"JDC" (space) message & send to 7575

اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت

وزیراعظم نوازشریف کی ٹی وی اور اسمبلی میں کئی گئی حالیہ تقریروں سے تین تاثرات ابھرتے ہیں ۔اوّل یہ کہ شریف فیملی پاکستان کا مظلوم ترین خاندان ہے۔ دوم یہ کہ اس نابغۂ روزگار فیملی کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے ‘یہ جس چیز کو چُھو لیں وہ سونا بن جاتی ہے۔ سوم یہ کہ پاکستان کا کوئی اور خانوادہ پاک دامنی میں ان کے ہم پلہ نہیں کیونکہ یہ دودھ کے نہائے ہوئے ہیں اس لئے ان کے دامن پر کوئی دھبہ ہو ہی نہیں سکتا۔
مجھے اگر ایک دو ذاتی تجربے نہ ہوئے ہوتے تو شاید میں ان باتوں پر یقین کر لیتا۔ اب آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ‘ایک دو تجربوں کی بنیاد پر کسی فرد یا فیملی کے بارے میں فیصلہ صادر نہیں ہو سکتا اور یہ بالکل درست ہے ۔لہٰذا اس کالم کا مقصد کسی کی کردار کشی نہیں بلکہ حقائق کی مدد سے وزیراعظم اور حکمران جماعت کا تنقیدی جائزہ لینا ہے اور تنقید مثبت بھی ہو سکتی ہے ‘مثلاً اگر کوئی صاحب ٹھوس دلائل سے یہ ثابت کر دیں کہ یہ لوگ واقعی فرشتہ صفت ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جون 1997ء کی بات ہے ‘ میں دوشنبے میں بطور سفیر رنگون گیا۔ اس سے پہلے میں دوشنبے میں ڈھائی سال فیملی کے بغیر گزار چکا تھا۔ دوشنبے میں ان دنوں کوئی انگلش میڈیم سکول نہیں تھا‘ یہ ڈھائی سال میرے اور فیملی کے لیے خاصے تکلیف دہ تھے۔ رنگون جانے سے پہلے صدر فاروق لغاری سے الوداعی ملاقات تھی۔ لغاری صاحب ان معدودے چند قائدین میں سے تھے جو باخبر رہتے ہیں اور پڑھنے لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میانمار کے علاوہ میں ویت نام میں غیر مقیم سفیر کے فرائض بھی سرانجام دوں گا تو مرحوم خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ویت نام میں شوگر ملیں ہیں اور وہ مشینری امپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا میں شوگر پلانٹ تیار ہوتے ہیں ‘کوشش کرنا کہ ویت نام پاکستان سے شوگر پلانٹ خریدے۔ 
میں نے رنگون میں اسناد سفارت پیش کرنے کے بعد ویت نام کی حکومت سے تحریری درخواست کی کہ میں جلد از جلد ہنوئی آنا چاہتا ہوں ۔ساتھ یہ بھی لکھ بھیجا کہ اسناد سفارت پیش کرنے کے علاوہ میں ہنوئی میں وزیر تجارت اور وزیر صنعت سے بھی ملنا چاہوں گا۔ اکتوبر 1997ء میں مجھے ہنوئی بلایا گیا ‘متوقع ملاقاتیں ہوئیں اور فاروق لغاری صاحب کی بات درست نکلی۔ ویت نام کے دونوں وزراء نے کہا کہ ہم واقعی شوگر پلانٹ امپورٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک سے شوگر مشینری خاصی مہنگی پڑتی ہے ‘ہم یقیناً پاکستان سے شوگر پلانٹ امپورٹ کرنا چاہیں گے بشرطیکہ قیمت اور کوالٹی کے بارے میں حکومت ویت نام مطمئن ہو جائے ۔یاد رہے کہ ویت نام میں اُن دنوں سوشلسٹ نظام معیشت تھا اور شوگر فیکٹریاں حکومت کے پاس تھیں؛چنانچہ طے پایا کہ ویت نام کا ایک سرکاری وفد پاکستان جا کر تمام معاملات کو سٹڈی کرے گا اور پھر کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا ۔میں نے رنگون واپس آتے ہی تفصیلی رپورٹ اسلام آباد بھیج دی۔ ہمارے ہاں ان دنوں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور وہ بھی ہیوی مینڈیٹ والی !ابھی رپورٹ بھیجے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مجھے سٹاف سے پتا چلا کہ لاہور سے ایک دو فون آئے ہیں اور وہ صاحب پوچھ رہے تھے کہ سنا ہے ویت نام کی حکومت کو شوگر پلانٹ درکار ہیں ۔میرا خیال فوراً اتفاق لاہور کی طرف گیا ‘لیکن اس کے بعد کوئی فون نہیں آیا اور نہ ہی میری کسی سے پاکستانی پرائیویٹ سیکٹر میں بات ہوئی۔ 
اس بات کو مشکل سے دو ڈھائی مہینے ہوئے تھے کہ وزارت خارجہ اسلام آباد سے فون آیا کہ آپ کی پوسٹنگ ہوگئی ہے اور وہ بھی ایسے ملک میں جس کی آبادی اسلام آباد سے کچھ کم ہی ہو گی۔ اس اندوہناک خبر کو جن صاحب نے مجھ تک پہنچایا وہ وزارت خارجہ کے سینئر افسر تھے‘ نہایت شائستہ انسان اور میرے دوست بھی۔ میں نے پوچھا کہ حضور مجھ سے کیا خطا سرزد ہو گئی؟ کہنے لگے تمہاری کوئی غلطی نہیں بلکہ وزارت خارجہ تمہاری کارکردگی سے خوش ہے ۔میں نے کہا کہ ابھی تو فیملی سیٹل ہوئی ہے‘ بچے رنگون کے سکولوں سے مطمئن ہیں اور جہاں آپ مجھے بھیج رہے ہیں وہاں کوئی خاص کام بھی نہیں‘ سنا ہے کہ سکول بھی واجبی سے ہیں ‘آپ مجھے اسلام آباد واپس بلا لیں ۔جواب ملا کہ جاوید حالات کی نزاکت کو سمجھو ‘جو صاحب تمہاری جگہ لے رہے ہیں وہ پرائیویٹ سیکٹر سے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی طور پر بہت پاور فل ہیں ‘تمہیں ہم کوئی بہتر سٹیشن دے دیں گے ‘بس تم رنگون سے چلنے کی تیاری کرو۔ گویا حکم حاکم مرگ مفاجات والی بات تھی۔
وزارت خارجہ نے اُسی روز بذریعہ ٹیلی گرام اس خبر کی تصدیق کر دی ۔میری جگہ عامر حفیظ بٹ لے رہے تھے جن کی سب سے بڑی کوالیفکیشن یہ تھی کہ وہ وزیراعظم کے ہم زلف تھے۔ میں اسلام آباد آ گیا ۔ایک روز فارن آفس میں بٹ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ خالص لاہوری کشمیری اور صحت مند۔ ہیلی کالج آف کامرس کے پڑھے ہوئے عام سے اکائونٹنٹ یعنی چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہونے کی تہمت بھی ان کے سر نہ تھی۔ بٹ صاحب نے پوچھا کہ رنگون میں کامیاب سفارت کاری کے لیے کوئی مشورہ دیں۔ ویت نام میں شوگر پلانٹ بیچنے کی انہوں نے بات ہی نہیں کی ‘گویا غضب کا تجاہل عارفانہ تھا ۔میں نے بٹ صاحب کو اپنے مختصر تجربے کی بنیاد پر چند باتیں بتائیں۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ لاہور میوزیم میں فاسٹنگ بُدھا کا مجسمہ ہے۔ ہمارے محکمہ سیاحت نے مجسمہ کی تصویر لے کر بڑے سائز کے پوسٹر بنوائے ہیں تاکہ سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کیا جائے ۔میں نے کہا کہ میانمار میں یہ پوسٹر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ‘میں نے اپنی سفارت کاری کے دوران ایسے کئی پوسٹر فریم کرا کے اہم شخصیات کو بھیجے ‘اس سے مجموعی تاثر بہت ہی مثبت رہا۔ پاکستان کی اچھی تشہیر بھی ہوئی اور کئی اہم شخصیات سے ابتدائی روابط بھی استوار ہوئے ۔بٹ صاحب خاموش رہے اور انہوں نے صرف کانوں کو ہاتھ لگائے اور بس عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے‘ میں نے بھی بات وہیں ختم کر دی۔ مجھے احساس ہو گیا کہ میرا مشورہ برمحل نہ تھا۔ بٹ صاحب تو بہت ہی دیندار اور پکے مسلمان ہیں۔ ساری فیملی کا مجموعی تاثر یہی ہے۔ 
مئی کے چوتھے ہفتے میں اسلام آباد آئے تو چاغی میں ایٹمی دھماکے ہو رہے تھے۔ ساتھ ہی فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کر دیئے گئے ۔باہر سفارت خانوں میں چونکہ تنخواہ اور الائونس ڈالروں میں ملتے ہیں ‘لہٰذا میرا بھی ڈالر اکائونٹ اسلام آباد میں تھا۔ 28 مئی کے پہلے اور بعد کی روپے کی قدر میں واضح فرق تھا۔ جن لوگوں کے اکائونٹ منجمد ہوئے انہیں خاصا نقصان ہوا ۔پورے ملک میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ ارباب اقتدار نے اپنے ڈالر دھماکوں سے پہلے بنکوں سے نکلوا لیے تھے۔ اس طرح انہیں خسارے کی بجائے نفع ہوا۔ میری تجویز ہے کہ یہ بات اور اس کی چھان بین بھی TORs میں ہونی چاہیے۔ آج کل سوشل میڈیا پر بہت کچھ آ رہا ہے۔ ایک صاحب جو انتہائی اہم عہدوں پر رہے ہیں‘ ان کا دعوی ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تمام معلومات نیب کے پاس موجود ہیں۔ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی ہے۔ میرے ایک پرانے بینکر دوست نے فیس بک پر لکھا ہوا ہے کہ دبئی کی گلف سٹیل بی سی سی آئی کی مقروض تھی اوراسی وجہ سے بیچنا پڑی۔ سوال بہت اٹھ رہے ہیں ‘قوم پریشان ہے۔ مولانا فضل الرحمن جمہوریت بچانے کے لیے لندن یاترا کر آئے ہیں ۔بیس کروڑ میں کوئی الرجل الرشید ہے جو عادلانہ احتساب شروع کرے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں