہے۔ تحریک والوں کا کہنا ہے کہ بھارتی مسلمان کسی زمانے میں ہندو تھے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اصلی دھرم میں واپس آ جائیں اور یہ ان کی گھر واپسی ہو گی۔ شہروں اور سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کی تجویز سوشل میڈیا پر زور شور سے جاری ہے۔ فیض آباد کے لیے اودھ یا ساکت یا ایودھیہ کے تین نام تجویز کئے گئے ہیں کہ تینوں میں سے کوئی رکھ لیں۔ احمد آباد اور الہٰ آباد کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے۔ دہلی میں صفدر جنگ روڈ، اکبر روڈ، شاہجہاں روڈ، تغلق روڈ سب کے ناموں کے خلاف مہم چل رہی ہے مگر سب سے زیادہ زور اورنگزیب روڈ پر ہے کہ ہر انڈین ہندو اورنگزیب عالمگیر کو اپنے دھرم کا دشمن سمجھتا ہے۔ صفدر جنگ روڈ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ پردھان منتری کی سرکاری رہائش گاہ اسی سڑک پر ہے۔ نجانے روزانہ اس سڑک کا نام پڑھ کر مودی کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔
میں نے عرب دنیا میں بھارتی سفارت کاری کو قریب سے دیکھا ہے۔ بھارت عرب دنیا میں اپنا مسلمان چہرہ اجاگر کرتا ہے۔ بھارتی ڈپلومیٹ اکثر یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ انڈونیشیا کے بعد بھارت دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں سیاسی فیصلے مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ سعودی عرب میں بھارتی سفیر ہمیشہ مسلمانوں کو لگایا جاتا ہے۔ میرے زمانے میں عشرت عزیز صاحب بھارتی سفیر تھے۔ وہ عربی بھی بولتے تھے۔ عشرت صاحب سے پہلے سفیر جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بھی مسلمان تھے۔ وہ یہ بھی کہتے سنے گئے کہ خفیہ ایجنسیوں کے جو لوگ سفارت خانہ میں متعین ہیں ان کا ایک کام اپنے مسلمان سفیر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی ہے۔
ابتدائی ایام میں پاکستان کے خلاف عرب کانوں میں زہر گھولنے کا فرض مولانا ابوالکلام آزاد کو سونپا گیا۔ بعد میں انقلاب مصر کے بعد جواہر لعل نہرو کی جمال عبدالناصر سے ذاتی دوستی ہو گئی دونوں پاکستان کو مغرب نواز اور رجعت پسند ملک سمجھتے تھے۔ دونوں غیر جانبدار ممالک کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ دونوں میں عالمی امور پر صلاح مشورہ معمول کی بات تھی۔ 1970ء کی دہائی میں خلیجی ممالک کی اہمیت تیزی سے بڑھنے لگی تو بھارت نے بھی خلیج کو اپنی توجہ کا محور بنا لیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ خلیج میں بھارتی مفادات کیا ہیں۔ بھارت کا تیل اور گیس زیادہ تر خلیج سے آتے ہیں۔ تجارت کا حجم بہت بڑا ہے۔ بھارت کی خلیجی ممالک کو برآمدات یورپین یونین سے زیادہ ہیں۔ ستر لاکھ بھارتی اس وقت مختلف خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ صرف یو اے ای سے پندرہ بلین ڈالر زرمبادلہ ہر سال بھارت بھیجا جاتا ہے۔ ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جو مجھے مسقط میں ایک عرب سفیر نے سنایا تھا۔ کسی خلیجی ملک میں عرصے سے بارش نہیں ہو رہی تھی چنانچہ امیر نے رعایا سے کہا کہ بارش کے لیے دعا کریں۔ تمام لوگوں نے دعا کی جو قبول ہوئی اور فوراً بمبئی، کیرالہ اور دہلی میں بارش ہونے لگی۔ یاد رہے کہ کئی خلیجی ممالک میں غیر ملکیوں کی تعداد لوکل عربوں سے زیادہ ہے۔ بھارت کے لیے مشرق وسطیٰ میں دو اور ملک بھی بے احد اہم ہیں اور وہ ہیں، ایران اور اسرائیل۔ ایران کی اہمیت سٹریٹجک ہے۔ ایران کا محل وقوع ہندوستان کے لیے بہت اہم ہے۔ پاکستان کو بائی پاس کر کے افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک رسائی ایران کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور اسی مقصد کے لیے بھارت چاہ بہار کی پورٹ کی توسیع میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے تعلقات عرصے تک خفیہ رہے۔ یہ بات اب عیاں ہو چکی ہے کہ 1962ء کی بھارت چائنا وار میں اسرائیل نے بھارت کی مدد کی تھی۔ اسی طرح 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں اسرائیل بھارت کی باقاعدہ ملٹری سپورٹ کرتا رہا۔ اسرائیل بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ 1977ء میں اسرائیل کے وزیر خارجہ موشے دایان نے بھارت کا خفیہ دورہ کیا تھا۔ بی جے پی کے لیڈروں کے اسرائیلی لیڈروں سے ذاتی تعلقات بھی رہے ہیں۔ لیکود اور بی جے پی دونوں دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ دونوں اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ پسند نہیں کرتیں۔ بھارتی لیڈر بارہا کہہ چکے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر مسلمان انتہا پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ بھارت نے اس سال 662 ملین ڈالر کے ہتھیار اسرائیل سے خریدے ہیں۔ وزیراعظم مودی جلد ہی اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا پہلا دورۂ اسرائیل ہو گا۔ بھارت نے دیکھا ہے کہ ایرانین فیکٹر کی وجہ سے خلیجی ممالک اب اسرائیل کے زیادہ مخالف نہیں رہے لہٰذا اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔
خلیج کے اہم خطے کی سکیورٹی کئی وجہ سے پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ نے یہ ڈیوٹی شاہ ایران کو سونپی ہوئی تھی۔ ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو خلیجی تعاون کونسل بنی۔ 1990ء میں صدام نے کویت پر قبضے کی حماقت کی تو مغربی افواج آ گئیں۔ امریکی افواج آج بھی بڑی تعداد میں دو تین خلیجی ممالک میں موجود ہیں۔ امریکہ انہیں خطے سے نکالنا چاہتا ہے لیکن داعش کی آمد سے ان کا جانا مشکل نظر آ رہا ہے اور خلیجی ممالک شاید خود بھی چاہیں گے کہ یہ افواج خطے میں موجود رہیں۔ خلیجی ممالک سے بھارت کے تعلقات میں دیکھتے دیکھتے بہت بہتری آئی ہے۔ 2004ء تک کسی سعودی فرمانروا یا ولی عہد نے بھارت کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اب صورت حال مختلف ہے۔ عرب امارات سے تعلقات کی نوعیت کا اوہر ذکر آیا ہے۔ بھارت اور قطر کے رشتے میں بہت گرمجوشی آئی ہے۔ بھارت قطر سے بڑے پیمانے پر گیس درآمد کر رہا ہے۔ پچھلے دنوں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے بھارت کا دورہ کیا ہے۔ سلطنت عمان کے ساتھ بھارت کے قریبی تعلقات کا تو میں عینی شاہد ہوں۔ یہاں بھارتی بڑی تعداد میں ہیں اور سیکڑوں بھارتی عمانی شہری بن چکے ہیں۔
بھارتی لیڈر شپ کے ذہن میں یہ بات پکی ہے کہ جس دن امریکی افواج خلیج سے جائیں گی تو سکیورٹی کے حوالے سے ایک نیا نظام وجود میں آئے گا۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات میں خاصی بہتری آ چکی ہو گی۔ شاید عربوں کی اسرائیل کے خلاف نفرت بھی کم ہو جائے، بھارت کی پوری کوشش ہو گی کہ اس نئے سکیورٹی سسٹم کے تین ستون ہوں، ایران، جی سی سی (گلف کو آپریشن کونسل) اور اسرائیل اور ایسے نظام میں کرسی صدارت پر بھارت بیٹھے گا یا بیٹھنا پسند کرے گا۔ اس پلان پر نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاھو جلد ہی بات کریں گے۔ کیا ہم اپنے عرب دوستوں کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ ہمارے پالیسی ساز ادارے کیا کر رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں