"JDC" (space) message & send to 7575

سالم تانگہ

پاکستان سے جب صدر یا وزیر اعظم بیرونِ ملک سرکاری دورے پر جاتے ہیں تو سرکاری جہاز اکثر ان کے زیر تصرف ہوتا ہے۔ ایک درمیانے سائز کے جہاز میں سو سے ڈیڑھ سو سیٹیں ہوتی ہیں۔ سرکاری وفد تشکیل پاتا ہے تو ایک پرابلم آڑے آتا ہے۔ مثلاً دنیا کی اکلوتی سپر پاور کا پروٹوکول ہے کہ کسی بھی سرکاری وفد کے صرف آٹھ لوگوں کی رہائش اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جاتا ہے، یعنی سرکاری مہمانوں کی تعداد محدود ہوتی ہے لیکن اگر وفد صرف آٹھ لوگوں کا ہی رکھا جائے تو اس میں جہاز کا عملہ شامل کر کے بھی کل تعداد پندرہ سولہ سے زیادہ نہیں بنے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاز کی اکثر نشستیں خالی رہیں گی۔ ایسے میں لیڈر کے پاس وزیر، ایم این اے، صحافی اور پرسنل سٹاف کی فرمائشیں آنا شروع ہوتی ہیں کہ :
'سانوں وی لے چل نال وے لیڈر سوہنے جہاز والیا‘
چنانچہ وفد کا سائز بڑھنے لگتا ہے۔ ہمارے لیڈر اکثر مروت والے لوگ ہیں؛ چنانچہ اگر کچھ مزید لوگوں کو جہاز میں بٹھا لیا جائے تو لیڈر سے وہ لوگ خوش بھی ہو جاتے ہیں اور مہینوں دوستوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ بیرون ملک کیا دیکھا، کون سے کھانے کھائے، کیسی کیسی شاندار کاروں میں بیٹھے۔ البتہ وفد کے ممبران کا ٹی اے ڈی اے سرکاری خزانے سے ہی جاتا ہے۔ اب سنا ہے کہ اخبار نویس اپنے خرچ پر جانے لگے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں خالد شفیع چیف آف پروٹوکول تھے۔ جب سرکاری وفد شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جاتا تھا تو دوسرے افسر انہیں کہتے تھے کہ اب فل سٹاپ لگا دیں۔ وزارت خارجہ قسطوں میں ویزے مانگتی اچھی نہیں لگتی۔ خالد شفیع ہنس کر جواب دیتے تھے: آپ فکر نہ کریں ہمارے پاس سالم تانگہ ہے۔
سالم تانگہ کی روایت تو پہلے بھی تھی لیکن یہ صدر ضیاء الحق کے زمانے میں زیادہ راسخ ہوئی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ موصوف تواتر سے سعودی عرب عمرہ کے لیے جایا کرتے تھے۔ بقول ان کے اس طرح ان کی بیٹری چارج ہو جاتی تھی، لیکن اس بات کا مجھے ذاتی علم ہے کہ بار بار جانے کے باوجود سعودی لیڈر انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اوپر کی سطور میں ذکر اس بات کا آیا ہے کہ سرکاری وفد کس طرح سے پھیلتا ہی جاتا ہے۔ صدر ضیاء الحق کے ساتھ عمرے کے لیے آنے والوں میں ایک دلچسپ نام ملتانی بابا کا ہوتا تھا۔ موصوف اسلام آباد کی بیورو کریسی کے پیر تھے۔ سروس کے رولز سے بخوبی واقف تھے۔ اُن کے پاس تازہ ترین معلومات پروموشن اور ٹرانسفر کے حوالے سے بھی ہوتی تھیں۔ کئی سینئر افسر اُن کے پاس دعا کرانے بھی جاتے تھے۔ جیسے جیسے وہ صدر ضیاء الحق کے قریب ہوتے گئے اُن کی دعائوں میں اثر بھی بڑھنے لگا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی روحانی شخصیات کی معتقد تھیں۔ اُن کے پاس ایک بھاری بھرکم پیر پی ایم ہائوس میں آیا کرتے تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ہم عصر رہے تھے۔ ایک مرتبہ بیرون ملک دورے کے لیے وفد تشکیل پا رہا تھا۔ جب وفد مکمل ہو گیا تو پیر صاحب سے مشورہ کیا گیا۔ وفد کی کل تعداد غالباً 88 تھی۔ پیر صاحب نے فرمایا کہ طاق عدد سعد رہے گا؛ لہٰذا تعداد یا 87 کر دیں اور یا پھر 89؛ چنانچہ پیر صاحب کو بھی وفد میں شامل کر لیا گیا۔
بات محترمہ کی ہو رہی ہے تو مجھے 1989ء کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میں اُن دنوں سعودی عرب میں سفارت خانہ میں قونصلر تھا۔ محترمہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تو وہ شکرانے کا عمرہ ادا کرنے تشریف لائیں۔ حسب معمول تانگہ سالم تھا۔ سفیر صاحب وزیر اعظم کے پروٹوکول کی بجاآوری میں حجاز مقدس چلے گئے۔ ریاض میں سفارت خانے کا انچارج میں تھا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ سعودی پروٹوکول کا فون آیا کہ آپ کی وزیر اعظم پندرہ منٹ میں ریاض ایئرپورٹ کے رائل ٹرمینل پر اترنے والی ہیں۔ میرے لئے یہ خبر حیران کن تھی کہ پروگرام کے مطابق محترمہ نے جدہ سے ڈائریکٹ اسلام آباد جانا تھا۔ میں نے سعودی چیف آف پروٹوکول سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ کیونکہ سعودی فرمانروا سے ملاقات بھی جدہ میں ہو چکی تھی۔ جواب ملا کہ پریشان نہ ہوں، کچھ ٹیکنیکل پرابلم ہے۔ سفارت خانہ سے ایئر پورٹ کا فاصلہ خاصا تھا۔ میں بھاگم بھاگ ایئر پورٹ پہنچا تو پتہ چلا کہ ایک ایم این اے کا سامان جہاز پر چڑھ گیا تھا، لیکن وہ خود وزیر اعظم کو یہ کہہ کر جدہ ایئرپورٹ سے واپس چلے گئے کہ مزید عبادت کے لیے رکنا چاہتے ہیں۔ جہاز ہوا میں بلند ہوا تو یہ خبر جہاز کے کپتان تک پہنچی۔ کپتان نے کہا کہ بغیر مسافر کے سامان سکیورٹی رسک ہے، مجھے نزدیک ترین ایئرپورٹ لینڈ کر کے وہ سامان اتارنا ہو گا؛ چنانچہ سارا سامان اتار کے مسافروں سے شناخت کرایا گیا اور ایک سوٹ کیس چھوڑ کر طیارہ پھر سے سوئے پاکستان پرواز کر گیا۔
مئی 1998ء کی بات ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف ایک اقتصادی سیمینار کے لیے ہانگ کانگ گئے ہوئے تھے۔ میں ان دنوں رنگون میں سفیر تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ پاکستان واپس جاتے ہوئے سالم تانگہ رنگون میں تیل بھروانے کے لیے رکے گا اور وزیر اعظم اور اُن کا وفد آدھا گھنٹہ ایئر پورٹ پر رہیں گے۔ تھوڑی دیر بعد خبر آئی کہ وزیر اعظم بہادر شاہ ظفر کے مزار پر جائیں گے؛ چنانچہ سب انتظامات کر لیے گئے۔ فاتحہ خوانی کے بعد مہمانوں کی کتاب وزیر اعظم کے سامنے رکھی گئی۔ وزیر اعظم نے من جملہ دیگر تاثرات کے یہ مصرع بھی لکھا ،
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
یہ مصرعہ لکھ کر وہ بیگم صاحبہ کی طرف دیکھنے لگے اور خاتون اول نے فوراً لقمہ دیا:
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
شاید اکثر قارئین نہ جانتے ہوں کہ بیگم کلثوم نواز شریف اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔
اور اب ذکر ہو جائے اُن چار پروازوں کا جن میں، میں خود سالم تانگہ میں سوار تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور سال 2004ء، میں فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری مڈل ایسٹ تھا۔ صدر یا وزیر اعظم باہر جائیں تو فارن آفس کے متعلقہ ڈویژن کا سینئر افسر ساتھ جاتا ہے۔ شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کا انتقال ہوا تو صدر مشرف نے جنازے میں شرکت کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ میں ڈیوٹی کے طور پر جہاز میں ابو ظہبی کی طرف محو پرواز تھا۔ شیخ زاید کو ابوظہبی کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے دفن کیا گیا۔ جنازہ بہت بڑا تھا۔ اکثر عرب لیڈر اور شہزادے اس عظیم لیڈر کی تدفین میں شریک تھے۔ میں صدر مشرف کے ملٹری سیکرٹری اور دیگر سٹاف کے ساتھ کھڑا تھا۔ تدفین کا عمل مکمل ہوا تو سٹاف نے صدر صاحب کی تلاش شروع کی تا کہ ان کے پیچھے پیچھے ایئر پورٹ چلیں، جہاں سالم تانگہ واپسی کے لیے ہمارا منتظر تھا۔ صدر مشرف ہمیں نہیں ملے۔ پتہ چلا کہ وہ کسی کے ساتھ چلے گئے ہیں۔ پرسنل سٹاف کی پریشانی دیدنی تھی۔ صدر کو علیحدہ چھوڑنا سکیورٹی اور پروٹوکول کے لحاظ سے قطعاً نامناسب تھا۔ ہم سفارت خانے کی گاڑی میں سوئے ایئر پورٹ روانہ ہوئے۔ ڈرائیور پاکستان سے نیا نیا آیا تھا۔ راستے میں جگہ جگہ پولیس کے ناکے تھے۔ خدا خدا کر کے ایئرپورٹ پر پہنچے تو صدر مشرف آدھے گھنٹے سے جہاز میں ہمارے منتظر تھے۔ کہنے لگے: میں سعودی کرائون پرنس کے ساتھ آ گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ سٹاف کو ڈانٹ پڑے گی لیکن ایسا قطعاً نہیں ہوا۔ 
2004ء میں ہی میں دو وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کے ساتھ دو مرتبہ سعودی عرب گیا۔ دونوں کے سعودی حکمرانوں کے ساتھ ذاتی مراسم تھے۔ وفود کی خوب آئو بھگت ہوئی۔ دونوں مرتبہ سرکاری بات چیت کے دور بھی ہوئے۔ شوکت عزیز صاحب کی ایک اچھی عادت تھی کہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر دوران پرواز وفد کے ایک ایک فرد کے پاس جا کر حال احوال ضرور پوچھتے تھے۔ میں ایک مرتبہ پھر شوکت عزیز صاحب کے ساتھ یاسر عرفات کی نماز جنازہ کے لیے قاہرہ گیا۔ ایک رات نیل کے کنارے ہوٹل میں گزاری تو 1974ء کے سال کی وہ یادیں تازہ ہو گئیں جب میں قاہرہ عربی سیکھنے گیا تھا۔
اگلے روز ہم بطل حریت یاسر عرفات کی نماز جنازہ میں شریک تھے۔ قاہرہ سے ان کا جسد خاکی فلسطین بھیجا گیا ع
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں