"JDC" (space) message & send to 7575

انڈیا،پاکستان اور بنگلہ دیش کنفیڈریشن ؟

انڈین سیاست دان دانشور اور ریسرچ گرو سدھیندر کلکرنی بہت دلچسپ انسان ہیں ایک عرصے تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سرگرم رکن رہے۔1996ء میں ان پر آشکار ہوا کہ سوشلسٹ نظریہ انڈیا میں بلکہ دنیا میں کسی جگہ نہیں چل سکتا۔ 1992ء تک سوویت یونین کے حصے بخرے ہو چکے تھے۔ سوشلسٹ نظام اپنی جنم بھومی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا بہت سارے سرخے پینترے بدل رہے تھے۔ لیکن کلکرنی صاحب نے بہت ہی بڑا سیاسی جمپ لگایا اور بی جے پی میں شامل ہو گئے کئی سال تک وزیر اعظم واجپائی کی تقریریں لکھتے رہے۔ واجپائی 1998ء میں امرتسر سے بذریعہ بس لاہور آئے تو کلکرنی ساتھ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے جب خورشید محمود قصوری اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے ممبئی گئے تو کلکرنی تقریب میں پیش پیش تھے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) والوں نے تقریب کے دوران ان کے منہ پر سیاہی مل دی لیکن تقریب جاری رہی۔ کلکرنی صاحب کی ریٹنگ پاکستان میں خاصی بڑھ گئی اب وہ بی جے پی بھی چھوڑ چکے ہیں، ان دنوں وہ آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے صدر ہیں۔
پچھلے دنوں کلکرنی کراچی لٹریری فیسٹیول کے سلسلہ میں پاکستان آئے۔ خورشید قصوری نے احسان چکانے کے لیے لاہور میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ پلڈاٹ نے اسلام آباد ایک نشست کرائی ان دونوں تقاریب میں کلکرنی نے اپنی تازہ ترین کتابAgust Voicesکا کئی مرتبہ ذکر کیا۔ وہ دو قومی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ان کے خیال میں برصغیر کی تقسیم ایک غلطی تھی وہ تین شخصیات کو اس ''غلطی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ایک لارڈ مائونٹ بیٹن دوسرے جواہر لال نہرو اور تیسرے محمد علی جناح کو۔ کلکرنی کنفیڈریشن کے آئیڈیا کا کئی مرتبہ پرچار کیا لیکن پاکستان میں اس بے معنی راگنی کو سننے والے اب بہت کم ہیں۔
میں اسلام آباد والی تقریب میں مدعو تھا موضوع تھا کہ انڈو پاک امن عمل کو آگے کیسے بڑھایا جائے۔ کلکرنی صاحب کے علاوہ سینیٹر مشاہد حسین سید سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر اور ٹی وی اینکر سلیم صافی بھی موضوع پر بولے۔ اپنی تقریر سے پہلے کلکرنی صاحب نے ایک ڈاکیومنٹری دکھائی جس کا عنوان تھا ''کچھ نیا کریں‘‘ اس میں1947ء کی قتل و غارت کے بھیانک سین تھے اور پیغام تھے کہ وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو بھلا کر امن طرف بڑھیں ۔ مذاکرات شروع کریں اور بالآخر بات انڈیا پاکستان بنگلہ دیش کنفیڈریشن تک لے کر جائیں۔فیڈریشن صوبے مل کر بناتے ہیں جبکہ آزاد ریاستیں اپنی آزادی کو کسی حد تک برقرار رکھ کر اور برابری کی بنیاد پر کنفیڈریشن بنا سکتی ہیں مثلاً 1861میں سوئٹزر لینڈ کی کنفیڈریشن بنی جو بعد میں فیڈریشن کی شکل اختیار کر گئی۔ مسٹر کلکرنی کا کہنا ہے کہ کنفیڈریشن بنانے سے غربت میں کمی آئے گی اورکشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
میں نے مسٹر کلکرنی کی کتاب کے کچھ حصے دیکھے ہیں۔میرا شروع سے خیال رہا ہے کہ ایک اچھے ریسرچ سکالر بلکہ کالم نگار کو کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلے چند سالوں میں کئی دوستوں نے کہا کہ آپ ووٹ تحریک انصاف کو دیتے ہیں تو تحریک میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف جوائن کرنے سے میری تحریریں پارٹی منشور کے تابع ہو جائیں گی اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہوں گا۔ کلکرنی صاحب سیاسی آدمی ہیں اور ان کی تحریروں سے کبھی کمیونسٹ سوچ اور کبھی بی جے پی کی لائن نظر آتی ہے۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ جواہر لعل نہرو لارڈ مائونٹ بیٹن اور جناح صاحب تقسیم ہند کے ذمہ دار ہیں سراسر غلط ہے۔ تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ مائونٹ بیٹن نے 1997ء میں دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ میںنے برصغیر کو متحد رکھنے کے لیے آخری حد تک کوشش کی مگر ناکامی ہوئی اسی طرح قائد اعظمؒ تو 1946ء تک کیبنٹ مشن پلان کے تحت متحد انڈیا میں رہنے کو تیار تھے بشرطیکہ صوبوں کو اٹامی دی جاتی یہ بات تو اب کئی انڈین بھی مانتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم سردار پٹیل کی ہٹ دھرمی اور ضد کا نتیجہ تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسٹر کلکرنی بے لاگ ریسرچ کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لیے صحیح نتائج تک نہیں پہنچ پاتے۔
اور اب آتے ہیں موضوع کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ کیاواقعی مستقبل قریب میں برصغیر کے تین ممالک کنفیڈریشن بنا سکتے ہیں میرا جواب نفی میں ہے انڈیا پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کبھی بھی اتنے خراب نہ تھے جتنے آج ہیں۔ کنفیڈریشن بنانے سے پہلے ملکوں میں گہری دوستی ضروری ہے انڈیا اور پاکستان کے مابین دوستی کی کوششں اگر آج شروع کر دی جائیں۔ تب بھی اعتماد سازی میں کئی عشرے لگیں گے۔ 
انڈیا میں کئی پالیسی ساز ادارے اور رائے عامہ کے لیڈر دو قومی نظریہ کو دل سے تسلیم نہیں کرتے جبکہ برصغیر میں اسلامی تشخص ایک حقیقت ہے بصورت دیگر 1971میں بنگلہ دیش آزاد ملک بننے کی بجائے متحد انڈیا یا گریٹر بنگال کا حصہ بن جاتا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
یہ کشمیریوں کا علیحدہ مسلم تشخص ہی ہے جو کبھی مقبول بٹ کبھی افضل گرو اورکبھی برہان وانی پیدا کرتا ہے دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس ہے کنفیڈریشن کا سوچنے سے پہلے انڈیا کو پاکستان کے وجود کو صدق دل سے تسلیم کرنا ہو گا مجھے مستقبل قریب میں ایسا ہونا ناممکن سا لگتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مسٹر کلکرنی تانگے کو گھوڑے پیچھے جوتنے کی بجائے آگے جوت رہے ہیں پہلے کنفیڈریشن کے حالات تو پیدا کئے جائیں پھر بات کی جائے انڈیا تو فی الحال پاکستان سے مذاکرات ہی نہیں کرنا چاہتا حالانکہ 2007ء میں دونوں ملکوں نے وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردی کے کسی واقعے کو مذاکرات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پاکستان میں کئی مبصرین کہتے ہیں کہ کنفیڈریشن کا آئیڈیا دراصل اکھنڈ بھارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے کوئی بھی خود مختار ریاست اپنی خود مختاری آسانی سے سرنڈر نہیں کرتی اور پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیشی حکومتی انڈیا کی حاشیہ بردار ہے لیکن مسٹر کلکرنی کے آئیڈیا کو بنگلہ دیش میں بھی پذیرائی نہیں ملی۔ 
میں نے مسٹر کلکرنی کو کہا کہ کچھ نیا کرنے کی بجائے کچھ پرانے مسائل جو آسانی سے حل ہو سکتے ہیں وہ نپٹا لیں پورا ماحول بدل جائے گا میری پہلی تجویز یہ تھی کہ انڈیا ہمارے ملک میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ نہ بھیجے۔ سر کریک کا مسئلہ چند روز میں حل ہو سکتا ہے۔ سیاچن کا مسئلہ حل کرنا بھی مشکل نہیں۔ پہلے ان مسئلوں کو حل کریں اس سے باہمی اعتماد بڑھے گا پھر انڈیا کو سی پیک کا حصہ بنانے کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔ بڑے مسئلوں کو حل کرنے سے پہلے چھوٹے ایشوز کو سیٹل کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں