"JDC" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورت حال

فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کی جڑ ہے 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں آنے والے تمام فوجی ڈکٹیٹر بشمول جمال عبدالناصر ‘حافظ الاسد ‘معمر قذافی اور صدام حسین سب فلسطین کی آزادی کا نعرہ لے کر آئے تھے لیکن آج صورت حال الٹ ہے ۔ اسرائیل کو اپنے تین ہمسایہ عرب ممالک سے خطرہ تھا۔ مشرق کی جانب عراق/ مغرب کی جانب شام اور جنوب مغرب میں واقع مصرہے۔ آج عراق اور شام دونوں تباہ حال ہیں۔ مصر کی حالت بھی نیمے دروں نیمے بروں والی ہے یعنی کہ متذبذب ہے۔ پاکستان کی طرح مصر کی دال روٹی بھی آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہی ہے۔ پچھلے ماہ سکیورٹی کونسل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم ہونے کے خلاف ریزولیوشن کی تیاری ہو رہی تھی۔ سپانسر کرنے والے ممالک میں مصر بھی شامل تھا اور پھر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل سیسی کو فون کیا‘ مصر پیچھے ہٹ گیا۔ ریزولیوشن کو سپانسر کرنے والے چار ممالک میں سے ایک بھی عرب ملک نہیں تھا۔ عرب دنیا آج بہت کمزور ہے۔
اسی ریزولیوشن پر رائے شماری ہوئی تو امریکہ نے کسی جانب ووٹ دینے سے انکار کیا۔ مجھے تو یوں لگا کہ صدر اوباما کا احساس گناہ بول رہا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق وہ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑتے نظر آئے۔ آج سے سات آٹھ سال پہلے قاہرہ میں کی گئی تقریر میں موصوف نے مسلمانوں اور عربوں سے کتنے وعدے کیے تھے اُن وعدوں میں سے وہ ایک بھی پورا نہ کر سکے۔ جاتے جاتے ریا کاری سے عربوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کی اور اب ٹرمپ کی آمد آمد ہے اور موصوف اسرائیل کے اس قدر حامی ہیں کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم شفٹ کرنا چاہتے ہیں۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک نشست ہوئی۔ موضوع مشرق وسطیٰ کی صورت حال تھی اور سوال جو شرکاء کے سامنے رکھا گیا وہ یہ تھا کہ علاقائی اور انٹرنیشنل حل میں سے کون سا زیادہ ممکن ہے۔بات شام کے مسئلے کے حل کی ہو رہی تھی میں نے کہا کہ دونوں طرح کے حل اس وقت بے حد مشکل ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ شام میں امن لانے کے لیے دیرپا حل کے لوازمات کیا ہیں۔ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مکمل جنگ بندی ہو اور تمام فریق بشمول داعش اور نصرت فرنٹ اس جنگ بندی کی سختی سے پابندی کریں۔ غیر ملکی افواج بشمول روس ایران اور حزب اللہ شام سے چلی جائیں۔ عبوری حکومت قائم ہو اور نئے الیکشن کرائے جائیں کیا یہ سب ممکن ہے۔ فی الحال یہ سب ناممکن ہے‘ کس عرب ملک میں ہمت ہے کہ روس اور ایران کی افواج کو شام سے نکالے۔ داعش والوں کی بیرونی دنیا حتیٰ کہ عرب دنیا میں کسی سے بات چیت ہی نہیں۔ ایران اور سعودی ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے۔ حلب میں فتح کے بعد بشار الاسد کی رعونت بڑھ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور پوٹن دونوں مل کر داعش کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ امریکہ نے بشار الاسد کے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ ترکی کی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ روس ترکی اور ایران شام کے مسئلے کے حل کے لیے ایک صفحے پر آ گئے ہیں۔ لیکن شام میں روس اور ایران حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ پچھلے دنوں طہران میں سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے جنازے کے دوران روس مخالف نعرے سُنے گئے۔ ایران میں حکومت کی رضا کے خلاف کُچھ نہیں ہوتا۔ چند ہفتے پہلے جب حلب مکمل طور پر شامی حکومت کے کنٹرول میں آ گیا تو خلیجی ممالک نے امریکہ کو کہا کہ مشرق وسطیٰ میں روس کی چودھراہٹ بڑھ رہی ہے جو اچھی بات نہیں امریکہ کا جواب دلچسپ تھا اور وہ یہ تھا کہ شام میں روس کا فوجی وجود ایران کو وہاں کُھل کھیلنے کا موقع نہیں دے گا لہٰذا خلیجی ممالک کو پریشانی کی چنداں ضرورت نہیں۔
چند ہفتے پہلے ایک ٹی وی چینل پر یہ رائے دی گئی کہ شام میں امریکہ کو الجھا کر بشار الاسد نے پاکستان کو بچا لیا ہے ورنہ ہماری باری بھی آ جاتی مجھے اس رائے سے قطعی اتفاق نہیں۔ شام اور پاکستان کے معروضی حالات بہت مختلف ہیں۔شام میں امریکی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل پاکستان سے خاصا دور واقع ہے۔ پاکستان کی آبادی شام سے چھ گنا ہے اور اس کے پاس ایٹمی اثاثے بھی ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ امریکہ پاکستان میں مداخلت پر تُلا ہوا تھا۔ قرین قیاس نہیں۔
انتخابی مہم میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ کئے گئے نیو کلیئر معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ روس اور خلیجی ممالک امریکہ اور ایران کے تعلقات میں بہتری سے خائف نظر آ رہے تھے۔ ماسکو کو خطرہ لاحق تھا کہ امریکہ سے دوستی کے بعد اپنے خطے میں ایران کی طاقت مزید بڑھ جائے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اوول آفس میں آ کر کیا کرتے ہیں لیکن عام خیال یہ ہے کہ امریکہ اسٹیبلشمنٹ ایران کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کرنے کی پوری مخالفت کرے گی کیونکہ اس سے امریکہ کے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی برا اثر پڑے گا۔ البتہ اگر صدر ٹرمپ اپنی بات پر بضد رہتے ہیں تو ایران اور روس کی قربتیں بڑھ جائیں گی۔
خلیجی ممالک شام میں روسی رول کو ناپسند ضرور کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی بعض خلیجی لیڈر یہ کہتے ہوئے بھی سُنے گئے ہیں کہ صدر پوٹن مرد میدان ہیں۔ روس نے اپنے حلیف بشار الاسد کا کھل کر ساتھ دیا ہے جبکہ امریکہ نے شامی اپوزیشن کی حمائت نیم دلی سے کی۔ مڈل ایسٹ کے کئی مبصرین امریکہ اور ایران کو اپنے خطّے کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں انہیں یقین ہے کہ امریکہ عرب ممالک کو کمزور کرنا چاہتا ہے عرب دنیا کا نقشہ تبدیل کر کے چھوٹے چھوٹے ملک بنانا چاہتا ہے جو اسرائیل کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ 
اسلام آباد میں ہونے والے ایک سیمینار میں مشہور عربی چینل کے نمائندے نے کہا کہ ایران اپنی ڈھائی ہزار سال پرانی ایمپائر مڈل ایسٹ میں دوبارہ بنانا چاہتا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے عرب بھائیوں کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اپنی تباہی میں خود ان کا اور ان کے حکمرانوں کا بھی حصہ ہے۔اب امریکہ اور ایران نے تو عرب حکمرانوں کو اس بات سے نہیں روکا کہ وہ سیاسی اور اقتصادی اصلاحات لائیں اپنے ممالک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیں۔ اسلحے کی خرید پر رقوم ضائع کرنے کی بجائے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں۔ اپنی اقلیتوں کو ان کے حقوق دیں مڈل ایسٹ کے حالات کس طرف جاتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ کیا پوٹن اور ٹرمپ کی دوستی دائمی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں میں مخاصمت ہونے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ دونوں تندو تیز مزاج رکھتے ہیں کیا ایران اور ترکی مڈل ایسٹ کے حوالے سے دیر تک ہم خیال رہ پائیں گے یہ کہنا بھی مشکل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں