"JDC" (space) message & send to 7575

انتہا پسندوں کی اصلاح اور بحالی

انتہا پسندی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ عالمی پرابلم بن چکا ہے۔ انتہا پسندی صرف دینی یافرقہ وارانہ نہیں ہوتی یہ نسلی اور لسانی بھی ہو سکتی ہے اگر ایک لسانی یا نسلی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم سب سے اعلیٰ و ارفع ہیں تو گویا وہ گروہ فاشسٹ سوچ میں مبتلا ہے اور انتہا پسند ہے۔ جب کوئی ملک دہشت گردی کی ایسی لہر سے گزرے جس میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا ہو تو دہشت گردی کی لہر کے خاتمے کے ساتھ ضروری ہوتا ہے کہ ان گم گشتہ نوجوانوں کی اصلاح کر کے انہیں دوبارہ سوسائٹی کا مفید اور باعزت فرد بنایا جائے۔ اصلاح اور بحالی کا یہ عمل سعودی عرب میں کامیابی سے ہوا ہے۔ سری لنکا میں اس مقصد کے لیے ایک سرکاری محکمہ بنایا گیا ہے ہمارے ہاں یہ عمل سوات میں پاک فوج کی نگرانی میں ہوا ہے۔
انتہا پسندوں کی اصلاح شروع کرنے سے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ یہ سوچ کہاں سے اور کیسے آتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس انتہا پسندی کا منبع ہیں مگر یہ بات غلط ہے۔ مشال خان کو شہید کرنے والے دینی مدارس کے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں رواداری اور اعتدال پسندی کم ہو رہی ہے۔ دیہات کے لوگ شہروں کو نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہو رہاہے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ آبادی کا پھیلائو سیلاب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیںمگر ہم صرف نصف تعداد کو جاب دے پاتے ہیں۔ نوکریاں تو تب ملیں گی جب نئے کارخانے لگیں گے۔ نئے کارخانے تب لگیں گے جب بجلی کا بحران ختم ہو گا اور ہرطرف امن ہو گا۔ بے روزگار نوجوان میں بندوق پکڑ کر حکومت اور معاشرے سے بدلہ لینے کی سوچ جنم لیتی ہے۔ فاقہ کش آسانی سے خود کش جیکٹ پہن لیتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت پینتیس(35) ہزار دینی مدارس ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال چار پانچ لاکھ لڑکے لڑکیاں دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں ان میں اچھے طلباء کو انہی مدارس میں پڑھانے کا جاب مل جاتا ہے لیکن یہ معدودے چند ہوتے ہیں اکثریت مساجد میں امامت ڈھونڈتی ہے۔ خطیب بننے کی اہلیت بھی ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان مدارس میں دنیاوی علوم بھی پڑھائے جائیں ان طلباء کوانگریزی بھی آتی ہو وہ کیمسٹری فزکس اور بیالوجی بھی پڑھیں اور ہاں اگر مدارس میں کمپیوٹر کا استعمال بھی سکھایا جائے توطلباء کے لیے قرآن اور حدیث کی تعلیم آسان تر ہو جائے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ جو بچے ووکیشنل تعلیم یعنی ہاتھ کا ہنر سیکھنا چاہیں وہ الیکٹریشن اور پلمبر بھی بن سکیں۔ اگر ایک امام مسجد کوئی ہنر بھی جانتا ہے تو اس کی انکم میں اضافہ ہو گا اور اس میں عزت نفس آئے گی وہ معاشرے کا مفید تر ممبر بن سکتا ہے۔ انتہا پسندی ان لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے جنہیں معاشرہ اطراف کی طرف دھکیل دیتا ہے اس رویے کی وجہ غربت کی کثرت اور علم و ہنر کی کمی ہو سکتی ہے۔ جب غریب کو احساس ہو جائے کہ اسے اپنا حق نہ سکول میں ملے گا نہ ہسپتال میں اور نہ ہی جاب مارکیٹ میں تو وہ ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا کہ انگلینڈ میں انتہا پسندی کم کیوں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں میرٹ کی حکمرانی ہے ایک پاکستان نژاد ٹرک ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بن سکتا ہے۔ معاف کیجیے بات موضوع سے ہٹ گئی۔ سعودی عرب کی جیلوں میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں انسانی زندگی کی خدمت سکھائی جاتی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جس نے مومن کو عمداً قتل کیا وہ جہنم میں جائے گا اور وہاں ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ سورۃ المائدہ میں انسانی زندگی کی تحریم میں تمام انسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جس نے ایک جان کوبچایا اس نے گویا تمام انسانیت کو بچایا اوراس سے پہلے ارشاد ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔ کاش مشال خان کے قاتلوں کو ان آیات کا نہ صرف علم ہوتا بلکہ یہ ان کے ایمان کا بھی حصہ ہوتیں۔یہ آیات بمع ترجمہ ہمارے ہر سکول ہرمدرسے اور ہر آفس میں آویزاں ہونی چاہئیں۔
خیبر پختون خوا حکومت کا یہ فیصلہ کہ گزشتہ بجٹ میں صرف ایک ہی مدرسہ کوکروڑوں روپے دے دیے گئے غلط تھا۔ اس سے دیگر دینی مدارس میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ اگلے بجٹ میں یہ رقم ان مدارس میں تقسیم ہونی چاہیے جو جدید علوم کے پڑھانے کا بندوبست کریں۔ اس طرح سے دینی مدارس کے طلباء کو بہتر مستقبل کا امکان نظر آئے گا۔ میں نے آج ہی اخبار میں پڑھا ہے کہ کے پی کی حکومت ایک سو سپورٹس گرائونڈ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔ کھیلوں سے نوجوانوں کی انرجی مثبت طریقے سے صرف ہوتی ہے۔ ڈسپلن آتا ہے‘ ٹیم سپرٹ پیدا ہوتی ہے۔ منفی سوچ ختم ہوتی ہے۔
سری لنکا میں ‘کھیل انتہا پسندی کے خاتمے کے پروگرام کا لازمی جزو ہیں۔ وہاں انتہا پسندوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے پورشن میں لیڈر اور پرانے دہشت گرد آتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو لیڈروں کی معصومانہ پیروی کرتے ہیں اور ان کے فٹ سولجر بن جاتے ہیں ۔ بحالی کے پروگرام میں صرف موخر الذکر لوگ لیے جاتے ہیں۔ بحالی کا پروگرام ایک سال کا ہے البتہ اگر کوئی شخص اس سے پہلے ٹھیک ہو جائے تو وہ معاشرے کا نارمل حصہ بن سکتا ہے۔ ٹریننگ کے دوران عام تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ووکیشنل ٹریننگ بھی۔ خاندانی اور سوشل اقدار پر زوردیا جاتا ہے۔ بحالی کے مراکزمیں زیادہ سے زیادہ کوئی شخص دو سال رہ سکتا ہے۔ جہاں ضرورت ہو نفسیاتی کونسلنگ بھی کی جاتی ہے۔ ٹریننگ اور تعلیم کی تکمیل پرجاب کا بندوبست کیاجاتا ہے یا اپنا کام شروع کرنے کے لیے قرضہ فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ہزاروں لوگ سوسائٹی کے نارمل اورمفید ممبر دوبارہ سے بن گئے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیںجو ماضی میں تامل ٹائیگرز کے لیے بندوقیں اٹھائے پھرتے تھے۔
سوات میں اصلاح اوربحالی کے پروگرام میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک پروگرام نوجوانوں کے لیے تھا اور دوسرا سب کے لیے‘ فیملی کونسلنگ علیٰحدہ سے کی گئی۔ اصلاح اورتربیت کے تین حصے تھے۔ ایک دینی تعلیم دوسرے عام تعلیم اور تیسرا حصہ ووکیشنل ٹریننگ یعنی دستی ہنر سیکھنے کا تھا۔ تینوں مراحل میں بوقت ضرورت نفسیاتی کونسلنگ بھی مہیا کی جاتی تھی۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سوات والے کامیاب پروگرام کو فاٹا اورکراچی کوئٹہ تک بڑھایا جائے۔ شدت پسندوں کا مقابلہ صرف طاقت سے ممکن نہیں یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جسے بدلنا ہے۔ اس کے لیے علمائے دین کی خدمات بھی درکار ہونگی اورماہرین نفسیات کی بھی۔ حکومت کو بھی بحالی کے لیے فراخ دلی سے قرضے دینا ہونگے۔ نوجوانوں کو بتانا ہو گا کہ معصوم بچوں کا قاتل ملا فضل اللہ ان کا رول ماڈل نہیں ہو سکتا ۔اب نوجوانوں کا رول ماڈل یونس خان ہونا چاہیے جو قومی ہیرو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں