"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ اسرائیلی تعلقات

امریکہ اسرائیل تعلقات بہت ہی خاص نوعیت کے ہیں۔ اسرائیل کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اس کی ترقی اور بقا میں امریکہ کا واضح رول ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کہا جاتا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے صرف دو مقاصد ہیں ایک تیل کا حصول اور دوسرا اسرائیل کی سکیورٹی ۔ ایک عرصے تک اسرائیل امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں سرفہرست رہا۔ آج بھی مشرق وسطیٰ میں بڑا امریکی فوجی اڈہ اسرائیل میں ہے۔ امریکی کانگریس سے لے کر تمام اہم اداروں میں یہودی لابی سرگرم عمل نظر آتی ہے۔ البتہ ماضی قریب میں حالات بدلے ہیں اور تمام تر اسرائیلی مخالفت کے صدر اوباما نے ایران کے ساتھ معاہدہ کر ہی لیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل تعلقات کو لگنے والا دھچکا کیا عارضی ہے یا دائمی۔ میرے خیال میں یہ سیٹ بیک عارضی ہے۔ اس وقت صدر اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ذاتی تعلقات میں بھی تنائو کی سی کیفیت ہے اور باہمی اعتماد کا فقدان ہے لیکن 2017ء میں صدر اوباما وائٹ ہائوس میں نہیں ہوںگے امریکہ اسرائیل تعلقات میں اس قدر گہرائی ہے کہ 2017میں بہتری کے امکانات روشن ہیں۔
1948ء میں امریکہ نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی حمایت کی۔ سرد جنگ کے زمانہ میں عرب قوم پرست جن کی قیادت صدر ناصر کر رہے تھے سوویٹ کیمپ میں تھے۔ عرب نیشلسٹ قوتوں کا زور امریکہ کو اسرائیل کے اور قریب لے آیا۔ امریکہ کو فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ بھی جائز لگنے لگا۔1963ء کی بات ہے کہ ایک سوویٹ یونین کے لیڈر نے جانسن کو کہا کہ اسرائیل صرف ایک ملک ہے جبکہ عرب ممالک کئی ہیں عربوں کی آبادی اسرائیل کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ایسے حالات میں منطق یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ اکثریت کے ساتھ دوستی کریں۔ صدر جانسن کا جواب تھا کہ ہمارے خیال میں اسرائیل کی پوزیشن برحق ہے۔ رہی سہی کسر 1967ء کی جنگ نے پوری کر دی اب اسرائیل کو امریکی امداد دل کھول کر ملنے لگی۔
آپ کو علم ہو گا کہ پوری دنیا میں یہودی آبادی پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ سے زائد نہیں اس میں سے 83فیصدیہودی امریکہ اور اسرائیل میں رہتے ہیں اور یہ ٹوٹل بارہ ملین بنتے ہیں اس طرح تقریباً چھ ملین یہودی امریکہ میں آباد ہیں جبکہ اس سے ذرا زیادہ اسرائیل میں۔ دونوں ملکوں میں دوہری شہریت کا معاہدہ ہے لہٰذا حکومتوں کے علاوہ عوامی سطح پر بھی گہرا رشتہ قائم ہے۔ لیکن اسرائیل کی امریکہ میں اصل قوت امریکن اسرائیلی پبلک افیرز کمیٹی ہے جو بہت ہی فعال لابی کے طور پر کام کرتی ہے اس کمیٹی کو عرف عام میں AIPAC(ایپاک) کہا جاتا ہے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ایپاک کیسے کام کرتی ہے اس کمیٹی کے ایک لاکھ کے قریب ممبر ہیں جو ہر وقت اسرائیلی مقاصد کی حمایت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ کمیٹی بہت مالدار ہے اور اس کے تمام ممبر اعلیٰ درجے کے پڑھے لکھے لوگ ہیں ویسے تو تمام یہودی خاندان تعلیم کو خاص اہمیت دیتے ہیں مگر چند پیشے ان کے فیورٹ ہیں مثلاً فلم سازی‘ میڈیا‘ میڈیسن وکالت بینکنگ اور فنانس جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کانگرس امریکہ کا سب سے موثر پالیسی ساز ادارہ ہے، اور اس میں پارلیمینٹ کے دونوں ہائوس یعنی سینٹ اور ایوان نمائندگان شامل ہیں۔
سب سے پہلے تو ایپاک انتخابات پر گہری نظر رکھی ہے۔ تمام مضبوط امیدواروں کو ایپاک چندہ دیتی ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام کہ امریکہ اسرائیلی تعلقات نہایت ہی اہم ہیں۔ کانگرس کے انتخابات کے علاوہ ایپاک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں میں ابھرتے ہوئے طالب علموں پر نظر رکھتی ہے۔ ہر کانگرس مین یعنی امریکی پارلیمینٹ کے ممبر کے ساتھ ایپاک کا ایک کارندہ لگا دیا جاتا ہے جو اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ اسرائیلی مفاد کے خلاف قانون سازی نہ ہو سکے اگرکوئی امریکی لیڈر اسرائیل کے خلاف کوئی بات بھی کر دے تو ایپاک کی طرف سے اسے درجنوں خط اور ای میل روانہ کر دیئے جاتے ہیں۔ ایپاک کانگرس کے اہم ممبران کو اسرائیل کے دوروں کی دعوت دیتی رہتی ہے جن کا خرچ کمیٹی خود برداشت کرتی ہے۔
1987ء کی بات ہے۔ میں ریاض میں تھا۔ افغانستان میں پاک امریکہ تعاون بلندیوں پر تھا۔ پاکستان اور امریکہ کے سفارت کاروں میں بھی دوستی تھی۔ ہمیں امریکی سفارت خانہ کی تمام دعوتوں میں بلایا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں میری اپنے امریکی ہم منصب مسٹر پیٹرسن سے بے تکلفی ہو گئی۔ ایک روز بات فلسطینی مسئلہ اور مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ میں نے کہا مسٹر پیٹرسن ویسے تو آپ کا ملک جمہوریت عدل اور انصاف کا داعی ہے۔ مگر فلسطین میں اسرائیلی بربریت پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ مسٹر پیٹرسن نے اس کی مذہبی توجیہہ پیش کی کہنے لگا کہ دراصل امریکی عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان تورات اور انجیل مقدس کا مشترکہ ورثہ ہے لہٰذا جب اسرائیلی کہتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہمیں فلسطین کی سرزمین سے نکالا گیا تو ہمیں ان کی بات پر یقین آ جاتا ہے میں نے کہا کہ ظلم کی تائید کے لیے مذہب کا سہارا لینا درست نہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ نائف حواتمہ حنان عشراری جو رج حباش کلووس مقصود ایڈورڈ سعید اور رامی خوری سب کے سب انجیل مقدس کے ماننے والے ہیں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور انجیل مقدس تو خود ہر طرح کے ظلم کے خلاف ہے۔ پھر پیٹرسن صاحب خاموش ہو گئے۔
امریکہ کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہالی وڈ میں آٹھ بڑے بڑے سٹوڈیو ہیں اور سب کے مالک یہودی ہیں۔ ٹائم اور نیوز ویک جیسے بااثر میگزین یہودی نکالتے ہیں۔ سی این این اور فوکس نیوز بھی انہی کے زیر تسلط ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیلی اثرورسوخ امریکہ کے علاوہ باقی دنیا میں بھی ہے کیونکہ پیسہ اور میڈیا دونوں بڑی قوتیں ہیں۔ درست ہے کہ امریکہ کا مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار کم ہوا ہے یہ بھی صحیح ہے کہ شام اور مصر کے کمزور ہونے سے اسرائیل کو کوئی فوری خطرہ نہیں لیکن داعش اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کو اب بھی اسرائیلی مدد درکار ہے لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات اور تعاون جاری رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں