"JDC" (space) message & send to 7575

روس‘ ایران کی بڑھتی قربتیں

روس اور ایران دونوں ہمارے لیے اہم ممالک ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں ہمارے خطے کے ممالک ہیں۔ دونوں افغانستان کے معاملے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں قرائن بتا رہے ہیں کہ ہماری آئندہ فارن پالیسی میں ان دونوں ملکوں کی اہمیت بڑھے گی ،روس سنٹرل ایشیا میں اب تک واضح اثر و رسوخ رکھتا ہے اور سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد ہماری سنٹرل ایشیا سے تجارت بڑھے گی۔ اقتصادی اور انرجی تعاون کے شعبے مزید ترقی کے امکانات رکھتے ہیں۔ دفاع کے میدان میں تعاون کی پیش رفت نظر آ رہی ہے ایران سے ہمارے تاریخی ثقافتی اور مذہبی روابط بھی خاصے مضبوط ہیں۔
صدر حسن روحانی اور پوٹن کی ملاقات 28مارچ کو ماسکو میں ہوئی۔ اس وقت دونوں ممالک شام میں ایک دوسرے کے حلیف ہیں اگر یہ کہا جائے کہ دونوں نے مل کر صدر بشار الاسد کی حکومت کی ڈوبتی نیّا بچائی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ روس ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے کا بڑا حامی ہے اور چاہتا ہے کہ یہ عالمی معاہدہ بہرصورت قائم رہے جبکہ امریکہ کے نئے صدر اس معاہدے کے مخالف رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ شروع شروع میں صدر پوٹن اور صدر ٹرمپ کے مابین خاصی گرمجوشی نظر آئی تھی جو اب مدھم پڑ رہی ہے۔ صدر اوباما کے دنوں میں ماسکو کا خیال تھا کہ بڑھتی ہوئی ایران امریکہ دوستی طہران کو روس سے دور کر دے گی اور اب حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد طہران اورماسکو قریب تر ہو گئے ہیں۔
کیا روس ایران دوستی ابدی ہے ؟یہ کہنا بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کی نفی ہو گاکہ یہاں اصل فیکٹر ملکی مفاد ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل افیئرز میں کوئی جذباتیت نہیں ہوتی اور اگر نظریاتی جذباتیت ہو بھی جائے تو زیادہ دیرپا نہیں ہوتی اس کا سب سے بڑا ثبوت اور مثال سرد جنگ میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ممالک کے تعلقات ہیں۔ماضی میں کئی مرتبہ روس اور ایران کے تعلقات میں بھی تلخیاں نظر آتی رہی ہیں۔
اس وقت دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ ہدف صدر بشار الاسد کی حکومت کو بچانا ہے اور اس مقصد میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ شام میں جنگ رکنے کے چانسز فی الحال نظر نہیں آ رہے لہٰذا روس اور ایران وہاں موجود رہیں گے لیکن اس تعاون میں بھی ایک طرح کی مسابقت نظر آ رہی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں شام کے حوالے سے روس اور ترکی کا تعاون بڑھا ہے اور ایران کو یہ بات ایک آنکھ نہیںبھائی۔ ترکی اور ایران دونوں شام کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنا چاہتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خواہش کی تکمیل میں دونوں ماسکو کے دست نگر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشرق وسطیٰ میں روس کی اہمیت خاصی بڑھ گئی ہے تو غلط نہ ہو گا۔
روس اور ایران کے صدور کی ملاقات کے اختتام پر کہا گیا کہ دونوں ممالک اپنے اوپر عائد یک طرفہ پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں اشارہ واضح طور پر امریکی اقتصادی پابندیوں کی طرف تھا۔ اختتامی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کی مخالفت جاری رہے گی۔ عراق اور افغانستان میں امریکی دلچسپی کم ہو رہی ہے اور قدرتی طور پر ان دونوں ممالک کی دلچسپی بڑھ رہی ہے قانون قدرت ہے کہ خلا کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔
روس اور ایران دونوں کی خواہش ہے کہ تیل کی قیمت میں اضافہ ہو۔ دونوں ممالک تیل کے بڑے برآمد کنندگان میں شامل ہیں لیکن تیل کی فی بیرل قیمت میں اضافہ بھی فی الحال دشوار نظر آتا ہے ۔ اس وقت فی بیرل قیمت پچاس ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں تیل کی بین الاقوامی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل کے آس پاس ہی رہے گی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ روس اور ایران قیمت میں اضافے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اپنی پروڈکشن کو کم نہیں کرنا چاہتے۔ اس سلسلہ میں اوپیک بھی کسی واضح لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکی۔ پھرروس اور امریکہ دونوں اوپیک سے باہر ہیں اور یہ دونوں اب تیل کی خاطر خواہ مقدار پیدا کرتے ہیں بلکہ امریکہ تو شیلShaleتیل کی دریافت کے بعد مشرق وسطیٰ کے تیل پر صرف اسی صورت میں انحصار کرتا ہے جب قیمت گری ہوئی ہو اور اگر قیمت میںاضافہ ہو جائے تو امریکہ کی اپنی پروڈکشن اتنی بڑھ سکتی ہے کہ عالمی قیمت کو پھر سے نیچے لے آئے۔
قرائن یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ایران کے متعلق صدر پوٹن کے رویے میں کچھ لچک آئی ہے اب وہ ایرانی ایٹمی معاہدے کے بارے میں زیادہ سخت رویہ ترک کرتے نظرآ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکہ پر یورپی اور روسی دبائو بھی ہے کہ سالوں کی محنت ضائع نہ کی جائے اور ایران کو مرکزی دھارے(Main stream)میں لایا جائے۔
مڈل ایسٹ کی طرح روس افغانستان میں بھی فعال نظر آ رہا ہے۔ روس کی کوشش ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔ اس سلسلہ میں روس پاکستان اور چین سے مسلسل رابطے میں ہے۔ اپریل کے وسط میں ماسکو میں افغانستان کے بارے میں ایک اور انٹرنیشنل کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں خطے کے بارہ ممالک شرکت کریں گے اور ان میں انڈیا اور ایران بھی شامل ہونگے۔
انٹرنیشنل چوہدراہٹ کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہوتے ہیں امریکہ نے افغانستان کی جنگ میں تو سو ارب ڈالر جھونکے ہیں تین ہزار امریکی سپاہی لقمۂ اجل بنے ہیں اور جنگ کے اہداف پھر بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ امریکہ آج بھی افغانستان میں نو ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ کابل کی حکومت بڑی حد تک امریکی امداد پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ جو خود بزنس مین ہیں ضرور چاہیں گے کہ اس گھاٹے کے سودے سے جلد جان چھڑا لی جائے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغانستان کا کمبل کب امریکہ کو چھوڑے گا۔ آج بھی افغانستان کا چالیس فیصد دیہی علاقہ طالبان کے زیر اثر ہے طالبان کا کہنا ہے کہ وہ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی بجائے امریکہ سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔
افغانستان میں داعش کے ظہور سے روس اور ایران دونوں پریشان ہیں۔ وہ لوگ جو افغان معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی داعش کا عراق اور شام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ٹی ٹی پی کے لوگ ہیں جو نام بدل کر کام کر رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا روس اور ایران کے پاس شام، عراق اور افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لیے سیاسی اور مالی وسائل ہیں۔ جواب یہ ہے کہ دونوں ممالک اس خطے کو امریکہ سے بہتر جانتے ہیں لیکن اس بات کو بھی پیش نظررکھنا چاہیے کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس اورایران مالی طور پر خاصے کمزور ہو گئے ہیں۔ خطے میں دیرپا امن کے لیے انہیں امریکہ، چین ،بھارت ،پاکستان اور ترکی سب کا تعاون درکار ہو گا۔ پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے نئے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں