"JDC" (space) message & send to 7575

سعودی عرب دوستوں کی تلاش میں۔۔۔۔(آخری قسط)

سعودی عرب اور مصر کے تعلقات کئی پیچیدہ ادوار سے گزرے ہیں۔ جمال عبدالناصر نے عرب نیشنلزم کا علم بلند کیا تو سعودی عرب نے سخت مخالفت کی۔ اخوان المسلمین مصر میں فعال ہوئے تو ناصر نے انہیں ملک بدر کیا۔ اخوان لیڈر شپ نے اس وقت سعودی عرب میں پناہ لی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں سعودی عرب اور مصر یمن کی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے۔ مصر اس زمانے میں عرب دنیا کا لیڈر تصور ہوتا تھا۔ پھر حالات بدلے، 1967ء کی شکست نے مصر کی عرب دنیا میں پوزیشن خاصی خراب کر دی اور 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے عرب دنیا کی لیڈر شپ کا اخلاقی اور سیاسی جواز بھی مصر سے چھین لیا۔
2011ء تک صدر حسنی مبارک سعودی عرب کا مضبوط حلیف تھا۔ چنانچہ عرب سپرنگ کی مخالفت سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں قدرتی امر تھا۔ سعودی لیڈر شپ کی اپنی شروع سے ہی سوچ رہی ہے کہ جمہوریت آہستہ آہستہ سیکھی جاتی ہے، اگر جمہوری نظام یکدم نافذ کر دیا جائے تو فائدے کی بجائے نقصان کا احتمال ہو سکتا ہے۔ مصر میں صدر محمد مرسی منتخب ہوئے تو سعودی لیڈر شپ نے ان کی مخالفت کی۔ جب صدر مرسی کی حکومت کا تختہ ایک سال بعد ہی الٹا دیا گیا تو سعودی حکمران جنرل عبدالفتاح السیسی کی آمد سے بے حد خوش نظر آئے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حال ہی میں مصر کا تاریخی دورہ کیا ہے۔ اس وزٹ میں اہم فیصلے ہوئے ہیں اور خطے میں طاقت کے توازن کے حوالے سے اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔
یوں تو جنرل عبدالفتاح السیسی نے مجموعی طور پر حالات پر کنٹرول کر لیا ہے لیکن صحرائے سینا میں دہشت گردی اب بھی مصری لیڈر شپ کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کا مقابلہ اور اس کا خاتمہ زیر بحث رہا۔ تیران اور سنافیر دو جزیرے ہیں جو خلیج عقبہ میں سینا سے قریب واقع ہیں، ان جزیروں پر آبادی تو نہ ہونے کے برابر ہے مگر ان کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ دونوں جزیرے 1950ء تک سعودی عرب کے پاس تھے۔ سعودی عرب ان دنوں ایک کمزور اور پس ماندہ ملک تھا۔ ان جزیروں کو اسرائیل سے خطرہ تھا؛ چنانچہ اس وقت کی سعودی لیڈر شپ نے یہ جزیرے مصر کے حوالے کر دیئے کہ وہ ان کا بہتر دفاع کر سکے گا۔ اس دورے میں یہ جزیرے واپس سعودی عرب کو مل گئے ہیں۔ مالک کی ملکیت اسے واپس مل گئی لیکن مصر میں شور بہت مچا۔ کہا گیا کہ اتنے اہم جزیرے مٹھی بھر ڈالروں کے عوض دے دیئے گئے۔ میرے لیے مصری میڈیا کی یہ مخالفت اخلاق کی کمی کا مظہر تھی۔ نجانے کیوں مگر مصری سوچ میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ خلیجی ریاستوں پر معمولی احسان کرتے ہوئے بھی قیمت وصول کرنا ضروری ہے۔ 
قاہرہ میں قیام کے دوران کنگ سلمان بن عبدالعزیز مصری پارلیمنٹ سے خطاب کرنے والے پہلے عرب لیڈر ٹھہرے۔ اپنے خطا ب میں شاہ سملمان نے عربوں میں وحدت اور عسکری تعاون پر زور دیا۔ سعودی عرب مصر میں 16ارب ڈالرکا انویسٹمنٹ فنڈ قائم کرے گا۔ پندرہ معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اگلے پانچ سال تک سعودی عرب مصر کو بائیس ارب ڈالر کے برابر تیل دے گا۔ مصر کے لیے یہ اچھی خبر ہے کیونکہ مصری معیشت ابھی تک عرب سپرنگ کے صدمات سے باہر نہیں نکل پائی۔ ان پندرہ معاہدوں میں سب سے اہم مصر اور سعودی عرب کو پُل کے ذریعے ملانے کا معاہدہ ہے جس کے دور رس اقتصادی اور عسکری نتائج نکلیں گے۔ براعظم ایشیا اور افریقہ برّی راستے سے ملا دیے جائیں گے۔
سینا کہنے کو تو بس صحرا ہے لیکن اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مصر کا یہ حصہ ایشیا میں واقع ہے۔ سیاحت کے اعتبار سے سینا کی اہمیت مصر کے لیے کچھ کم نہیں ہے۔ شرم الشیخ کا شہر اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا جہان سے سیاح یہاں سورج کی تمازت سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں، سمندر میں غوطہ زنی کئی سیاحوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ ریڈ سی یعنی بحیرہ احمر اپنی تہہ میں خوب صورت مناظر رکھتا ہے۔ سیاح آکسیجن کا سلنڈر کمر کے ساتھ باندھتے ہیں اور سمندر میں نیچے چلے جاتے ہیں۔ سینا میں قیمتی دھاتیں مثلاً سونا بھی دریافت ہوا ہے۔ مذہبی سیاح جبل سینا پر جاتے ہیں جہاں حضرت موسیٰؑ اور خالق جہاں کا مکالمہ ہوا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں سینا کو سکیورٹی کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔۔۔۔ زون اے، بی اور سی۔ زون سی کا علاقہ اسرائیل اور غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور یہاں مصر کو پولیس کے محدود دستے رکھنے کی اجازت ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں داعش آ ج کل کارروائیاں کر رہی ہے، اس کی سب سے خطرناک کارروائی روسی جہاز میں بم رکھنا تھی۔ اس حادثے کے بعد شرم الشیخ میں سیاحوں کی آمد کم ہوئی ہے۔ حال ہی میں مصر نے اسرائیل سے زون سی میں مزید سکیورٹی نفری رکھنے کی اجازت حاصل کی ہے۔
اس وقت سعودی عرب اور مصر کے مفادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مرسی حکومت جانے کے بعد مصر اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری نظر آتی ہے۔ مصر کو ایسے دوستوں کی اشد ضرورت ہے جو اس کی مالی معاونت کر سکیں۔ دوسری طرف سعودی عرب کو ایسے حلیف چاہئیں جو ابھرتے ہوئے ایران کے تناظر میں با اعتماد ساتھی ثابت ہوں۔ اس طرح فی الحال یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔
مصر کی آبادی نوّے فیصد مسلمان ہے اور دس فیصد عیسائی۔ مسلمانوں کا سواد اعظم شافعی مسلک کے سنی ہیں۔ امام شافعیؒ قاہرہ ہی میں مدفون ہیں اور میں ان کے مرقد پر گیا ہوں۔ مسلک کے اعتبار سے مصری لوگ سعودی عرب کے قریب تر ہیں۔ سعودی عرب فقہی اعتبار سے جامعہ ازہر کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس سارے تطابق کے باوجود دونوں ملکوں میں ایک خاص نوعیت کی مسابقت بھی پائی جاتی ہے اور اس سوچ کے دھارے ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جس کا ذکر مختصر طور پر کالم کے شروع میں کیا گیا ہے۔
سعودی عرب فی الوقت مخلص دوستوں کی تلاش میں ہے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن قائم رہے، لیکن مصر کی دوستی غیر مشروط نہیں ہو سکتی۔ میں1991ء کی جنگ میں ریاض میں تھا۔ امریکہ اور کئی دیگر ممالک کی فوجیں سعودی عرب آ گئیں تاکہ صدام حسین کو کویت سے نکالا جائے۔ حسنی مبارک نے بھی اپنی فوج کے دستے سعودی عرب بھجوائے اور صدام حسین کے خلاف خوب بیان دیئے۔ سعودی قیادت نے بھی دل کھول کر مصر کو مالی امداد دی۔ مصری اپنی حسِ مزاح کے لیے عرب دنیا میں مشہور ہیں اور سعودی عرب میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان دنوں سعودی عرب میں مقیم مصریوں نے اپنے صدر کا نام ٹیلیفون بوتھ رکھ دیا تھا۔ ان سے وجہ پوچھی گئی تو جواب ملا کہ بات کرنی ہے تو پیسے ڈالتے جائو۔ حسنی مبارک کے حمایتی بیانات کو وہ سعودی مالی امداد سے جوڑ رہے تھے۔
مصر کے اخوان المسلمین سعودی عرب سے خوش نہیں ہیں۔ ادھر سعودی قیادت کا خیال ہے کہ مصر میں فوج ہی قابل اعتماد ادارہ ہے، لہٰذا سعودی عرب نے جنرل سیسی کی کھل کر حمایت کی ہے۔ چونکہ مصر میں فوج کا کنٹرول فی الحال رہے گا، لہٰذا سعودی مصری تعاون مستحکم ہو گا اور یہ تعاون کچھ دوکچھ لو کے مفروضے پر قائم ہوگا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ کوئی دو سال پہلے اسلامی ممالک میں سعودی عرب کے حوالے سے ایک سروے ہوا تھا اور سعودی عرب کی سب سے زیادہ مقبولیت پاکستان میں نظر آئی تھی۔ پاکستان کا یمن میں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ صائب تھا لیکن پاکستان سعودی عرب کا بے لوث دوست ہے۔ پاکستان کی جگہ نہ انڈیا لے سکتا ہے اور نہ مصر۔ البتہ سعودی مصری تعاون خطے میں استحکام لائے گا، طاقت کے توازن کو بگڑنے سے بچائے گا اور ہمیں اس پیش رفت کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں