"JDC" (space) message & send to 7575

بے یقینی

یقین محکم کا درس دینے والے قومی شاعر کے یوم پیدائش پر امسال قوم سخت کنفیوژن کا شکار تھی۔ دو صوبوں میں تعطیل کا اعلان ہوا مگر مرکز کی مسلم لیگی حکومت نے ضروری سمجھا کہ علامہ کی عمل پیہم والی نصیحت پر سختی سے عمل کیا جائے چنانچہ‘ وہ صوبہ جہاں علامہ کی ولادت ہوئی تھی بھی عمل پیہم میں مصروف رہا۔ مگر لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے ینگ ڈاکٹرز اس سوچ سے استثنیٰ حاصل کرتے ہوئے نظر آئے۔ کئی دنوں تک مال روڈ کا ایک حصہ بلاک رہا۔ وہ شہر جہاں علامہ نے محبت فاتح عالم کا درس دیا تھا وہاں مریض اپنے مسیحائوں کے انتظار میں تڑپتے رہے۔
دو تین ماہ پہلے سوشل میڈیا پر خبریں لگیں کہ لاہور میں بچوں کو منظم طریقے سے اغواء کیا جا رہا ہے۔ میں اُن دنوں لاہور گیا ڈیفنس میں اپنے بھائی کے گھر قیام کیا۔ وہاں میں نے نوٹ کیا کہ بھائی کا سات سالہ پوتا ایان سکول نہیں گیا۔ میں نے ایان سے سکول نہ جانے کا سبب دریافت کیا۔ ایان نے الٹا مجھ سے سوال کر دیا دادا ابو آپ کو نہیں پتہ کہ سکولوں سے بچے اغواء ہو رہے ہیں۔ مجھے اس سوال سے حیرانی ہوئی کہ ایان کا سکول بھی ڈیفنس میں ہے جو لاہور کا محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بس آپ سمجھ لیں کہ جو قوم افواہوں پر اس قدر یقین کرے کہ سکول ہی بند ہو جائیں وہ بے یقینی کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا سے یہ خبر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آئی۔ چائے کی پیالی میں بڑے طوفان اٹھائے گئے۔ ٹی وی اینکرز کے اذہان رسا دور دور کی کوڑیاں لائے‘ بعد میں پتہ چلا کہ بچوں کے اغواء ہونے کی افواہیں لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے پھیلائی گئیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ سب اُس نفسیاتی جنگ کا حصہ ہو جو پاکستان کے خلاف جاری ہے لیکن یہ کھوج لگانا بھی ضروری ہے کہ ہماری قوم میں اس قدر بے یقینی کی کیفیت کیسے پیدا ہو گئی۔
چند سال پہلے تک انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ 31 اگست ہوتی تھی۔ پھر تاریخ میں توسیع ہونے لگی اور توسیعات اس قدر ہوئیں کہ پچھلے سال کئی لوگ یہ فریضہ سال نو کی آمد تک ادا کرتے رہے۔ جو حکمران نت نئے ایس آر اوز جاری کر کے مال بناتے رہے ہوں وہ قوم کو فنانشل ڈسپلن کیا سکھائیں گے۔ بے یقینی اور کنفیوژن کے عملی مظاہرے ہم روزانہ سڑکوں پر دیکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں اصول ہے کہ گول چکر میں موجود کاروں کا رائٹ آف وے پہلے ہوتا ہے وہ رائونڈ ابائوٹ سے نکلنا چاہیں تو باہر سے آنے وای گاڑی انہیں نہیں روک سکتی۔ اس طرح گاڑیاں منظم طریقے سے رائونڈ سے باہر نکلتی ہیں اور داخل ہوتی ہیں کسی ڈرائیور کو دوسرے پر سبقت لینے کی جلدی نہیں ہوتی لیکن وطن عزیز میں رائونڈ ابائوٹ میں داخل ہونا اور پھر باہر نکلنا نہایت ہی مشکل مرحلے ہیں عجیب کنفیوژن ہوتی ہے کس کا رائٹ آف وے ہے کسی کو معلوم نہیں اور اگر معلوم بھی ہے تو کوئی اس قانون کو فالو نہیں کرتا نہ ہی ٹریفک پولیس لوگوں کی اس ضمن میں تربیت کرتی ہے تادیبی کارروائی تو دور کی بات ہے۔
یقین محکم اور ڈسپلن قوم اپنے لیڈروں سے سیکھتی ہے۔ روایت ہے کہ پاکستان بننے کے بعد قائداعظمؒ کراچی میں اپنی کار میں شہر کے مضافات کی طرف جا رہے تھے۔ ریلوے کراسنگ پر پھاٹک بند تھا۔ ڈرائیور گاڑی سے باہر نکلنے لگا تو قائد نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ڈرائیور نے جواب دیا کہ میں پھاٹک والے کو بتانے جا رہا ہوں کہ آپ کار میں تشریف فرما ہیں لہٰذا دو منٹ کے لیے پھاٹک کھول دے قائد نے ڈرائیور کو سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ وہ قانون کی پابندی کو افضل سمجھتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظمؒ کے بعد پاکستان کو ایک بھی وژن والا لیڈر نہیں ملا۔
ہمارے ہاں 1988ء سے 1996ء تک چار حکومتیں کرپشن کے الزام کی وجہ سے فارغ ہوئیں ان چار حکومتوں میں سے سب سے پہلے جس حکومت پر کرپشن کا بہتان لگا وہ محمد خان جونیجو مرحوم کی حکومت تھی۔ میرے خیال میں جونیجو صاحب پاکستان کے ایماندار ترین لیڈروں میں سے تھے۔ الزام لگانے والے صدر ضیاء الحق تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹی افتراء ہمارا قومی وتیرہ ہے تو پھر عوام کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہر وقت سچ بولتے رہیں اور ان لیڈروں کے جھوٹ پر جھوٹ قومی بے یقینی کا سبب بنتے ہیں۔ 
اگر گزشتہ حکومتوں پرکرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے تو کیا وہ سب غلط تھے‘ نہیں یہ بات بھی سو فیصد درست نہیں۔ وہ جس طرح ٹی وی کے اشتہار میں آتا ہے کہ جراثیم پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں لہذا نئے اور موثر صابن سے غسل ضروری ہو گیا ہے اسی طرح ہمارے لیڈر بھی اس قدر ہوشیار ہو گئے ہیں کہ سرے محل ہو یا سوئس اکائونٹ‘ مے فیئر اپارٹمنٹس ہوں یا پاناما اکائونٹس ان سب کو چھپانا اُن کو آ گیا ہے۔ عوام خراب شہرت والی بڑی سیاسی جماعتوں اور ضدی عمران خان کے بیچ میں معلق ہیں۔ شدید کنفیوژن ہے‘ سخت بے یقینی ہے۔ اس کا علاج احتساب کے موثر ادارے ہیں موجودہ نیب یا ایف آئی اے سے یہ کام نہیں ہو سکتا کہ دونوں کو حکمرانوں پر ہاتھ ڈالنے میں یا قانون مانع ہے یا کمزور قوت ارادی۔
اسلام آباد میں امسال یوم اقبال کی بڑی تقریب دس نومبر کو ہوئی سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ صاحب نے خود فون کر کے دعوت دی۔ ذوالفقار چیمہ ہماری بیورو کریسی کا درخشاں ستارہ رہے ہیں اور میری اُن سے پرانی یاد اللہ ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نوجوانوں کو دستی ہنر سے آراستہ کرنے والے ادارے کے ہیڈ ہیں۔ علامہ اقبال کونسل میں بھی فعال ہیں۔ فنکشن کا وقت ڈھائی بجے کا تھا لیکن صرف ایک گھنٹہ لیٹ شروع ہوا۔ مقررین جن کی تعداد درجن بھر تھی قسطوں میں آ رہے تھے۔ چیمہ صاحب نے اپنے ابتدائی کلمات میں بجا طور پر کہا کہ ہماری احسان فراموش‘ قوم اپنے محسن اپنے قومی شاعر کو بھلا بیٹھی ہے۔ 
جب علامہ اقبال اور قائداعظم نے پاکستان کے لیے کام شروع کیا تو برصغیر کے مسلمانوں میں بے یقینی کا عالم آج سے شدید تر تھا۔ دیوبند کے کئی عالم کانگریس کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ خاکسار تحریک اور احرار پاکستان کے نام سے چڑتے تھے۔ تعلیم اور تجارت میں ہندو مسلمانوں سے بہت آگے تھے۔ ان دو شخصیات نے اس قدر شدید اندھیرے میں اور تیز ہوا کے سامنے پاکستان کا چراغ روشن کیا۔ ان کا یقین غیر متزلزل تھا۔ آج اگر ہم نے موجودہ بے یقینی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں بہتر لیڈر سامنے لانا ہونگے۔ لی کوآن یو اور مہاتیر محمد جیسے لیڈر پیدا کرنا ہونگے‘ سیاسی جماعتوں سے موروثیت کا تصور بھگانا ہو گا‘ میرٹ کا بول بالا کرنا ہو گا۔ ووٹ کا استعمال دانش مندی سے کرنا ہو گا رول آف لاء کا نفاذ کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں