"JDC" (space) message & send to 7575

ہمارے پانی کے مسائل

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے سبھی جاندار پانی سے پیدا کئے۔ پانی کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی چرند و پرند۔ زمین میں نمی نہ ہو تو بیج نہیں اُگ سکتا۔ وہ فصلیں جو ہماری خوراک کا ذریعہ ہیں پانی سے نشوونما پاتی ہیں۔ وہ گائے جو ہمیں لذیذ دودھ اور صحت بخش گھی دیتی ہے نباتات کھاتی ہے۔ یہی صورت ان چوپائیوں کی ہے جن کا گوشت روزانہ ہمیں پُر لذت پروٹین فراہم کرتا ہے۔ جب بارانِ رحمت آتی ہے تو کسانوں کے چہروں پر رونق آ جاتی ہے۔ چراگاہیں ہری بھری ہو جاتی ہیں۔
جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس وافر پانی تھا۔ معاشیات کی کتابوں میں جب رسد اور طلب کے نتیجے میں قیمتوں کا تعین سمجھایا جاتا تھا تو ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوتا کہ جس چیز کی رسد لامحدود ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور مثال ہوا اور پانی کی دی جاتی تھی کیونکہ یہ دونوں فری دستیاب آئٹم تھے۔ آج ہم پینے کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں خریدتے ہیں۔ چند سال پہلے خبر آئی تھی کہ نئی دہلی میں آکسیجن کیفے کھل گئے ہیں جہاں صاحب ثروت جا کر آکسیجن ماسک پہن کر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے ہیں تاکہ صحت بخش ہوا کا سانس لے سکیں۔ دہلی میں ماحولیاتی آلودگی بڑا مسئلہ ہے۔ 
پاکستان کے پاس آج بھی وافر پانی ہے لیکن فی کس پانی کی مقدار پانچواں حصہ رہ گئی ہے اور وجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی 1951ء کے مقابلے میں آج پانچ گنا زیادہ ہے۔ ہمارا نوّے فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ کسان کھیت کو پانی سے لبالب بھر دیتے ہیں۔ جتنے پانی سے ہمارے ہاں ایک ایکڑ سیراب ہوتا ہے یورپ اور امریکہ میں کئی ایکڑ آب پاش ہو جاتے ہیں۔ وہاں فصلوں کو پانی بجلی کے فواروں سے دیا جاتا ہے۔ ہمارے دریائوں میں مئی سے اگست یعنی چار ماہ بہت زیادہ پانی ہوتا ہے اور باقی آٹھ ماہ بہت کم۔ چونکہ فالتو پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری استعداد بہت کم ہے لہٰذا ٹیوب ویل سے زیر زمین پانی نکالا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت دس لاکھ سے اوپر ٹیوب ویل ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ زیر زمین پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے‘ اور اس لیول کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی ادارہ نہیں۔ 
میرے خیال میں اس وقت پانی سے متعلقہ سب سے گمبھیر مسئلہ یہ ہے کہ چوراسی (84) فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر گائوں میں پانی کا تالاب ہوتا تھا‘ جسے نہری پانی سے بھرا جاتا تھا۔ بارانی علاقوں میں لوگ کنوئیں سے پانی نکال کر پیتے تھے۔ اب ہر گھر میں نلکا ہے یا موٹر لگی ہوئی ہے۔ اس سے آسانیاں تو بہت ہو گئی ہیں لیکن بیماریاں بھی خوب پھیل رہی ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے اور بی کی بڑی وجہ آلودہ زیر زمین پانی ہے۔ ہمارے ہاں شہروں میں پانی لوکل گورنمنٹ کے ادارے سپلائی کرتے تھے‘ جو پانی کو مختلف طریقوں سے بڑی مقدار میں فلٹر کرتے تھے۔ جراثیم مارنے کے لیے مناسب مقدار میں کلورین یا لال دوائی ڈالی جاتی تھی۔ تب ہم پلاسٹک کی بوتلوں والا پانی نہیں خریدتے تھے اور صحت مند بھی رہتے تھے۔ یورپ اور امریکہ والے آج بھی نلکے کا پانی بلا خوف پیتے ہیں۔
اب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہمارے پانی کی کوالٹی کے ساتھ کیا حادثات ہوئے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ صنعتی فضلہ بغیر کسی صفائی کے دریائوں میں جا رہا ہے۔ زراعت میں کیمیائی کھادوں کا بے تحاشا استعمال بھی زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔ شہروں کی آبادی میں بغیر کسی منصوبہ بندی بے ہنگم اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ ہر جگہ کچی آبادی اور غریب بستیاں پائی جاتی ہیں‘ جہاں سیوریج کا کوئی بندوبست نہیں۔ لاہور شہر سے درجنوں گندے نالے دریائے راوی میں گرتے ہیں اور اس خشک ہوتے ہوئے نالے کا دریا ہونے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی نظام میں اگر کوئی جان تھی تو وہ 2008ء کے بعد صوبائی حکومتوں نے نکال لی‘ جو نہ خود کوئی کام کرتی ہیں اور نہ بلدیاتی اداروں کو کرنے دیتی ہیں۔
ہمارے ہاں زراعت کے لیے ہر سال ایک سو چار ملین ایکڑ فٹ پانی دیا جاتا ہے۔ اس مقدار کا صرف چالیس فیصد کھیتوں تک پہنچتا ہے۔ آب پاشی صوبائی محکمہ ہے۔ ہمارے ہاں آبیانے کی شرح اس قدر کم ہے کہ ٹوٹل انکم سے محکمے کے اخراجات بھی نہیں نکلتے۔ پانی کے ریٹ 1972ء میں مقرر ہوئے تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ محکمہ آب پاشی میں تین طرح کے افسر ہیں۔ ایک ایماندار مگر اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی آواز کمزور ہے‘ دوسرے کرپٹ جو بااثر زمینداروں کو پانی چوری میں مدد کرتے ہیں‘ اور تیسرے نالائق جو ڈنگ ٹپائو کام کرتے ہیں۔ یہ محکمہ بے حد اہم ہے۔ یہاں ذہین اور محنتی لوگ آئیں گے تو نہریں پکی ہوں گی۔ روایتی آب پاشی کے نظام میں اچھی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس انقلابی کام کے لیے وسائل درکار ہیں۔ اس کام کے لیے آبیانے کا ریٹ بڑھانا پڑے گا۔ ہر موگے پر میٹر لگانا ہو گا۔ بہتر ہو گا کہ زرعی پانی کی مارکیٹنگ کا کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیا جائے تاکہ محکمانہ کرپشن سے جان چھوٹے۔
ایشیائی ڈیویلپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1950ء سے 2010ء تک پاکستان میں اکیس سیلاب آئے۔ ان میں سے 2010ء کا سیلاب بدترین تھا۔ صرف اس ایک سیلاب کی وجہ سے ہماری اکانومی کو نو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ دریائوں کے بہائو کو ناپنے کے آلات واپڈا کے پاس ہیں۔ اٹھارہویں دستوری ترمیم کے بعد واٹر مینجمنٹ میں صوبوں کا رول بڑھ گیا ہے۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ Concil of Common interest کا رول صوبوں کے آپس کے تال میل میں کلیدی ہے اور کونسل اتنی فعال نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے۔
مکران اور سندھ کے ساحل پر سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ساحلی علاقوں میں زمین کا کٹائو بڑھ رہا ہے۔ ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع اس عمل سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف پہاڑی علاقوں میں گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں‘ جنگلات کم ہو رہے ہیں اور یہ دونوں عوامل مل کر سیلابی صورت حال پیدا کرتے ہیں۔ 
ایمبیسیڈر شفقت کاکا خیل کا اختصاص ماحولیات ہے۔ وہ پاکستان کے پانی کے مسائل کے بارے میں بہت ہی مفید معلومات رکھتے ہیں۔یہ کالم لکھنے سے پہلے میں نے ان سے گفتگو کی۔ کہنے لگے کہ پاکستان کے آبی مسائل کی اصل وجہ واپڈا‘ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی‘ نیشنل فلڈ کمیشن‘ واٹر ریسورس ریسرچ کونسل اور صوبائی حکومتوں میں کوآرڈی نیشن کی کمی ہے۔ ابھی تک ہم اپنی واٹر پالیسی فائنل نہیں کر پائے۔ گورننس کمزور ہے۔ اسی وجہ سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ تمام مسائل کے حل موجود ہیں لیکن ہمیں پاناما اور ڈان لیکس سے فرصت تو ملے۔ کاش ہم اس اہم مسئلے کے حل کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں