"JDC" (space) message & send to 7575

شام کا ممکنہ مستقبل

حلب کے شہر پر روس کی بمباری کے نتیجے میں شامی اپوزیشن کے جنگجو پسپائی پر مجبور ہو گئے۔ روس کا نہ صرف جنگ میں اہم رول رہا ہے بلکہ ممکنہ حل کے لیے بھی روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف مصروف نظر آئے۔ روس‘ ایران اور ترکی وزرائے خارجہ کے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا‘ جس کا لب لباب یہ ہے: تینوں ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت صدر بشارالاسد کو منصب سے ہٹانا اس قدر اہم نہیں جتنا دہشت گردوں کے خلاف لڑنا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جنگی محاذ پر کامیابی کے بعد روس سیاسی حل کی تلاش میں بھی آگے آگے ہے۔ ترکی کی پوزیشن میں واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ صدر بشارالاسد اور ان کا حامی ٹولہ فی الحال اقتدار میں رہیں گے‘ بلکہ مجھے لگ رہا ہے کہ اگلے دو تین سال ان کے اقتدار کو اب کوئی خطرہ نہیں۔ جس طرح افغانستان میں جنگ کے پاکستان پر نتائج مرتب ہوتے رہے ہیں اسی طرح ترکی پر شام میں لڑائی کے منفی اثرات واضح نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں انقرہ میں روسی سفیر کے قاتل نے بلند آواز سے کہا کہ ہم حلب کو نہیں بھولے۔
روس‘ ترکی اور ایران‘ یہ تینوں ممالک شام میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ ستمبر2013ء تک لگ رہا تھا کہ صدر بشارالاسد کچھ دیر کے مہمان ہیں‘ لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے۔ حلب پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا حکومتی دستوں کی بڑی کامیابی ہے۔ ترکی کے بارڈر کے پاس واقع حلب تاریخی اہمیت کا حامل بہت بڑا شہر ہے۔ تجارت کا مرکز ہونے کے علاوہ یہ شہر دمشق سے ترکی جانے والی اہم شاہراہ پر واقع ہے۔ اب دمشق حمص اور حلب‘ تینوں سٹریٹیجک شہر گورنمنٹ فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ حلب میں نصرۃ فرنٹ کو شکست ہوئی ہے۔ عراق میں داعش کمزور ہو رہی ہے لیکن اس نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے۔ لگ رہا ہے کہ شام میں لڑائی مکمل طور پر ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ ترکی کی پوزیشن میں تبدیلی شامی اپوزیشن کے دستوں پر یقیناً منفی اثرات مرتب کرے گی۔ ادھر سعودی عرب یمن میں الجھا ہوا ہے۔ اس ساری صورت حال سے بشارالاسد کی حکومت کو فائدہ ضرور ہوا ہے۔
مندرجہ بالا تینوں ممالک میں سے ایران شام میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ امریکہ اور اسرائیل‘ دونوں شام میں ایران کے وجود سے ناخوش ہیں۔ پچھلے دنوں جب حلب سے اپوزیشن کے جنگجوئوں کے پُرامن انخلا کی بات ہو رہی تھی تو ایران نے اس بات پر زور دیا کہ ساتھ ساتھ ایرانی فوجیوں کے پُرامن انخلا کی بھی بات کی جائ‘ے جو دیرالزور اور الرّقہ کے پاس داعش کے زیر کنٹرول علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ شام کے کسی بھی ممکنہ سیاسی حل میں ایران کا رول اہم ہو گا۔
صدر پوٹن اور نومنتخب امریکی صدر کے آپس کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں آنے کے بعد شام کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش تیز تر ہو جائیں گی‘ لیکن سارے پتے روس اور امریکہ کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ یہ دونوں بڑے ممالک اسرائیل کے نقطۂ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ داعش کے عروج کے بعد اسرائیل اب واضح طور پر سمجھتا ہے کہ بشارالاسد کو حکومت سے نکالنے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے ورنہ انتہا پسند شام پر قابض ہو سکتے ہیں۔
روس اور امریکہ اگر اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ بشارالاسد کو فی الحال شام کا صدر رہنے دیا جائے تو دیگر ممالک کا ردعمل کیا ہو گا؟ ایران اور اسرائیل کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ ہو گا بلکہ ایران کو خوشی ہو گی کیونکہ بشارالاسد حکومت کی ایران نے کھل کر مدد کی ہے۔ حزب کو زمین کے راستے کمک پہنچانے کے لیے ایران کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے شام؛ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری ڈیل میں ترکی کو کیا ملتا ہے۔ میرے خیال میں ترکی اس بات پر اصرار کرے گا کہ روس اور امریکہ‘ دونوں کردوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں‘ اور عین ممکن ہے کہ شام کے ممکنہ حل کی تلاش میں دونوں بڑی طاقتیں ترکی کی بات مان ہی لیں۔ امریکہ اور روس پر برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کا دبائو بھی ہو گا کہ شام کے مسئلہ کو جلد حل کیا جائے کیونکہ سوریا کی سول وار کے سب سے زیادہ منفی اثرات یورپ پر مرتب ہوئے ہیں۔ مہاجرین کے پرابلم کے علاوہ انتہا پسندی یورپ کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ 
شامی اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے میں سب سے اہم رول ترکی اور سعودی عرب کا ہو گا‘ اور یہ دونوں ممالک یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کسی طرح شام میں ایران اور حزب اللہ کا اثر و رسوخ کم کیا جائے۔ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے۔ مغربی ممالک کی بھی خواہش ہے کہ حزب اللہ کو کمزور کیا جائے اور اس کا واحد ذریعہ شام سے ایران کو فارغ کرنا ہے۔
لبنان میں سعدالحریری کی حکومت ہے‘ جو حزب اللہ اور بشارالاسد‘ دونوں کے خلاف ہے۔ سعدالحریری کو یقین ہے کہ دمشق حکومت کی ایجنسیوں اور حزب اللہ نے مل کر ان کے والد رفیق الحریری کو قتل کروایا تھا۔ سعدالحریری کے سعودی حکمران خاندان سے قریبی تعلقات ہیں۔ لبنانی دستور کے مطابق وزیر اعظم ہمیشہ سُنی ہوتا ہے‘ مسالک کے اختلاف کے پردے میں خطے کی دو بڑی طاقتیں اگلے پچھلے حساب برابر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ خلیجی ممالک کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں گے۔
شام کے ممکنہ حل کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ روس‘ ترکی‘ امریکہ (اور اسرائیل) اس بات پر متفق ہو جائیں گے کہ بشارالاسد حکومت فی الحال قائم رہے‘ اور شامی اپوزیشن کو بھی حکومت کو چند عہدے دیے جائیں‘ لیکن ایسے عہدے پانے کے حقدار صرف اعتدال پسند شامی حزب اختلاف کے لیڈر ہوں گے۔ داعش اور نصرۃ فرنٹ کو اقتدار کے پاس نہیں آنے دیا جائے گا۔
سول وار کے بعد حکومت اور اپوزیشن کو اقتدار میں اکٹھا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے‘ لیکن اس سے بھی مشکل مرحلہ شام سے ایرانی اور حزب اللہ کے سپاہیوں کا انخلا ہو گا۔ شامی اپوزیشن اس بات کا مطالبہ زور شور سے کرے گی۔ اس مطالبے کو سعودی عرب (اور اسرائیل) کی حمایت بھی حاصل ہو گی‘ لیکن ایران یہ مطالبہ ضرور کرے گا کہ ملکی استحکام کی خاطر حزب اللہ کے دستے شام میں موجود رہیں اور اس طرح شام میں حزب اللہ اور ایران کا وجود مذاکرات میں آخری اور سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور روس مل کر ایران کو شام سے انخلاف پر مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مستقبل قریب میں شام میں امن یا مزید جنگ کا انحصار اسی بات پر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں