"JDC" (space) message & send to 7575

حسین حقانی کا دھماکہ

امریکہ میں ہمارے سابق سفیر حسین حقانی بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں جمعیت اسلامی طلبہ سے منسلک رہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پہلی حکومت میں انہیں فیڈرل سیکرٹری بنایا اور پھر سری لنکا میں سفیر۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں امریکہ میں سفیر مقرر کیا۔ موصوف بی اے پاس ہیں اور آج کل امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ میمو گیٹ کیس میں انہیں پاکستان بلایا گیا۔ ان پر اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد کمپائونڈ پر امریکی حملے کے بعد امریکی جنرل مائک مولن Mike Mullen کو خط لکھنے کا الزام تھا‘ جس میں امریکی حکام سے استدعا کی گئی تھی کہ پاکستان کو ممکنہ فوجی انقلاب سے بچایا جائے۔ موصوف کو سفارتی عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ دوران سماعت وہ سپریم کورٹ کو بھی جُل دے گئے۔ وعدہ کیا کہ خرابیء صحت کی بنا پر امریکہ جا رہا ہوں‘ جب آپ بلائیں گے بندہ حاضر ہو گا۔ اور آج تک سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود واپس نہیں آئے۔
حسین حقانی کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ امریکی حکام کو اسامہ بن لادن تک رسائی دینے میں موصوف کا کلیدی رول تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس سارے عمل میں انہیں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شیری رحمن نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ شیری رحمن حسین حقانی کی جگہ واشنگٹن میں سفیر مقرر ہوئی تھیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے کالم میں حسین حقانی نے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے انہوں نے بطور سفیر سی آئی اے کے لوگوں کو فراخدلی سے پاکستان کے ویزے دیے۔ شیری رحمن نے اپنی تردید میں کہا ہے کہ میں بھی امریکہ میں سفیر رہی ہوں مجھے تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے کبھی کسی مشکوک شخص کو ویزہ دینے کا نہیں کہا‘ لیکن محترمہ جس وقت سفیر مقرر ہوئیں تب تک اسامہ بن لادن قصّہ ختم ہو چکا تھا‘ اب سی آئی اے‘ بلیک واٹر والوں کو بلانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ 
کوئی دو سال پہلے کی بات ہے شاہد جاوید برکی نے کہا تھا کہ حسین حقانی انڈین لابی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ برکی صاحب واشنگٹن میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں میرے ایک قریبی دوست واشنگٹن سے آئے۔ موصوف پڑھے لکھے ذہین اور باخبر شخص ہیں اور امریکہ کے مقتدر حلقوں میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں کہ مستقل قیام وہیں ہے‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ بڑے محب وطن پاکستانی بھی ہیں۔ پچھلے مہینے وہ اسلام آباد آئے تو کہنے لگے کہ یہ شخص ننگِ وطن ہے‘ امریکہ میں بیٹھ کر انڈین لہجے میں بات کرتا ہے‘ پاکستان کے خلاف بولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ شیری رحمن نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ حقانی امریکہ میں رہتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ تازہ ترین دعویٰ انہوں نے کسی دبائو میں کیا ہو۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ یہ شخص‘ جسے پاکستان نے اس قدر عزت دی‘ اپنے ہی وطن کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔
عین ممکن ہے کہ حسین حقانی یہ کہیں کہ میں پاکستان کے خلاف نہیں‘ میں تو صرف سویلین بالادستی کے حق میں ہوں۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ یہ شخص ہر قیمت پر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے کیری لوگر بل میں جو ہتک آمیز شرائط رکھی گئی تھیں‘ عین ممکن ہے کہ اُس میں موصوف کا ہاتھ ہو کیونکہ اُس وقت وہ عہدۂ سفارت پر براجمان تھا۔ میمو گیٹ میں سپریم کورٹ کو یقین ہو چلا تھا کہ جنرل مائک مولن کو مداخلت کی درخواست دراصل حسین حقانی کے ایما پر کی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ حسین حقانی اپنی سفارت کے دنوں میں فارن آفس کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھا قصر صدارت پہنچتا۔ اس کی بیوی فرح ناز اصفہانی قصرِ صدارت کی ترجمان تھی اور ایم این اے بھی۔ وہ تو بھلا ہو امریکہ کی وزارتِ خارجہ کا جس نے ان کے امریکی شہری ہونے کا بھانڈا پھوڑ دیا‘ اور فرح ناز کو نیشنل اسمبلی کی ممبرشپ سے دستبردار ہونا پڑا۔
اور اب آتے ہیں اسامہ بن لادن اور ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کی طرف۔ یہی لگتا ہے کہ اسامہ بن لادن مع اہل و عیال دس سال تک پاکستان رہا۔ ایک جگہ نہیں بلکہ دو تین جگہ رہا۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو اس کی موجودگی کا علم کیوں نہ ہوا؟ کیا یہ بات جان بوجھ کر دنیا سے اور پاکستانی عوام سے چھپائی گئی؟ حکومت نے ایبٹ آباد میں مقیم اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر امریکی حملے کے فوراً بعد ایک انکوائری کمشن تشکیل دیا۔ کمشن کو کہا گیا کہ وہ ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے حقائق کا کھوج لگائے اور ساتھ ہی اس بات کی نشان دہی کرے کہ ہمارے اداروں سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے یا نہیں اور اگرکوتاہی ہوئی ہو تو آئندہ اس کے تدارک کے لیے تجاویز بھی دے۔
ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال اس کمشن کے سربراہ تھے۔ سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی ممبر تھے۔ قاضی صاحب کو میں گزشتہ چالیس سال سے جانتا ہوں اور ان کی دیانت‘ ذہانت اور حب الوطنی کا معتقد ہوں۔ لمبی سرکاری ملازمت اکثر بہت سے افسروں کو مصلحت پسند بنا دیتی ہے مگر قاضی صاحب نڈر اور بے باک ہیں‘ وہ زہر ہلاہل کو قند کبھی نہیں کہتے۔ اشرف قاضی نے کمشن کی رپورٹ پر اختلافی نوٹ لکھا‘ جو پاکستانی میڈیا تک الجزیرہ کے ذریعہ پہنچا۔ شنید ہے کہ کمشن کی رپورٹ عمومی طور پر گول مول تھی جبکہ اشرف قاضی اس بات پر مصر تھے کہ ذمہ داری کا تعین ضروری ہے۔ قاضی صاحب خود اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کرتے‘ لیکن سمجھنے والے اشاروں کو سمجھ جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ کمشن کو بتایا گیا ایبٹ آباد کا شہر ملٹری کے کنٹرول میں نہیں۔ اس بات کا تعین کرنا کہ کون کہاں رہتا ہے‘ میونسپل کمیٹی کا کام ہے۔ تحصیلدار یا ڈپٹی کمشنر کے پاس ایسی معلومات ہوتی ہیں۔ اشرف قاضی اس بات پر مصر تھے کہ سویلین افسروں کو بلا کر ان کا موقف سنا جائے۔ جب ان افسروں کو کمیشن کے سامنے بیان دینے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے صاف کہا کہ اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ اسی بنا پر قاضی صاحب نے ڈٹ کر اختلافی نوٹ لکھا جو منظر عام پر آنا چاہیے۔
حسین حقانی نے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو ویزے دے کر پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا۔ اس لحاظ سے اس کا جرم شکیل آفریدی کے جرم سے بدتر ہے۔ لیکن اسامہ بن لادن کو دس سال تک پاکستان میں رکھنا بھی غلط فیصلہ تھا۔ اسی وجہ سے امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیاں آج پاکستان مخالف ہیں‘ اور انڈیا کے راگ الاپ رہی ہیں۔ میں زرداری صاحب کی جگہ صدر اور یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیر اعظم ہوتا تو فوجی قیادت کو فوراً اعتماد میں لیتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستانی حکومت خود اسامہ بن لادن کو گرفتار کرتی‘ اور آج دنیا میں ہمارا امیج کچھ اور ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں