"JDC" (space) message & send to 7575

ایرانی جوہری معاہدہ اور پاکستان

ایران ہمارا بہت اہم ہمسایہ ہے‘ لہٰذا ایران اور پاکستان کے خارجہ تعلقات کا ایک دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے امریکہ کے ساتھی قریبی تعلقات اور تعاون کا ایران کے ساتھ رشتوں پر منفی اثر پڑا۔ ایران کے انڈیا کے ساتھ گرمجوش رشتے اور روابط ہمارے لئے باعث تشویش رہے۔ پاکستان کی دائمی خواہش رہی کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بگاڑ نہ آئے کہ ہم دونوں اہم اسلامی ممالک سے دوستی اور قریبی تعاون کے طلب گار ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں ہماری اور ایران کی افغان پالیسیاں مختلف رہیں۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر پاک ایران تعلقات میں سردمہری کی سی کیفیت رہی جو مستقبل قریب میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ایران نے چھ اہم عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کئے تو پاکستان کا ردِعمل فطری طور پر بہت مثبت تھا۔ 
ایران شناسی کے لئے اس امر کا ادراک ضروری ہے کہ ہمارا یہ ہمسایہ گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے عالمی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اُسے اپنی تاریخ اور کلچر پر بجاطور پر فخر ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی ایران کے بارے میں رائے درج ذیل ہے: ''سکندر اعظم کے تباہ کن حملے سے لے کر اسلامی فتوحات اور پھر منگول فوج کشی تک ایران نے اپنا قومی اور کلچرل تشخص قائم رکھا۔ ایرانیوں کو یقین ہے کہ ہمارا کلچر اعلیٰ تر ہے۔ اگر کبھی ایران فتح ہو گیا تو بھی صوفی ازم اور شاعری کے ذریعے ایرانیت یا فارسیت کا شعور زندہ رہا۔ شاہنامہ جیسے عظیم فن پاروں نے ایرانیت کو ختم نہیں ہونے دیا‘‘۔ 
اب ظاہر ہے کہ قوت کے اعتبار سے امریکہ اور ایران میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت کمزور ہوئی ہے‘ اُس کے عسکری ہتھیار پُرانے ہیں لیکن قومی افتخار اپنی جگہ قائم ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہمارے خطے کے ایک زیرک فرمانروا عُمان کے سلطان قابوس نے امریکہ کو مشورہ دیا تھا کہ ایران کے ساتھ کوئی حتمی معاہدہ کرنا ہے تو بنیادی چیز اس بات کا ادراک ہے کہ ایران کو اپنی بے عزتی یا اہانت کا احساس نہ ہو۔ ادھر اسرائیل امریکہ کو مشورے دے رہا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے بہت قریب ہے‘ لہٰذا آپ پہلی فرصت میں ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیں‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ شکر ہے کہ صدر اوباما نے دانائی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیلی مشورے پر عمل کرنے سے انکار کیا۔ 
اس معاہدے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کے بیشتر پر پندرہ سال کے لئے کاٹ دئیے گئے ہیں۔ سینٹری فیوجیز‘ جو کسی بھی ایٹمی پروگرام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں‘ صرف ایک تہائی رہ جائیں گے۔ ایران کے پاس موجود یورینیم کا ذخیرہ صرف دو فیصد رہ جائے گا۔ اراک کے مقام پر ایٹمی ری ایکٹر کی بھاری پانی بنانے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ بھاری پانی کی مدد سے پلوٹونیم بنائی جاتی ہے اور پوٹونیم بھی یورینیم کی طرح ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال کی جاتی ہے یا یوں سمجھ لیں کہ یہ ایٹمی قوت کے ہدف تک پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ ان سب پابندیوں پر فول پروف عملدرآمد کرانے کے لئے عالمی اٹامک ادارے کے انسپکٹر جب چاہیں اور جہاں چاہیں معائنہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔ 
امریکی کانگرس میں اب بھی اس معاہدے کی خاصی مخالفت کرنے والے موجود ہیں۔ صدر اوباما نے ایک سمارٹ قدم یہ اٹھایا کہ اس معاہدے کو امریکی کانگرس میں پیش کرنے سے پہلے ہی اقوام متحدہ میں لے گئے۔ سلامتی کونسل نے معاہدے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور تمام پندرہ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ البتہ امریکی کانگرس سے توثیق ابھی باقی ہے اور یہ عمل ساٹھ دن کے اندر مکمل ہونا ضروری ہے۔ اب اگر معاہدے کے مخالف اسے نامنظور کر دیں تو امریکہ عجب صورت حال سے دوچار ہو جائے گا کہ پوری عالمی برادری ایک طرف اور امریکی کانگرس دوسری طرف۔ یہ بات اس لحاظ سے اور بھی عجیب ہو جائے گی کہ صدر اوباما معاہدے کے حامی ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ اگرچہ ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھنے میں چھ ماہ سے ایک سال لگ سکتا ہے لیکن یورپی کمپنیاں سرمایہ کاری کی غرض سے تہران آنا شروع ہو چکی ہیں۔ اس طرح امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی کانگرس پر دباؤ ڈالیں گی کہ وہ معاہدے کی توثیق کر دے۔ 
ایران کا جوہری معاہدہ دو سال کے کٹھن مذاکرات کے بعد ممکن ہوا ہے۔ ایران کی اقتصادی مجبوریاں اُس کی قومی انا پر غالب آئی ہیں لیکن ایران نے اپنے سفارتی کارڈ اس مہارت 
سے کھیلے ہیں کہ اس کی سبکی نہیں ہوئی۔ پُرامن مقاصد کے لئے ایٹمی ریسرچ کا ایران کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس معاہدے کی امریکہ میں مخالفت اپوزیشن یعنی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے ہو رہی ہے۔ صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکی اپوزیشن کو مڈل ایسٹ کے بدلے ہوئے حالات کا ادراک نہیں‘ آج کے مڈل ایسٹ میں داعش اور القاعدہ امریکہ کی اصل دشمن ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ صدر اوباما نے ایران کو امریکہ کے دشمنوں کی صف سے خارج کر دیا ہے گو کہ ایرانی لیڈر اب بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکی تکبر کی اصولی مخالفت جاری رہے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ایسا محض اپنے عوام کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ تجارت اور سرمایہ کاری شروع ہو گی تو سیاسی تعلقات بھی بہتر ہونے لگیں گے۔ 
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پر اس معاہدہ کے کیا اثرات ہوں گے۔ سب سے اہم اثر تو یہ ہو گا کہ پاک ایران تعلقات کی سرد مہری کم ہونے کا امکان روشن ہو جائے گا۔ چند عشروں سے تہران میں یہ بیانیہ چل رہا ہے کہ پاکستان امریکہ کا بغل بچہ ہے۔ جب تہران کے مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی تو ایران کی پاکستان کے بارے میں سوچ بھی بدلے گی۔ پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اور افغانستان میں غیر جانبدار پالیسی بھی ایران کے دل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوگی اور یمن میں اپنی فوجیں نہ بھیج کر پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عرب عجم تنازعات سے دور رہنا چاہتا ہے۔ 
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اب ناممکن نہیں رہا۔ چین کی ایک کمپنی گوادر سے نواب شاہ تک پائپ لائن بچھانے کے لئے تیار ہے اور اگر یہی پائپ لائن انڈیا بھی جاتی ہے تو یہ علاقائی امن کو پروموٹ کرے گی‘ پاکستان اور انڈیا کی انرجی ضروریات کو پورا کرے گی‘ معاشی خوش حالی لائے گی۔ انڈیا اگرچہ چاہ بہار کی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن چاہ بہار کا اصل مقصد افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ساتھ تجارت ہے۔ انڈیا اور ایران کی دوطرفہ تجارت کے لئے اب بھی مختصر ترین راستہ پاکستان ہی ہے اور اس طرح پاکستان معقول ٹرانزٹ فیس بھی کما سکے گا۔ 
پاکستان اور ایران کی اقتصادی صورت حال تجارت کے لئے موزوں ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان کی ضرورت گیس اور تیل ہے‘ ایران کو گندم، چاول اور مکئی کی ضرورت ہے جو پاکستان برآمد کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سیمنٹ اور نیم تیار لوہا ایران کو ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ ایران اگلے چند سال میں خاصا خوش حال ہو جائے گا۔ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران تجارت سکڑ گئی تھی‘ آنے والے سالوں میں دوطرفہ تجارت میں خاطرخواہ اضافہ ہو گا۔ 
پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ گوادر سے ایرانی بارڈر تک اپنے حصے کی پائپ لائن پر کام شروع کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ ایران کے اندر حملے کرنے والے دہشت گرد ہماری طرف پناہ نہ لے سکیں۔ ایران کی جانب سے آٹھ سو کلومیٹر لمبی سرحدی دیوار بھی اس سلسلہ میں معاون ہو گی۔ پاکستان پہلے ہی اس منصوبے کا خیرمقدم کر چُکا ہے۔ پاک ایران تعلقات میں بہتری علاقائی امن کی ضمانت ہو گی، پاکستان میں استحکام کا موجب بنے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں