"JDC" (space) message & send to 7575

گمشدہ خوب ترکی تلاش

پاکستان ایٹمی طاقت ہے لیکن آج بھی ہم کار کے انجن امپورٹ کرتے ہیں۔ فریج اور فریزر کا ڈھانچہ بنا لیں تو کمپریسر باہر ہی سے منگواتے ہیں۔ خیر یہ تو کچھ پیچیدہ پراڈکٹ ہیں۔ پچھلے ہفتے میں نے انڈیا کے ٹماٹر خریدے، دو تین دکانداروں سے پاکستانی ٹماٹر طلب کیے لیکن سب کے پاس انڈین ہی تھے۔ شادیوں کا سیزن ہے، اسلام آباد کے بلیو ایریا میں سوٹ سلوانے گیا تو مجبوراً اٹالین کپڑا لینا پڑا۔ پاکستانی کپڑا لارنس پور کا بنا ہوا موجود ہے لیکن اٹالین سوٹنگ فیبرک کا مقابلہ نہیں کرتا۔ ایک زمانے میں پاکستانی سوٹنگ فیبرک شاندار ہوتا تھا۔ میری آفس ٹیبل پر رکھی ہوئی گوند کی سٹک جس پر UHU لکھا ہوا ہے جرمنی کی بنی ہوئی ہے۔ میرے سامنے پڑی ہوئی سکاچ ٹیپ تائیوان سے امپورٹ کی گئی ہے۔
ہماری برآمدات گر رہی ہیں۔ ٹیکسٹائل جو ہماری برآمدات کا ساٹھ فیصد حصہ ہے اور جہاں ہمیں لمبا تجربہ حاصل ہے، اس سیکٹر کی ایکسپورٹ پچھلے تین سال میں تقریباً دو ارب ڈالر گری ہے۔ بڑھتی برآمدات اقتصادی ترقی کو مہمیز لگاتی ہیں اور اگر ایکسپورٹس گرنے لگیں تو اقتصادی ترقی کا عمل بھی سست پڑنے لگتا ہے۔ ایک زمانے میں سیالکوٹ کے بنے ہوئے فٹ بال دنیا بھر کے میدانوں میں نظر آتے تھے۔ انٹرنیشنل فٹ بال مارکیٹ کا پچاس فیصد حصہ پاکستان کے پاس تھا، آج ہمارے فٹ بال کا گلوبل مارکیٹ میں شیئر دس فیصد رہ گیا ہے۔ دوسرے ممالک بھی اچھے فٹ بال بنانے لگے ہیں۔ ایکسپورٹ کے گرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کو بہت کم اہمیت دی 
جاتی ہے۔ ہمارے پراڈکٹ عصری تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں ہوتے، ترقی نہیں کر پاتے، تنوع کی شدید کمی ہے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان اپنی شاندار ترقی کی وجہ سے رول ماڈل بن گیا تھا۔ آج ترقی کے ماڈل بنگلہ دیش اور ویت نام ہیں، ان دونوں ممالک کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ بہت سارے پاکستانی صنعت کاروں نے بنگلہ دیش کی گارمنٹس کی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کی ہے۔ ہمارے پانچ سالہ منصوبوں سے استفادہ کرنے والا کوریا آج ہم سے کہیں آگے ہے۔ پاکستان میں ہر سڑک پر ڈائیوو Daewoo کی بسیں نظر آتی ہیں۔ کیا آپ کو علم ہے کہ آج کل پاکستان میں کونسا پانچ سالہ منصوبہ چل رہا ہے اور اس کے اہداف کیا ہیں۔ میں اقتصادیات کا طالب علم رہا ہوں، یہ مضمون میں نے کالج میں پڑھایا بھی ہے، لیکن یقین مانیے مجھے خود علم نہیں کہ آج کل کونسا اقتصادی پلان چل رہا ہے اور اس کے اہداف کیا ہیں۔ پلاننگ کمشن روبزوال ہے۔ اقتصادی فیصلے سیاست دان کرتے ہیں۔ پلاننگ کمشن کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پلاننگ کمشن میں آج کوئی ڈاکٹر محبوب الحق نہیں، کوئی معین قریشی نہیں، کوئی بھی اچھی مغربی یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں رکھتا اور ہمارے ہاں تعلیم اور تعلیمی اداروں کا جو معیار ہے اُسے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
زیادہ دور کی بات نہیں جب ہمیںخوب سے خوب ترکی تلاش رہتی تھی۔ ہم نے کئی تعلیمی اداروں میں Centres of excellence بنائے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں آبی وسائل پر ریسرچ ہوتی تھی، گورنمنٹ کالج لاہور میں فزکس کا سنٹر تھا۔ ریاضی کا سنٹر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تھا اور کیمسٹری کا غالباً کراچی یونیورسٹی میں۔ آج یہ تمام ادارے روبزوال ہیں، اس لئے کہ ریسرچ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ستر سال کے لمبے عرصے میں سائنسی علوم میں ہم صرف ایک سائنس دان ایسا پیدا کر سکے جو نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرا۔
پاکستانی قوم کی ذہانت کا اعتراف ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے۔ ہمارے گلی محلوں میں بڑے ہی ذہین بچے پھر رہے ہیں مگر ہم انہیں دریافت نہیں کر پاتے اور اگر دریافت کر بھی لیں تو ان کی صلاحیت کو جلا دینے والا ماحول فراہم نہیں کرتے۔ اسی سال جون کے مہینے میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے ایک ذہین پاکستانی لڑکے محمد عثمان خان اور ایک لڑکی زینب بی بی کو لیڈر شپ ایوارڈ ملے۔ عثمان نے غریب بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کام کیا ہے جبکہ زینب بی بی کا کام ماحولیات کے حوالے سے ہے اور اب برطانوی حکومت نے ہی کراچی کے ایک ذہین نوجوان کو انعام کے لئے چُنا ہے، جس کا نام سید فیضان حسین ہے۔ فیضان نے کمپیوٹر کا ایسا سوفٹ ویئر بنایا ہے جو وبائی امراض کے پھیلاؤ کے بارے میں بر وقت معلومات دیتا ہے۔ فیضان نے دو سو غریب بچوں کو کمپیوٹر پروگرامنگ بھی سکھائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے سات سمندر پار پاکستان کی گلیوں کے یہ گوہر دریافت کر لئے لیکن یہ کام ہماری اپنی حکومت نہ کر سکی۔ شاید ہمارے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ غریبوں کے بچے پڑھ لکھ گئے تو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی لیڈر شپ کو چیلنج کرنے لگیں گے۔
ہم نے PCSIR کی شکل میں کبھی ایک شاندار سائنسی اور انڈسٹریل ریسرچ کا ادارہ بنایا تھا لیکن اُسے اچھی طرح چلا نہیں سکے، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس ادارے کے ایکسپرٹ 2013ء کے الیکشن کے لئے مناسب سیاہی بھی نہ بنا سکے۔ ہم نے حطار میں بڑھی دھوم دھام سے انڈسٹریل ایریا بنایا مگر اس کے انفراسٹرکچر کو زوال سے نہ بچا سکے۔ سنا ہے فیصل آباد اور ٹنڈوجام میں زرعی ریسرچ ہو رہی ہے لیکن ٹنڈوجام کے زرعی ماہرین کسان کو یہ نہیں بتا سکے کہ انڈیا جیسا کیلا کیسے کاشت کرنا ہے۔ فیصل آباد کے زرعی ماہرین عام زمیندار کو یہ نہیں سمجھا پائے کہ نومبر دسمبر کے مہینے میں ٹماٹر کی فصل کیسے تیار کرنی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پشاور کے گرد و نواح کی خوبانی اور ناشپاتی دنیا میں مشہور تھیں۔ اب ناشپاتی بھی چائنا سے آرہی ہے۔ 
سرکاری سطح پر ترقی کو مہمیز لگانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اچھی پرفارمنس والے افسروں کو زیادہ تنخواہ کے ذریعے محنت اور نتائج کا صلہ ملے۔ لیکن یہ بات ہمارے کلچر کا حصہ ہی نہیں۔ پچھلے دنوں ارکان اسمبلی نے خود اپنی تنخواہیں 150فیصد بڑھالیں اور یہ تنخواہیں اُن ممبران کو بھی ملیں گی جو اسمبلی میں شاذ و نادر ہی آتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو گونگوں کی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔ گویا گدھے گھوڑے سب برابر ہیں۔
فیڈرل ہاؤسنگ فاؤنڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ملازمین کو عام گورنمنٹ سرونٹ سے دوگنا تنخواہ ملتی ہے۔ وہاں جا کر ذرا پتا لگائیں کہ ڈی جی صاحب کس شخصیت کے داماد ہیں۔ جھنگ سے تعلق رکھنے والے لوٹا صنعت وزیر نے کتنے بندے اپنے ضلع کے فاؤنڈیشن میں رکھوائے اور اب کتنے افسر ایسے ہیں جن کا وزیر باتدبیر کے ضلع یعنی بنوں سے تعلق ہے۔ جس ادارے میں سفارشی لوگ بھرتی ہوں اور جاتے ہی تنخواہ دو گنا ہو جائے، ایسے افسران کو پرفارمنس دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جس ملک میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت سے لے کر ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پر ڈی ایم جی افسران کی بادشاہت ہو وہاں سائنسی ریسرچ اور ٹریڈ پروموشن کے اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ ان دفتروں میں صرف سپیشلسٹ ہونے چاہئیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں