"JDC" (space) message & send to 7575

ایک شاندار ادارے کا زوال

سفارت کاری کے شعبے میں وزیر اعظم نوازشریف، طارق فاطمی کی آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فاطمی صاحب اپنی ذہانت اور محنت سے اس مقام پر پہنچے ہیں‘ لیکن آج سے پندرہ بیس سال پہلے فارن آفس میں اس لیول کے کئی افسر تھے۔ مجھے 1980ء کی دہائی کا زمانہ یاد ہے، صدر جنرل ضیاء الحق باقاعدگی سے فارن آفس آتے تھے اور آغا شاہی اور پھر نیاز نائیک سے امور خارجہ کے پیچیدہ مسائل سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ افسروں کی سینئر کھیپ ریٹائر ہوئی تو شہریار خان‘ نجم الدین شیخ اور ڈاکٹر ہمایوں خان آ گئے‘ گویا ایک سے ایک اچھا افسر فارن سروس میں موجود تھا۔ لیٹرل انٹری والوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے والے بھی موجود تھے۔
اور اب فارن سروس کے اُن افسروں کا ذکر ہو جائے جو صاحب کتاب ہیں۔ جناب عبدالستار، اقبال اخوند‘ شاہد امین‘ کرامت اللہ غوری‘ جاوید حسین، نذر عباس اور ریاض محمد خان وہ افسر ہیں جو جید کتابیں لکھ چکے ہیں۔ سابق سفراء میں سے جناب شمشاد احمد خان‘ اشرف جہانگیر قاضی‘ منیر اکرم‘ افتخار مرشد اور سعید خالد باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے ہیں۔ ظفر ہلالی ٹی وی چینلز پر اپنی آراء دیتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی تحریروں سے عشروں کا تجربہ جھلکتا ہے۔ پڑھ کر لطف آ جاتا ہے۔ شاندار انگریزی زبان‘ وزنی استدلال‘ دانش مندانہ تجاویز‘ نپے تلے جملے‘ افکار کا تسلسل بتاتا ہے کہ لکھنے والا کوئی غیر معمولی شخص ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک زمانے میں فارن سروس کے مضبوط ستون تھے۔ میں فارن آفس جاتا رہتا ہوں، وہاں آج بھی اچھے افسر موجود ہیں لیکن تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔
تقریباً سات عشروں پر محیط ہماری تاریخ میں سیاسی استحکام ناپید رہا۔ دیگر اداروں کی طرح ہماری سیاسی قیادت بھی رُو بزوال ہے۔ وزیر اعظم خود اپنے ہی وزیر خارجہ بھی ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہ عہدہ اپنے پاس رکھا تھا۔ یہ دلیل دینے والے بھول جاتے ہیں کہ بھٹو صاحب امریکہ اور برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے۔ انہیں مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ خود وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ انگریزی زبان پر انہیں مکمل کمانڈ حاصل تھی۔ وہ امریکی صدر سے بات کرتے ہوئے جیب سے پرچیاں نہیں نکالتے تھے۔ 
ہمارے سویلین اداروں کا انحطاط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد ہمارے ہاں پاک فوج کرتی ہے۔ واپڈا نے میٹر ریڈنگ کے لیے 1999ء میں فوج کی مدد لی۔ اب مردم شماری بھی فوج کرائے گی۔ میں نے پورا ایک سال نیشنل ڈیفنس کالج میں فوجی افسروں کے ساتھ گزارا ہے اور پاک فوج کی صلاحیتوں کا معترف ہوں‘ لیکن میں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ فارن پالیسی بناتے وقت سب سے زیادہ اہمیت فارن آفس کی آراء کو ملنی چاہیے کہ اس ادارے میں ایسے افسر موجود ہیں جو عشروں تک ملکوں ملکوں پوسٹڈ رہے ہیں، وہ بین الاقوامی امور کی نزاکتوں سے خوب واقف ہیں۔
پچھلے دنوں سینیٹ میں نان کیریئر سفراء کے بارے میں سوال پوچھا گیا‘ ان میں سے چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔ شہزاد احمد قطر میں سفیر ہیں۔ اصل میں بینکر ہیں، ان کے والد کے وزیر اعظم کے خاندان سے مراسم بتائے جاتے ہیں۔ ان کے پیشرو حسن رضا چند ماہ قطر میں رہے پھر ان کا اچانک تبادلہ کر دیا گیا، اُس وقت ایل این جی ڈیل بھی ہو رہی تھی۔ میڈیا میں اس حوالے سے کئی سوال اٹھائے گئے۔ کامران شفیع کیوبا میں سفیر ہیں۔ موصوف ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے بہت قریب تھے۔ طارق عظیم خان کینیڈا میں ہائی کمشنر ہیں۔ وہ چند سال پہلے جنرل مشرف کی آنکھوں کا تارا تھے۔ نادر چوہدری مراکو میں سفیر ہیں، وزیر اعظم کی قربت کے علاوہ ان کی کسی کوالیفکیشن کا کسی کو کوئی علم نہیں۔ جاوید ملک بحرین میں سفیر ہیں، یہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب رہے ہیں۔ بوسنیا میں جنرل سلیم نواز اپنی مدت پوری کر رہے ہیں۔ کافی دیر سے افواہ گرم ہے کہ ان کی جگہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے عادل گیلانی جا رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ 2013ء کے بعد موصوف کو پاکستان کرپشن سے پاک نظر آیا۔ آپ ذرا غور کیجیے کہ کیسے کیسے لوگ میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے باہر مزے لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی بدلتی ہوا کے ساتھ رُخ تبدیل کرتے رہے ہیں۔ عوامی زبان میں یہ لوٹے ہیں، شاطر لوگ ہیں، حکمرانوں کو شیشے میں اتارنے کے گُر جانتے ہیں۔ اُن کے لیے فوجی حکمران، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سب برابر ہیں۔ ذرا سوچیے، یہ لوگ بیرون ملک پاکستان کا پرچم لیے پھر رہے ہیں، کیا یہ قوم کی انٹرنیشنل نمائندگی کے مستحق ہیں؟ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن میرے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے شاطر اور نالائق لوگوں کے ساتھ فارن سروس کے جو افسر پوسٹڈ ہیں ان کی ٹریننگ کیسی ہو رہی ہو گی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ ہمسایہ ملک انڈیا شاذ و نادر ہی نان کیرئیر سفیر باہر بھیجتا ہے۔
کسی بھی ادارے کی مستقبل کی پلاننگ کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے ٹریننگ کے شعبے کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ پاک فوج میں اچھے سے اچھے افسران کاکول اکیڈمی، سٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سربراہ لگائے جاتے ہیں۔ فارن سروس کے افسروں کا ٹریننگ کا ادارہ فارن سروس اکیڈمی ہے۔ اس ادارے کی سربراہی کو عرصے سے کھڈے لائن جاب سمجھا جاتا رہا ہے اور یہی سوچ آج بھی جاری و ساری ہے۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر یہ حقیقت ہے کہ تقریباً ایک سال سے اس ادارے کا کوئی ہمہ وقت سربراہ نہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری (ایڈمنسٹریشن) افتخار عزیز کے پاس دوہرا چارج ہے اور وہ اکیڈمی کے امور کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فارن آفس اپنے افسروں کی ٹریننگ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔
خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا باہمی تعلق وہی ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ سفارت کار وہ ٹیکنوکریٹ ہے جو خارجہ پالیسی کو عملی استعمال میں لاتا ہے۔ آج سفارت کاری ایک اختصاص بن چکی ہے۔ اقتصادی اور تجارتی ڈپلومیسی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ ملک کے امیج کو بہتر کرنے کے لیے پبلک ڈپلومیسی ایک خاصے کی چیز ہے۔ لیگل ڈپلومیسی کو ہمارے ہاں اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ انڈیا، بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم بناتا رہا اور ہم سوئے رہے ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
چلیں نوحہ گوئی تو کافی ہو گئی۔ اب یہ دیکھتے ہیں یہ صورتحال بہتر کیسے ہو سکتی ہے۔ فارن آفس کے اس وقت متعدد باس ہیں، لہٰذا چین آف کمانڈ میں کنفیوژن ہے۔ سروس کا مورال گرا ہوا ہے۔ ہمہ وقت وزیر خارجہ مقرر کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ فارن سروس کے افسروں کا چنائو سو فیصد میرٹ پر ہونا چاہیے، ہر افسر سی ایس ایس کا امتحان دے کر آئے۔ فارن سروس کو کوٹہ سسٹم سے استثنیٰ ملنا چاہیے۔ جو امیدوار فارن سروس میں آنے کے متمنی ہوں ان کا علیحدہ سے نفسیاتی ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ فارن سروس کو ذہین اور خوش مزاج افسروں کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ خاموش طبع اور مردم بیزار لوگوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔
فارن الائونس پر ہر سال نظرثانی ہونی چاہیے۔ اس طرح سے بچوں کا ایجوکیشن الائونس ہر ملک میں ملنا چاہیے۔ فارن سروس میں بیگمات کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ فارن سروس اکیڈمی کو چاہیے کہ بیگمات کے لیے محدود مدت کے ٹریننگ کورس ڈیزائن کرے۔ ہمارے سفارت خانوں کا سب سے بڑا کام بیرون ملک پاکستان کو مارکیٹ کرنا ہے تاکہ سرمایہ کار اور ٹورسٹ ہمارے ملک کی طرف راغب ہوں۔ میں نے یونان میں کیلاش قبیلے اور گندھارا تہذیب کے بارے میں سیمینار کرائے تھے۔ اسی طرح میرے زمانے میں دوشنبے میں ہمارے سفارت خانہ نے علامہ اقبالؔ کو تاجک عوام میں پاپولر کیا‘ فارسی کے کلیاتِ اقبالؔ کو روسی رسم الخط میں شائع کیا۔
فارن آفس کو ہر سال اپنے چار پانچ ہونہار جونیئر افسروں کو انٹرنیشنل لائ، ماحولیات اور بین الاقوامی تجارت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اچھی سے اچھی یونیورسٹیوں میں بھیجنا چاہیے۔ فارن سروس میں چینی‘ ہسپانوی‘ عربی اور فرنچ بولنے والے متعدد افسر ہونا ضروری ہیں۔ اس اہم اور حساس ادارے کی بحالی ہمارا قومی فریضہ ہے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں