"JDC" (space) message & send to 7575

زرداری صاحب دو شنبے میں

جنوری 1995ء میں مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ دوشنبے میں پاکستان کے پہلے سفیر کے طور پر صدر امام علی رحمانوف کو اسنادِ سفارت پیش کروں۔ عام روایت ہے کہ اسناد پیش کرنے کے بعد سفیر اور سربراہ ملک کی بات چیت ہوتی ہے۔ صدر رحمانوف کے وہ الفاظ میرے ذہن میں اب بھی تازہ ہیں کہ آج کا دن تاریخی ہے کیونکہ پاک تاجک تعلقات کا درجہ بلند ہو رہا ہے۔ ویسے تو تاجکستان سے ہمارے سفارتی تعلقات 1992ء کے اوائل سے تھے مگر یہ ناظم الامور کی سطح پر تھے۔ مدثر نور وہاں ہمارے ناظم الامور یعنی سی ڈی اے تھے۔ سی ڈی اے اپنی اسناد صدر کو نہیں بلکہ وزیر خارجہ کو پیش کرتا ہے۔ 1992ء میں ہی تاجکستان میں سول وار ہوئی۔ دوشنبے میں دو تین ماہ میں پچاس ہزار لوگ مارے گئے۔ یہ جنگ سیاسی نوعیت کی تھی اور اقتدار کے حصول کے لیے۔ اسلامی اور روس نواز دھڑے آپس میں متحارب تھے۔ سفارت خانہ ایک ہوٹل میں تھا اور مدثر نور بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے کیونکہ بڑے ہوٹل ایسے حالات میں نسبتاً محفوظ ہوتے ہیں۔ حالات زیادہ خراب ہوئے تو مدثر نور ایک فوجی ٹینک میں بیٹھ کر ایئر پورٹ گئے اور پاکستان آ گئے۔ اس ٹینک کا بندوبست ایمبیسی کے ایک نہایت ہی مستعد لوکل ملازم یوسف بابا کلانوف نے اپنے ایک فوجی کزن کے ذریعہ کیا تھا۔
میں جب دوشنبے پہنچا تو شہر میں خوف و ہراس کی فضا قائم تھی۔ میں اپنی فیملی اسلام آباد چھوڑ گیا تھا۔ دن کو دفتر کا کام ہوتا تھا۔ شام کو یوسف بابا کلانوف کی ڈیوٹی تھی کہ میرے ساتھ روزانہ واک کرے۔ اکیلے واک کرنا سکیورٹی کے اعتبار سے درست نہیں تھا۔ واک کے علاوہ سوویت یونین کے زمانے کے کورڈٹینس کورٹ تھے جو وقت گزارنے کا اچھا ذریعہ تھے۔
دوشنبے میں دوماہ ہی گزرے تھے کہ اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے ممالک کا سمٹ اجلاس ہوا۔ صدر امام علی رحمانوف اسلام آئے اور مجھے بھی اسلام آباد پہنچنے کا خوشگوار حکم نامہ ملا۔ صدر فاروق لغاری نے کانفرنس میں شریک تمام صدور اور ان کے وفود کے لیے شاندار ڈنر دیا۔ سنٹرل ایشیا کے حکمران سرکاری بات چیت عمومی طور پر روسی زبان میں کرتے تھے۔ یہ بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ ہیڈ ٹیبل پر صدر لغاری، وزیر اعظم بینظیر اور آصف زرداری مہمان صدور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر سہیل خان فارن آفس کی طرف سے بطور ترجمان اسی میز پر براجمان تھے۔ کھانا ختم ہوا تو ڈاکٹر سہیل میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ زرداری صاحب کی پہلی ہی ملاقات میں صدر رحمانوف سے دوستی ہو گئی ہے اور آپ تیار رہیں وہ دوشنبے آنے ہی والے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1990ء کی دہائی میں پاکستان نے نئے نئے آزاد شدہ سنٹرل ایشیا کے ممالک کو پاکستانی مصنوعات خریدنے کے لیے قرضے دیئے تھے۔ ان مسلمان ریاستوں کے آزاد ہونے سے پاکستان کو بہت امیدیں تھیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ تمام سنٹرل ایشین ممالک میں سے صرف تاجکستان والے فارسی بولتے ہیں، لہٰذا ثقافتی لحاظ سے پاکستان اور ایران کے قریب تر ہیں۔ آزادی کی تحریک کے دوران علامہ اقبال کی نظم 'از خوابِ گراں خیز‘ ہر حریت پسند تاجک کی زبان پر تھی۔
تاجک حکومت کو اس بات کا یقین تھا کہ باغی تاجک انتہا پسند ہمارے قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں اور تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ بے نظیر چونکہ لبرل سیاست دان ہیں، لہٰذا وہ انتہا پسند تاجک باغیوں کی سرگرمیاں روکنے میں ممدومعاون ہو سکتی ہیں۔ کئی تاجک بے نظیر بھٹو کی شخصیت سے مسحور تھے۔ کئی ایک نے اپنی بچیوں کا نام بے نظیر رکھا۔ ایک قدامت پسند اسلامی ملک کی خاتون وزیر اعظم ہونے کو تاجک بے نظیر کی بہادری اور ذہانت کی دلیل سمجھتے تھے۔ سوویت یونین کے زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ پاکستان بہت قدامت پسند اور پسماندہ ملک ہے۔ 1991ء میں جب سنٹرل ایشیا کے ملک آزاد ہوئے اور پاکستان سے روابط قائم ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو ان کے اذہان میں تھا۔
زرداری صاحب 1996ء میں دوشنبے تشریف لائے۔ تب وہ وفاقی کابینہ میں وزیرِ ماحولیات تھے۔ ان کی آمد سے پہلے افواہ گرم تھی کہ دورے کا اصل مقصد تاجکستان کو اپنی شوگر ملز کی چینی بیچنا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس افواہ کو تقویت اس بات سے مل رہی تھی کہ بیس ملین ڈالر کے کریڈٹ معاہدے میں جو ایکسپورٹ آئٹم درج تھے۔ ان میں چینی بھی شامل تھی۔ زرداری صاحب پاکستان ایئر فورس کے طیارے میں مختصر سے وفد کے ساتھ آئے۔ تاجکستان میں اُس وقت ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور دو تین اخبار۔ میڈیا والے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ میڈیا والوں نے سوال کیا کہ آپ کے دورے کے مقاصد کیا ہیں۔ اس سوال سے زرداری صاحب ذرا پریشان لگے مگر جواب ٹھیک دیا کہ میں وزیر ماحولیات ہوں اور ہم دونوں ممالک ایک ہی خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں ماحولیات کے بارے میں بات چیت کرنے آیا ہوں۔ کار میں سوار ہوئے تو زرداری صاحب نے مجھے اردو میں کہا کہ میڈیا کو بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے جواب دیا کہ آپ تاجک حکومت کے نہایت اہم مہمان ہیں اور یہاں میڈیا بھی سرکاری ہے، یہ کیسے ممکن تھا کہ میڈیا ایسی اہم وزٹ کو کور کرنے نہ آتا۔
وزیر مہمان داری فرخ محی الدین تھے، جو وزیر مواصلات تھے اور بدخشاں سے چترال تک سڑک بنانے کا منصوبہ ان کے پاس تھا۔ اور ہاں مزے کی بات یہ کہ پی آئی اے نے کراچی سے ایک شیف پہلے ہی دوشنبے بھیج دیا تھا جس کا اختصاص بھنڈی توری پکانا تھا۔ میں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ زرداری صاحب سرکاری کھانے کے بعد دوستوں کے ساتھ لمبی نشست کرتے ہیں اور نصف شب آخری کھانا کھاتے ہیں جس میں بھنڈی توری مینو کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ اُس زمانے میں تاشقند میں ایک پاکستانی کمپنی ہوتی تھی۔ اُس کا نمائندہ انواع و اقسام کے مشروبات لے کر پہلے ہی آ گیا تھا۔
پہلے روز تقریباً مغرب کے وقت صدر امام علی رحمانوف سے مختصر ملاقات ہوئی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ فوٹو سیشن تھا۔ میں اس ملاقات میں موجود تھا۔ حال احوال پوچھا گیا۔ کئی مرتبہ خوش آمدید کہا گیا۔ تاجک بہت مہمان نواز لوگ ہیں۔ شام کو صدر رحمانوف نے ڈنر دیا۔ میں اُس میں بھی موجود تھا۔ ڈنر کے دوران بھی خوشگوار گپ شپ ہی ہوئی، کوئی ٹھوس بات نہیں ہوئی۔ اگلے روز زرداری صاحب کے کہنے پر تاجک وزیر ماحولیات سے ملاقات رکھی گئی۔
دوسرے روز ظہر کے بعد تاجک صدر سے ملاقات تھی۔ میں نے اپنی تیاری مکمل کی ہوئی تھی لیکن ملاقات سے قبل مجھے پیغام ملا کہ ملاقات ون ٹو ون ہو گی۔ سفیر صاحب آرام فرمائیں۔ میرا ذہن فوراً اُس افواہ کی طرف گیا جو شوگر کے بارے میں سن رکھی تھی۔ بند کمرے میں کیا بات ہوئی اس کا مجھے آج تک علم نہیں۔
شام کو میری طرف سے کھانا تھا۔ تاجک کابینہ کے کئی وزیر آئے ہوئے تھے۔ زرداری صاحب کے وفد میں ایک آسٹریلوی گورا بھی تھا۔ زرداری صاحب نے دوران گفتگو اس گورے کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھا حالانکہ آداب کے مطابق انہیں زیادہ توجہ تاجک وزیروں کو دینی چاہیے تھی۔ ویسے تو موصوف زیرک اور خوش اخلاق انسان ہیں لیکن مجھے احساس ہوا کہ گورا رنگ اور انگریزی زبان، ان کی کمزوری ہیں۔
اگلے یعنی تیسرے دن ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کلیاب گئے اور میر سید علی ہمدانی کے مزار پر حاضری دی۔ اسی دن شام کو واپسی تھی۔ صدر رحمانوف نے ترکی نسل کا ایک گھوڑا تحفہ میں دیا۔ تاجکستان کے فروٹ بہت لذیز ہیں۔ زرداری صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ جہاز میں جتنا فروٹ آ سکتا ہے لاد دیا جائے، پاکستان میں دوستوں کو دینا ہے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ سفارت خانے کے بجٹ میں سے ناممکن ہے۔ جواب ملا، آپ فکر نہ کریں پیسے ہم خود ادا کریں گے۔ میرے اس جواب کے باوجود زرداری صاحب کی خوش اخلاقی الوداع تک قائم و دائم رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں