"JDC" (space) message & send to 7575

ایران‘ شام اور اسرائیل

2011ء سے شام‘ علاقے کے ممالک اور عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ ترکی، امریکہ ،فرانس اور سعودی عرب بشار الاسد مخالف قوتوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہے۔ روس اور ایران کھل کر صدر بشار کی مدد کر رہے ہیں۔ 2014ء میں داعش کے ظہور کے بعد عالمی قوتوں کی بشار مخالف پالیسی میں خاصی نرمی دیکھنے میں آئی۔ اب روس اور امریکہ اس بات پر متفق نظر آئے کہ داعش دشمن نمبر ایک ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ داعش نے نادانستہ طور پر جبکہ روس اور ایران نے دانستہ طور پر شامی حکمران ٹولے کی مدد کی ہے۔
1973ء کی جنگ کے فوراً بعد پاکستان اور سوریا کے باہمی تعلقات میں بڑی گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور حافظ الاسد دونوں شدید طور پر اسرائیل مخالف تھے۔ بھٹو صاحب نے فوری طور پر ایئرفورس کے افسر سوریا روانہ کیے۔ یاد رہے کہ موجودہ شام کے لیے سوریا کا نام بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وسیع تر یا گریٹر شام میں لبنان ، اردن اور فلسطین بھی شامل تھے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہماری ایئرفورس کے فائٹر پائلٹ 1973ء کی جنگ میں لڑے۔ یہ تاثر درست نہیں۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ہمارے پائلٹ 1973ء کے فوراً بعد دمشق گئے تھے۔ ان کا رول خالصتاً دفاعی تھا۔ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیلی طیارے شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے رہتے تھے۔1974ء میں ایک پاکستانی پائلٹ جن کا نام سکواڈرن لیڈرستار علوی تھا نے اسرائیلی طیارہ گرایا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی فضائی حملے بھی کم ہوگئے اور پاکستان ایئرفورس کی وجہ سے ہمیں مڈل ایسٹ میں نیک نامی بھی بہت ملی۔
معاف کیجئے بات موضوع سے ہٹ گئی ہے لیکن موجودہ حالات میں پاکستان کی پوزیشن واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مرتضیٰ بھٹو اورشاہنوازبھٹو نے شام میں پناہ لی تھی۔ 2011ء کے بعد پاکستانی حکومت نے بالعموم یہ پوزیشن اپنائے رکھی کہ بشار الاسد کی حکومت کو طاقت کے زور پر تبدیل کرنا قابل قبول نہیں۔ عام خیال یہ تھا کہ پیپلزپارٹی اسد خاندان کا احسان چکا رہی ہے۔ لیکن پاکستانی موقف ہمارے 1971ء کے تلخ تجربے پر مبنی تھا کیونکہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں واضح طور پر ایک بیرونی طاقت یعنی انڈیا کا ہاتھ تھا۔ صدر بشار کی حکومت تو فی الحال بچ گئی لیکن سوریا مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ کئی حصوں میں عملاً بٹ چکا ہے۔ اب ملک کوواپس پرانی حالت میں لانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ بشار الاسد کی بعث پارٹی پر علوی اور عیسائی غلبہ ہے جبکہ 74 فیصد سنی آبادی سخت احساس محرومی کا شکار ہے۔ مسئلے کا حل غیرجانبدار الیکشن ہیں جو بشار الاسد کی حکومت کے تحت ممکن نہیں۔ میں جب 1975ء میں دمشق پہنچاتو ایران اور شام کے دو طرفہ تعلقات واجبی سے تھے۔ ایران میں شاہ کی حکومت امریکہ اورمغربی ممالک کی حلیف تھی جبکہ حافظ الاسد کی بعث پارٹی مکمل طورپر سوویت بلاک میں تھی۔ بعث پارٹی پر ملٹی کنٹرول بہت مضبوط تھا۔ حافظ الاسد خود شامی فضائیہ کے چیف رہ چکے تھے۔ ان کا تعلق علوی فرقہ سے تھا لیکن نظریاتی طور پر وہ سیکولر تھے۔ عام شامی معتدل مزاج ہے لیکن دینی شعائر کی پاسداری کرتا ہے۔ ملک میں نائٹ کلب اور شراب خانے موجود تھے۔ لیکن جمعہ کے روز مساجد میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، ایسی ہی صورت حال اتوار والے روز کنائس(گرجا گھروں) کی ہوتی تھی۔ شام میں دنیا کے قدیم ترین چرچ تھے۔ عرب دنیا میںاداروں کی بجائے شخصیات زیادہ اہم
تھیں۔ حافظ الاسد کے کانسی کے مجسمے ہر سرکاری عمارت میں اور بڑے چوراہوں پر نظر آتے تھے۔
1979ء میںایران میں اسلامی انقلاب آیا اور تھوڑی دیر بعد عراق ایران جنگ کا آغاز ہوا۔ حافظ الاسد اور صدام حسین میں جنم جنم کا بیر تھا۔ بعث پارٹی کے مخالف دھڑے دونوں ملکوں میں حکومت کر رہے تھے۔ صدام کا اسرائیل کے متعلق رویہ بہت سخت تھا جبکہ حافظ الاسد مشرق وسطی کے مسئلے کے حل کے لیے سیاسی آپشن استعمال کرنے کو تیار تھے۔ بہرحال ایران عراق جنگ میں شام مکمل طور پر ایران کا حلیف بن گیا اور یوںدونوں ممالک میں ایک اسٹرٹیجک پارٹنر شپ قائم ہوئی۔ اورپھرحزب اللہ کی عسکری مدد کرنے کے لیے شام ایک اہم راستہ بن گیا اور یہ بھی ذہن میںرہے کہ شام سے ایران کا روحانی تعلق صدیوں پر محیط ہے کیونکہ اہل بیت کی اہم ہستیاں وہاں مدفون ہیں۔ اس سارے تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آج کی ایرانی لیڈر شپ اور بشار حکومت کی دوستی سمجھ میں آ جائے۔ ایران نے بشارالاسد کی دل کھول کر مدد کی ہے آج سے دو تین سال پہلے یہ لگتا تھا کہ بشار الاسد چند ماہ کا مہمان ہے لیکن ایران اور روس کی عین وقت پر مدد نے دمشق کی لڑکھڑاتی حکومت کو بیساکھیاں فراہم کیں اور پھرداعش کا ظہور ہوا تو مغربی ممالک کی توجہ بٹ گئی۔ اسرائیل کو شام میں ایران کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اسرائیل کے سکیورٹی اداروں کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ایران شام میں صرف بشار حکومت کو بچانے نہیں آیا بلکہ وہ اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2015ء میں اسرائیل نے ڈرون کے ذریعے ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کے ایک جنرل اور چھ حزب اللہ ممبران کو جولان کے نزدیک شامی شہر قنیطرہ میں شہید کردیا تھا۔ 2006ء میں جس طرح حزب اللہ نے ڈٹ کر اسرائیل کا مقابلہ کیا تھا وہ اسے یاد ہے۔ اسرائیل بالکل نہیں چاہتا کہ حزب اللہ اور ایران شام کی جانب سے اس کے لیے سکیورٹی خطرہ بنے رہیں۔
پچھلے دنوں ماسکو کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صدر پیوٹن کو کہا کہ جب تک ایران شام میں موجود ہے وہاںامن قائم نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ تہران اور ماسکو کے مابین دوریاں پیدا کی جائیں۔ اسرائیل کے سکیورٹی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ ایران شام میں لمبی مدت کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا چاہتا ہے اور بحیرہ روم پر واقع بندرگاہ جبلیہ میں اپنا بحری اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت شام اور لبنان کے ساحلوں سے لیکر قبرص تک اسرائیلی نیوی کے جہاز پھرتے ہیںجنہیں امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کی حمایت حاصل ہے۔ شام کی بندرگاہ طرطوس عرصے سے روس کے تصرف میں ہے اگر ایران کو شام میں نیول بیس مل گیا تو خطے میں مزید تنائو پیدا ہو گا۔ ایرانی چیف آف سٹاف جنرل محمد حسین باقری کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایران شام اور یمن میں بحری اڈے قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں ماسکو کا کیا موقف اختیار کرتا ہے۔ اسرائیل کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیلی آبادی کا ایک بڑا حصہ روسی نژاد ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں آنے کے بعد تہران کمے لیے ماسکوکی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ 
نوٹ: پچھلے کالم میں محمد امین ایم بی اے کے اس خطاب کا مطلب ماسٹر آف برٹش ایمپائر لکھا گیا ہے جبکہ یہ دراصل ممبر آف برٹش ایمپائر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں