جب 1965ء کی جنگ ہوئی تو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا سٹوڈنٹ تھا۔ میرے والدین اُن دنوں جڑانوالہ میں تھے۔ میں اپنے والدین کے پاس بی اے کے رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا کہ کشمیر کے حالات دگرگوں ہونے لگے۔ ستمبر کے آغاز میں ہی چھمب جوڑیاں سیکٹر میں سرحدی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پاک فوج اکھنور کی طرف پیش قدمی کرنے لگی۔ حکومت کا خیال تھا کہ یہ جنگ کشمیر تک ہی محدود رہے گی لیکن یہ تخمینہ غلط نکلا۔ چھ ستمبر کو انڈیا نے انٹرنیشنل بائونڈری کو کراس کرتے ہوئے لاہور کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ اُس زمانے میں چھوٹے قصبوں میں ٹی وی نہیں تھا۔ صدر ایوب خان کی مشہور تقریر میں نے ریڈیو پر سُنی۔
پہلے ہی روز لاہور پر بمباری ہوئی‘ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بزدل دشمن نے وزیرآباد کے پاس مسافر ٹرین پر ہوا سے گولیاں برسائیں۔ میڈیکل کالج کی طالبہ اس حملے میں شہید ہوئیں‘ اللہ اُس کے درجات بلند کرے‘ بچی کا نام غالباً عابدہ طوسی تھا۔ پہلے ہی دن سے پاکستانی میڈیا اپنے فرنٹ پر گرم جوشی سے جنگ میں شریک تھا اور اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کا رول سب سے اہم تھا۔ اعجاز حسین بٹالوی قانونی نقطۂ نظر سے ہندوستان کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ صوفی تبسم نے خوبصورت قومی ترانے لکھے جنہیں ملکہ ترنم کی آواز نے امر کردیا۔
سات ستمبر کا دن مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ دشمن کے ہوائی جہازوں نے سرگودھا پر حملہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اپنا جہاز لے کر ہوا میں بلند ہوئے اور آناً فاناً دشمن کے کئی جہاز گرا ڈالے۔ اُن کا یہ کارنامہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ سات ستمبر کے بعد انڈین ایئرفورس کا مورال بہت پست تھا۔ ایم ایم عالم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے بھی کئی دفعہ اقبال کے اشعار دہراتا ہوں۔ اقبال کے اس شاہین سے بعد میں دمشق میں ملاقاتیں رہیں۔ چھوٹے سے قد کا دُبلا پتلا یہ شخص بلا کا ذہین تھا۔ مختلف موضوعات پر بے تکان بولتا‘ ساری عمر شادی نہیں کی۔ جہاز اڑانے کے علاوہ اُسے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ عالم صاحب کی ذاتی لائبریری تھی۔ کتاب کا وہ بغور مطالعہ کرتے تھے۔ میں نے عالم صاحب سے مستعار کئی کتابیں شام میں پڑھیں۔ اہم سطور کے نیچے وہ فٹ رولر رکھ کر پنسل سے لائن لگاتے۔ صفحات کے حاشیے پر کہیں کہیں مختصر ریمارکس لکھتے۔ اس تمام عمل کے باوجود ان کی کتابیں بہت صاف ستھری ہوتی تھیں۔ اقبال کے اس شاہین نے دو تین سال پہلے وفات پائی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر ایئرفورس میس کے کمرے میں رہے۔ اس شاہین نے اپنا آشیانہ نہیں بنایا۔
جنگ ختم ہوئی تو میں واپس لاہور چلا گیا۔ جنگ کے دوران لاہور سے کئی لوگ محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے تھے۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نواب آف کالاباغ لاہور میں ڈٹے رہے۔ لاہور میں اُن دنوں جنگ کے حوالے سے ادبی جلسے عروج پر تھے میں نے ان میں سے کئی اٹینڈ کیے۔ ایک ادیب کہنے لگے کہ عام خیال تھا کہ پاکستانی گلبرگ جیسی پوش بستیاں آباد کر سکتے ہیں لیکن جنگ نہیں لڑ سکتے۔ 1965ء کی جنگ نے یہ تاثر غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ انہیں دنوں یہ بات بڑی عام ہوئی کہ پاکستانی فوجیوں کی امداد کے لیے سبز کپڑے پہنے فرشتے آسمان سے محاذ پر اترتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بائیں بازو کے ایک ادیب نے کہا تھا کہ فرشتوں والی بات پھیلا کر ہم اپنے جوانوں کی بہادری سے انصاف نہیں کر رہے۔
1965ء کی جنگ میں بہادری کا سب سے معتبر حوالہ نشان حیدر لینے والے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ہیں۔ اس جری افسر کا لاہور کے دفاع میں سب سے بڑا رول تھا۔ 1999ء میں جب میں بطور سفیر یونان گیا تو وہاں سکیورٹی گارڈ طالب حسین سابق فوجی تھا۔ طالب حسین بطور سپاہی 1965ء کی جنگ میں حصہ لے چکا تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ میجر عزیز بھٹی کی شہادت کا وہ عینی شاہد بھی تھا۔ طالب حسین اس بات کا راوی ہے کہ عزیز بھٹی نے دفاع پاکستان میں بہت بڑا باب اپنی جرأت اور بہادری سے رقم کیا۔ آخری گھنٹوں میں اُن کے پاس گولے بارود کی شدید کمی تھی۔ دشمن کے گولے مورچے کے چاروں طرف گر رہے تھے‘ ایسے میں کمک کا آنا بھی مشکل تھا؛ چنانچہ اس بہادر افسر نے اپنے مورچے والوں کو حکم دیا کہ فائر کرتے رہو مگر وقفہ بڑھا دو تاکہ ہمارا اسلحہ بھی زیادہ دیر چلے اور دشمن کو یہ گمان بھی نہ ہو کہ مورچہ خاموش ہو گیا ہے۔
1965ء میں پوری قوم ایک تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم بنگالی طلباء کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔ پی اے ایف کے کرسچین افسر دشمن پر بمباری میں پیش تھے۔ اس سلسلہ میں سکواڈرن لیڈر سیسل چودھری کا نام مشہور ہوا۔ 1965ء کی جنگ میں پوری قوم یک قالب تھی۔ جو لوگ لاہور سے نقل مکانی کر کے شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ اور لائل پور جا رہے تھے‘ لوگ کھانا پکا کر سڑکوں پر ان کا انتظار کرتے تھے کہ کوئی بھوکا نہ رہے۔ جنگ کو شروع ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ جڑانوالہ میں اعلان ہوا کہ پاک فوج کو زخمیوں کے لیے خون کی ضرورت ہے اور میڈیکل کور کے لوگ خون اکٹھا کرنے آ رہے ہیں مقامی سکول میں خون اکٹھا کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ خون دینے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ میں خود خون دینے والوں میں شامل تھا۔
پاک نیوی‘ آرمی اور فضائیہ سے کیوں پیچھے رہتی۔ نیوی کے جہاز کھلے پانیوں میں دوارکا گئے اور انڈین نیوی کی تنصیبات پر حملہ کر کے بحفاظت کراچی واپس آ گئے۔ فضائیہ کے چیف ایئرمارشل نور خان نے خود جنگ میں حصہ لیا اور ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ قوم میں عجیب جذبہ تھا۔ بریگیڈیئر شامی غالباً کھیم کرن سیکٹر میں شہید ہوئے تو اُن کا بیٹا فوج میں چلا گیا اور میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔ آج پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں؛ لہٰذا 1965ء کی طرح کی روایتی جنگ کے امکانات کم ہیں اور ویسے بھی جنگ مسائل کا حل نہیں‘ جنگوں میں خون بہتا ہے‘ جنگوں سے غربت پھیلتی ہے۔ کیا آپ کو علم ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی ایک اور جنگ شروع ہو چکی ہے آپ کا خیال فوراً سیالکوٹ بارڈر کی طرف جائے گا۔
جی نہیں! یہ جنگ اقتصادی جنگ ہے‘ فیکٹریوں میں ہو رہی ہے‘ یونیورسٹیوں میں ہو رہی ہے‘ ریسرچ کے اداروں میں جاری ہے اور اقتصادی میدان کی اس جنگ میں بھارت فی الحال ہم سے آگے ہے؛ لہٰذا اُس سے جنگ جیتنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا پیسہ دبئی منتقل کرنے کی بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں‘ پھر آیئے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے اس مرتبہ ایمانداری سے بھریں۔ اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنائیں۔ ہماری زراعت اور ہماری انڈسٹری انڈیا سے بہتر ہو‘ ہمارے لوگوں کا معیار زندگی انڈیا سے اچھا ہو تب ہم کہہ سکیں گے کہ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی عظیم قربانی رائگاں نہیں گئی۔