"JDC" (space) message & send to 7575

نعمتوں کا شمار

سورہ رحمن میں انسان سے بار بار استفسار کیا گیا ہے کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ میں یہ سطور 14 اگست کے روز لکھ رہا ہوں اور میری نظر میں پاکستان خود اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ عام پاکستانی کو بھی اس بات کا ادراک ہے۔ سبز ہلالی پرچم اس سال یوم آزادی پر جگہ جگہ نظر آ رہا ہے۔ سائیکل والا ہے تو اس نے ہینڈل کے ساتھ جھنڈا باندھا ہوا ہے، کار والے نے بونٹ پر فٹ کرا لیا ہے۔ اس سال یوم آزادی پر جذبہ کچھ وکھرا ہے۔ نریندر مودی نے ہمیں پاکستان پر فخر کرنا سکھا دیا ہے یا شاید ضرب عضب کی وجہ سے قوم خوف کی فضا سے نکل آئی ہے۔
میرے ایک دوست اکثر کہا کرتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب ریلے سائیکل کا مالک معتبر لوگوں میں شمار ہوتا تھا، آج ہر مڈل کلاس پاکسانی کے پاس کار ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد 1969ء میں اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں پڑھانا شروع کیا تو کالج میں تمام پروفیسر حضرات کی تعداد پچاس کے آس پاس تھی۔ خواجہ اسلم پرنسپل تھے، کالج میں چار پروفیسر ایسے تھے جن کی بڑی شان تھی کیونکہ ان کے پاس ویسپا سکوٹر تھے، باقی سب سائیکلوں پر آتے تھے یا پیدل۔ میں خود پیدل کالج آتا تھا۔
پورے اسلامیہ کالج کے اساتذہ میں صرف خواجہ اسلم صاحب کے پاس کار تھی اور وہ تھی مورس مائنر (Morris Minor) جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ چھوٹی سی کار تھی‘ بے کار پروفیسروں کی تعداد زیادہ تھی مگر ان میں کوئی احساس کمتری نہ تھا۔ پھر کار والوں میں شیخ رضی الدین اور دلدار بیگ مرزا شامل ہوگئے۔ شیخ صاحب کے پاس تو پرانی فوکسی تھی جس کا انجن پیچھے ہوتا تھا‘ البتہ دلدار بیگ مرزا مرحوم نے نئی واکس ہال خریدی تھی اور وہ بھی ایسے کہ ان کی بیگم پاک فوج میں ڈاکٹر تھیں اور فوجی افسروں کو ایوب خان کے آخری دنوں میں کار خریدنے کے لئے قسطوں کی سہولت دی گئی تھی۔ آج کے پروفیسر حضرات ہمارے مقابلے میں خاصے متمول ہیں۔
اسلامیہ کالج میں پڑھاتے ہوئے میں نے مقابلے کے دو امتحان دیئے اور دونوں اچھی پوزیشن سے پاس کئے۔ چند ماہ سرگودھا میں میجسٹریسی کی ٹریننگ کی اور پھر فارن سروس کی ٹریننگ کے لئے مال روڈ پر واقع سول سروس اکیڈمی آگئے۔ یہاں ہمیں کتابی تعلیم کے علاوہ انگریزی کی ٹائپنگ اور ڈرائیونگ کی تربیت بھی دی گئی۔ پھر باہر پوسٹنگ ہوئی، تخواہ ڈالروں میں ملنے لگی تو کار خریدنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ پھر بھی یکمشت ادائیگی کے پیسے نہ تھے۔ بیروت کے بی سی سی آئی کے منیجر شبیر شیخ سے سرکاری قرضہ لے کر ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید ہی لی۔ یہ 1975ء کی بات ہے اور اس واقعے کو بیس سال بھی نہ گزرے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستانی جھنڈے والی کار دی اور اس کے بعد اوپر تلے کئی ایسی کاریں مصرف میں رہیں۔ اس میں میرا کوئی خاص کمال نہ تھا یہ سب میرے ملک پاکستان کی بدولت تھا۔
اب پھر مجھے پچاس پچپن سال پہلے کی یاد آ رہی ہے۔ میرے دادا اپنے گائوں کے نمبردار تھے۔گائوں کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں متمول تھے اور متمول ہونے کی ایک نشانی یہ تھی کہ ان کے پاس ایک صحت مند اور تیزرفتار گھوڑا تھا اور یہ گھوڑا کچھ منہ زور بھی تھا۔ دادا جان عمررسیدہ ہونے کے سبب گھوڑے سے خائف رہنے لگے‘ سائیکل انہوں نے ساری عمر نہیں چلائی۔ اب حل اس مسئلے کا یہ نکالا گیا کہ ایک عدد تانگہ خریدا گیا۔ سرپٹ گھوڑے کو سدھانے کے لئے شہر سے مشہور کوچوان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مجھے یاد ہے، گھوڑے کو تین ہفتے روزانہ گول دائرے میں لمبا رسا باندھ کر خوب دوڑایا جاتا تاآنکہ وہ بالکل تھک جاتا۔ اب دادا جان تانگے میں سفر کرنے لگے‘ ان کا ذاتی ملازم کوچوان کے فرائض سرانجام دیتا۔ سڑکیں اکثر کچی تھیں اور اب زیر تعمیر فیصل آباد ملتان موٹروے ہمارے گائوں کے بالکل قریب سے گزرے گی اور یہ سب پاکستان کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
پچھلے دنوں میں اپنے گائوں گیا ہوا تھا‘ اپنے کزن کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ اس کا فون بجا، گفتگو کچھ مربعے میں آبپاشی کے بارے میں تھی۔ میں نے پوچھا کہ کس کا فون ہے؟ پتا چلا کہ موبائل فون پر نوکر پانی لگانے کے بارے میں ہدایات لے رہا ہے۔ کھانا ختم ہوا تو میرے کزن نے کہا کہ آپ آرام کریں میں، پانچ منٹ میں مربعے سے ہو کر آتا ہوں۔ اس نے اپنا موٹرسائیکل سٹارٹ کیا اور جلد ہی واپس آگیا۔ آج ہمارے گائوں کی سڑکیں پکی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ 1980ء تک شہر جانے والی سڑک کچی تھی‘ ٹیلیفون اور بجلی کا نام نشان نہیں تھا‘ آج تینوں سہولتیں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے گائوں کو پاکستان نے دیا ہے۔ گھرگھر ٹیلی وژن موجود ہے۔ سیاسی آگہی واضح طور پر عیاں ہے۔ سیاسی شعور تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کی میراث ہے‘ 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادر ملت کو مغربی پاکستان میں صرف دو جگہ برتری حاصل ہوئی تھی‘ ایک کراچی اور دوسرا ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ یہ جمہوریت اورآزادیٔ رائے بھی اس آزادی کی مرہون منت ہے جو ہمیں 14 اگست 1947ء کو حاصل ہوئی۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو مغربی حصے کی آبادی 32 ملین تھی۔گویا ہماری آبادی چھ گنا بڑھ گئی ہے۔ آبادی کے اس بے ہنگم پھیلائو کے باوجود آج ہم غذا میں خودکفیل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1950ء کی دہائی میں امریکی امداد کے تحت گندم پاکستان آتی تھی۔ آپ ڈیفنس کراچی‘ ڈی ایچ اے لاہور اور بحریہ ٹائون راولپنڈی چلے جائیں،آپ کو سرسبز اورکشادہ سڑکیں‘ خوبصورت گھر ہر طرف نظر آئیں گے۔ یہ پاکستان کی نئی مڈل کلاس ہے‘ اس کی ترقی میں دو عنصر نمایاں نظر آتے ہیں۔۔۔۔ایک پاکستان کی نعمت اور دوسرے اپنی محنت۔ شاید اس کے علاوہ بھی کوئی عناصر ہوں مگر آج میں نے صرف مثبت باتیں کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ریلے سائیکل کی جگہ ٹویوٹا کرولا نے لے لی ہے۔ میرے بے شمار عزیز اور دوست انگلینڈ‘ امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہیں، ان سے رابطہ رہتا ہے‘ کئی دوست ایسے ہیں جو سردیوں میں پاکستان میں ہوتے ہیں اور گرمیوں میں ملک سے باہر۔ میں پچھلے سال امریکہ میں تھا تو پتا چلا کہ وہاں پاکستانی ڈاکٹرزکو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ دل خوش ہوگیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ڈاکٹروں میں سے نوے فیصد میری طرح ٹاٹ والے سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ چار موسموں والا یہ خوبصورت ملک بے شمار امکانات کا حامل ہے اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ گزشتہ یوم آزادی مبارک!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں