"JDC" (space) message & send to 7575

ایران ترکی روس مثلث

ایرانی آئین کا آرٹیکل نمبر146کہتا ہے کہ کسی بیرونی قوت کو ایران میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، خواہ یہ عسکری بیس پرامن مقاصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ پھر بھی روسی طیارے پچھلے چند روز سے نوجے شہید ایئربیس سے اڑ کر شام میں حکومت مخالف گروہوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ایرانی لیڈر توجیہہ یہ یہ دے رہے ہیں کہ روسی ایئر فورس کو کوئی ایئربیس مکمل طور پر نہیں دیا گیا صرف ایک بیس سے پرواز کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شام میں ایک عرصے سے حکومت مخالف فورسز حلب شہر کے کچھ حصوں اور اس کے گرد و نواح پر قابض ہیں۔ اب تک روس ایران اور دمشق کی حکومت قبضہ چھڑانے میں ناکام رہے ہیں۔ چلئے اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ایران نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا۔ سب سے بڑی وجہ تو حلب کی سٹریٹیجک لوکیشن ہے۔ حلب شام کا دوسرا بڑا شہر ہے اور ترکی جانے والی بڑی شاہراہ پر واقع ہے۔ داعش اور النصرہ فرنٹ اس شہر کے آس پاس موجود ہیں اور 2014ء سے موجود ہیں، ایک عرصے سے دمشق مخالف قوتیں ایرانی اور روسی عسکری طاقت کا منہ چڑا رہی ہیں۔
دوسری بڑی وجہ جو مجھے نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ شام میں امریکن پالیسی کنفیوژن کا شکار ہے۔ امریکہ کا ہدف اب صرف داعش تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ویسے بھی الیکشن کے سال میں امریکن خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑے فیصلے کم ہی ہوتے ہیں، لیکن امریکہ نے تو پچھلے سال ہی شام کی الجیش الحر(آزاد فوج) کو ٹریننگ دینے کا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔ دوسری طرف روس کی پالیسی بہت واضح ہے۔ روس اور ایران ہر صورت میں بشار الاسد کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جبکہ ترکی اور سعودی عرب بشار کی رخصتی کے متمنی ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف غیر واضح ہے لیکن اسرائیل کو شام میں ایرانی عسکری وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ پچھلے چند ماہ میں دیکھا گیا کہ ترکی، سعودی عرب اور اسرائیل سب ماسکو سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں تھے۔ تہران کے تعلقات ان تینوں ممالک سے اس وقت کشیدہ ہیں۔ ایران نے روس کو ایئربیس دے کر ان ممالک کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ تو کیا ایران اور روس کے تعلقات کی موجودہ گرمجوشی دائمی ہے۔ جی نہیں کیونکہ انٹرنیشنل حالات بدلتے رہتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات لیلیٰ مجنوں کی محبت والے اصولوں پر قائم نہیں ہوتے یہ ایک ایسا کھیل ہے جو ٹھنڈے دماغ سے ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر کھیلا جاتا ہے اور ملکی مفادات بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران روس تعلقات میں شک و شبہ اور گلے شکوے کئی مقامات پر نظر آتے ہیں۔ مثالیں بہت ہیں لیکن صرف ایک فی الحال کافی ہو گی ایران عراق جنگ میں سوویت یونین نے صدام حسین کا ساتھ دیا تھا۔
شام میں عجیب کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی عسکری طاقت کم از کم پانچ گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس تقسیم کا بشار الاسد کی حکومت نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ داعش کے بعد النصرہ فرنٹ شام میں حکومت مخالف ایک بڑا عسکری گروپ ہے ترکی اس عسکری گروپ کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ النصرہ فرنٹ نے القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر لیے ہیں۔ لہٰذا اسے دہشت گرد تنظیم تصور کرنا غلط ہو گا۔ ایران روس امریکہ اور شامی حکومت یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ دراصل ترکی سوریا (شام)کو اپنا پچھواڑہ تصور کرتا ہے۔ شام صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے۔ لہٰذا نفسیاتی طور پر ایران اور روس کا شام میں عسکری وجود ترکی کو خاصا برا لگتا ہے۔
اور اب آتے ہیں ترکی اور روس کے تعلقات کی جانب۔ پچھلے سال تک یہ تعلقات بہت اچھے تھے۔ باہمی تجارت زوروں پر تھی روس سے لاکھوں سیاح ترکی آتے تھے۔ مسائل تب بڑھنا شروع ہوئے جب روس نے اپنی افواج شام میں اتار دیں اور پھر نومبر میں ترکی نے روسی ایئرفورس کا طیارہ مار گرایا تو تعلقات میں صرف تنائو ہی نہیں بلکہ تلخی بھی پیدا ہو گئی۔ ترکی پر تجارت اور سیاحت کی پابندیاں لگائی گئیں۔ ادھر ترکی کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں بھی سرد مہری کا عنصر نظر آنے لگا۔ اب ترکی کو احساس ہوا کہ روس کے ساتھ معاملات نارمل کرنا از بس ضروری ہے۔ کوئی درماہ پہلے صدر اردوان نے روسی قیادت سے کہا کہ ہمیں نومبر والی شامی سرحد پر فضائی جھڑپ میں روسی پائلٹ کی موت پر بہت افسوس ہے۔ صدر پوٹن نے یہ معذرت فوراً قبول کر لی اور تجارتی تعلقات نارمل ہو گئے جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں، میڈیا پر پابندیاں لگیں، مغربی ممالک میں ترکی بہت زیادہ ہدف تنقید بنا لیکن روسی میڈیا خاموش رہا۔ صدر اردوان نے حال ہی میں روس کا دورہ کیا ہے۔ تمام معاملات بشمول شام زیربحث آئے لیکن مسئلہ شام کے حتمی حل پر واضح اختلافات نظر آئے، صدر اردوان کا کہنا تھا کہ جب تک بشار الاسد کی حکومت قائم ہے۔ شام دوبارہ متحد اور پرامن نہیں ہو سکتا جبکہ روسی قیادت کے خیالات سراسر مختلف ہیں۔
پچھلے دنوں کچھ ایسی خبریں بھی آئیں کہ ترکی نیٹو کو چھوڑنے پر غور کر رہا ہے اور یہ بات ترکی کے وزیر خارجہ کے ایک بیان سے شروع ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین میں ترک مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور ترکی نیٹو کو خیرباد کہنے کا سوچ سکتا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ ترکی نیٹو میں رہے گا۔ ترکی کی فوج نیٹو میں امریکہ کے بعد دوسری بڑی فوج ہے۔ ترکی نے شامی مہاجرین کے یورپ کی طرف سیلاب کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ دوسری طرف نیٹو میں ترکی کی موجودگی بین الاقوامی لیول پر اس کے قد کاٹھ کو بڑھاتی ہے۔ البتہ روس کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ نیٹو اور ترکی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔
ایران میں عسکری پروازوں کی سہولت حاصل کر کے اور ترکی سے تعلقات بہتر کر کے روس نے اپنی علاقائی پوزیشن مستحکم کی ہے۔ امریکہ کو واضح اشارہ دیا ہے کہ ترکی ایران اور شام ہمارے خطے کے ممالک ہیں۔ ایران سے پروازیں شروع کرنے سے پہلے روس نے امریکہ کو بہت ہی مختصر نوٹس دیا۔ روس بظاہر داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے لیکن اس کا اصل ہدف النصرہ فرنٹ الجیش الحر اور اسلامک فرنٹ ہیں۔ مؤخر الذکر فرنٹ کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے۔
امریکی طیارے ترکی کے ایئربیس سے اڑ کر داعش کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ امریکہ کردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور کرد خود مختاری کی طرف جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ترکی اس بات سے سخت نالاں ہے۔ عراق جو ایک زمانے میں ریجنل پاور تھا۔ آج کل غریب کی جورو ہے جو سب کی بھابی ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین، نیتن یاہو، صدر اوباما کو اتنے فون نہیں کرتے جتنے صدر پوٹن کو کر رہے ہیں۔ اس عالمی کشمکش میں شام مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ عرب دنیا سکتے کی حالت میں ہے اور اسرائیل کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں