"JDC" (space) message & send to 7575

شام پر امریکی حملہ

شام کے شہر حمص کے قریب شعیرات ایئر بیس پر امریکی کروز حملہ ایک اہم واقعہ ہے جس کا ارتعاش پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ روس نے اس واقعے کی کھل کر مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ ساتھ ہی یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ روسی تعاون متاثر ہو سکتا ہے اس تعاون میں سب سے اہم انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ ہے اور ہاٹ لائن کے ذریعے جنگی طیاروں کے روٹ پہلے سے بتا دیئے جاتے ہیں تاکہ فضا میں کوئی حادثہ نہ ہو۔ برطانیہ آسٹریلیا‘ سعودی عرب اور اسرائیل نے امریکی اقدام کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کا سبب کیمیائی ہتھیاروں کا وہ حملہ بنا جو خان شیخون کے قصبے پر کیا گیا۔ خان شیخون ادلب کے صوبے میں واقع ہے جہاں باغیوں کا قبضہ ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ شعیرات ایئر بیس سے شامی جہاز اڑے اور عمداً خان شیخون کے معصوم باسیوں پر کیمیائی بم برسائے۔ شامی اپوزیشن نے سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصویریں لگائی ہیں جہاں ایسے مرد خواتین اور بچے لقمہ اجل بنے جن کی صحت بھی اچھی نظر آ رہی ہے اور جسم پر کسی عام ہتھیار یعنی گوٹی وغیرہ کے نشانات نہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز کے مبصرین میں کچھ لوگ دور کی کوڑی لائے اور کہا کہ یہ کیمیائی حملہ دراصل امریکہ نے کرایا ہے تاکہ حملے کا جواز فراہم ہو جائے۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں آج کل ہر اینکر مڈل ایسٹ ایکسپرٹ بنا ہوا ہے۔
ادھر امریکہ کی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ کیمیائی حملہ ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ ہوا ہے۔ پہلا حملہ شامی ایئر فورس کے طیاروں نے کیا اور دوسرا حملہ روسی ہوائی جہازوں نے اس ہسپتال پر کیا جہاں لوگوں کو طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے حملے کے تمام ثبوت مٹا دیئے جائیں۔ روس کا کہنا ہے کہ شامی ایئرفورس نے خان شیخون پر عام بم پھینکے تھے جو ایک ایسے گودام پر گرے جہاں اپوزیشن والوں نے کیمیکل ہتھیار ذخیرہ کئے ہوئے تھے۔ بظاہر یہ بات بعید ازقیاس لگتی ہے آپ کو یاد ہو گا کہ دو تین سال پہلے شامی حکومت نے اپنے کیمیائی ہتھیار یو این کے ایک ادارے کے حوالے کر دیئے تھے جو ہالینڈ میں قائم ہے اور ہمہ وقت کیمیائی ہتھیار کو تلف کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ کیا اُس وقت شامی حکومت نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ اُس کے کتنے کیمیائی ہتھیار اپوزیشن کے قبضے میں ہیں۔ امریکی حکومت کا اب یہ خیال ہے دراصل دمشق حکومت نے پورے کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کو نہیں دیئے تھے۔
خان شیخون پر حملے کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن امریکی حکومت اپنی پسند کا ریزولیوشن پاس کرانے میں ناکام رہی۔ وجہ یہ ہے کہ روس کے پاس ویٹو پاور ہے اور وہ اس پاور کا سات مرتبہ استعمال بشارالاسد کی حکومت کے حق میں کر چکا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مرضی کے مالک ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو قابل اعتنا￿ نہیں سمجھا بلکہ حملے سے پہلے اپنی کانگرس کو بھی اطلاع نہیں کی۔ باقاعدہ جنگ کا اعلان کرنے کا اختیار کانگرس کے پاس ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ کسی عالمی جنگ کا آغاز نہیں۔ مقصد شامی حکومت کو واضح پیغام دینا تھا کہ ریڈ لائن کو کراس نہ کیا جائے۔ 
امریکی حکومت نے دو اہم باتیں کہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شعیرات ایئر بیس سے اُڑ کر جب شامی طیاروں نے خان شیخون پر حملہ کیا تو روسی طیاروں کا ایک سکوارڈن وہاں موجود تھا یعنی روسیوں کو اس کیمیائی حملے کا مکمل علم تھا‘ دوسری بات یہ کہ امریکی حملے کے بارے میں روس کو پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی۔ اس کا مقصد بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ روس بروقت اپنے جنگی جہاز اور عملہ شعیرات سے ہٹا لے تاکہ تلخی کو زیادہ بڑھنے سے روکا جائے۔ شام کا شہر حمص کئی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ یہ دمشق کو شمالی شہر حلب سے ملانے والی موٹروے پر واقع ہے۔ طرطوس کے ساحل پر روسی بحریہ کا اڈہ ہے اور طرطوس حمص سے زیاد دور نہیں۔ چند سال پہلے حمص شامی اپوزیشن کا گڑھ تصور ہوتا تھا۔ میں دو مرتبہ حمص گیا ہوں اور مقصد حضرت خالد بن ولیدؓ کے روضے پر حاضری تھا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ پچھلے ایک دو سال سے شامی صدر بشارالاسد کی پوزیشن روسی اور ایرانی مدد کی وجہ سے مسلسل بہتر ہو رہی تھی‘ امریکہ اور اسرائیل کو یہ بات قابل قبول نہیں کہ بشارالاسد طاقتور ہو جائے کہ پھر سے اسرائیل کو آنکھیں دکھانے لگے۔ لہٰذا شامی حکومت کے بڑھتے ہوئے اعتماد کا تدارک ضروری تھا۔ 
سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ٹرمپ نے 2013ء میں شام پر حملے کی مخالفت کی تھی۔ یہ وہ سال ہے جب شامی حکومت پر پہلی مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگا تھا۔ اب بھی لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ بری فوج شام میں نہیں اتاریں گے البتہ بحیرہ روم میں امریکی نیوی کا رول بڑھ گیا ہے۔ اسی سمندر پر طرطوس اور اسرائیلی شہر ایلات واقع ہیں۔ ایلات کے بحری اڈے سے اسرائیلی نیوی غزہ کی پٹی اور لبنان کے ساحلوں کے مقابل پٹرولنگ کرتی رہتی ہے۔ بحیرہ روم میں درجہ حرارت یقینی طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔
صدر بشارالاسد کو اب فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ان کا اقتدار زیادہ اہم ہے کہ شامی عوام کی جانیں۔ پاکستان میں ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریکیں چلیں‘ دونوں مرتبہ جب ہلاکتوں کی تعداد سو کے قریب ہوئی تو انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ کچھ ایسا ہی مصر میں صدر حسنی مبارک کے ساتھ ہوا۔ شام میں چار لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن بشارالاسد پھر بھی اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ضروری ہے کہ مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جائے‘ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی فضائی حملے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شامی حکومت کو اس بات پر راغب کیا جائے کہ وہ سنجیدگی سے جنیوا میں جاری امن مذاکرات کا حصہ بنے۔ موجودہ صورتحال میں لاکھوں شامی پوری دنیا میں دربدر پھر رہے ہیں۔ عرب دنیا میں بشارالاسد کے حامی بہت کم رہ گئے ہیں اور اب لگتا ہے کہ شام کی خانہ جنگی مزید طول پکڑے گی۔ اپوزیشن کا مورال کافی عرصے سے پست تھا اب وہ پھر سے بلند ہونے لگاہے۔ مڈل ایسٹ کی موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے۔ شام کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ اس اہم ملک کو امریکہ اور روس کا اکھاڑا نہیں بننا چاہیے۔ نئے آزاد اور شفاف الیکشن ہی مسئلہ کا واحد حل ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں