"JDC" (space) message & send to 7575

فرانس کا صدارتی الیکشن

یورپی یونین کے اٹھائیس ممبران میں سے چار سب سے اہم ہیں اور وہ ہیں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی۔ برطانیہ نے پچھلے سال ایک ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کیا کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ برطانوی عوام کے اس فیصلے نے دنیا کو حیران کر دیا۔ پھر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو حیرانی مزید بڑھ گئی۔ صاف ظاہر تھا کہ مغربی دنیا کے اہم ترین ممالک گلوبلائزیشن کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ وہ اپنے ممالک کے گرد مضبوط حصار بنانا چاہتے ہیں تاکہ امیگریشن کو مکمل طور پر کنٹرول کر سکیں۔ ان حالات کے پیش نظر فرانس کے صدارتی انتخاب کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔
فرانس کا سیاسی نظام صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کا امتزاج ہے۔ صدر کو تمام ووٹر براہ راست ووٹنگ سے منتخب کرتے ہیں جبکہ وزیر اعظم کو صدر نامزد کرتا ہے لیکن وزیر اعظم کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہے‘ اور فرانس کی ماضی قریب کی تاریخ میں تین مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم مخالف سیاسی جماعتوں سے تھے۔ فرانس کا صدر کافی بااختیار ہوتا ہے۔ امور خارجہ اور دفاع کے معاملات مکمل طور پر صدر کے انڈر ہیں۔ مسلح افواج کے چیف صدر مقرر کرتا ہے اور وہ کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ فرانس وہ ملک ہے جس نے جمہوریت کے حق میں ایک کامیاب انقلاب دیکھا۔ 1848ء میں نپولین بونا پارٹ فرانس کا پہلا صدر منتخب ہوا۔ دورِ حاضر میں جنرل چارلس ڈیگال فرانس کے معروف صدر گزرے ہیں۔ فرانسیسی وزیر اعظم بھی زیادہ کمزور نہیں ہوتا‘ ملک کی اندرونی گورننس اس کے انڈر ہوتی ہے۔ وزارتِ داخلہ اور خزانہ‘ وزیر اعظم سے احکامات لیتی ہیں۔ ایک میچور جمہوریت کا طرۂ امتیاز ہے کہ کئی صدر اور وزیر اعظم مخالف جماعتوں سے ہوئے لیکن قومی مفاد کی خاطر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کرتے رہے۔اس صورت حال کو Co-habitation یعنی ساتھ ساتھ رہنا کہا جاتا ہے‘ یا یوں کہہ لیجئے کہ ملک کے اعلیٰ مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلاف کے باوجود تعاون کرنا۔ تو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات‘ یورپی یونین اور نیٹو کے مستقبل کی وجہ سے یہ الیکشن بڑی اہمیت اختیار کر گیا۔ فرانس میں صدر کے انتخاب کے لیے نام مقامی حکومتوں کے نمائندے تجویز کرتے ہیں اور ایسے نمائندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں کے یونین کونسل کے ممبر یا بلدیات کے میئر سے ملتے جلتے لوگ فرانس کے ہونے والے صدر کے لیے مختلف نام تجویز کرتے ہیں۔ ایسی پروپوزل کی کامیابی کے لیے امیدوار کے پاس کم از کم پانچ سو نمائندوں کی تائید ہونا لازم ہے اور لوکل گورنمنٹ کا نمائندہ بیک وقت ایک سے زائد امیدواروں کا نام تجویز نہیں کر سکتا۔ اگر پہلے رائونڈ میں کسی امیدوار کو واضح اکثریت یعنی پچاس فیصد سے زائد ووٹ نہ ملیں تو دو اہم ترین امیدواروں کے درمیان دوسرا رائونڈ ہوتا ہے۔
اپریل میں ہونے والے پہلے رائونڈ میں پانچ امیدوار تھے اور ان میں سے کوئی بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکا۔ مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک امیدوار محترمہ میرین لی پین تھیں‘ جو دوسرے نمبر پر تھیں۔ یاد رہے کہ فرانس میں الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے مسلمان رہتے ہیں اور مسلمان آبادی کا تقریباً آٹھ فیصد ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہے‘ لیکن یہ تعداد صرف قانونی طور پر فرانس میں مقیم مسلمان ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق غیر قانونی طور پر رہائش پذیر مسلمانوں کی تعداد تقریباً تیس لاکھ ہے۔ لی پین کی پارٹی نیشنل فرنٹ کئی بار کہہ چکی ہے کہ ہم ان غیر قانونی تارکین وطن کو فرانس سے بے دخل کر دیں گے۔ محترمہ لی پین اپنی ہی طرز کی‘ مگر دلچسپ خاتون ہیں۔ ان کا پورا خاندان انتہائی دائیں بازو کے خیالات کا حامل ہے۔ ان کے والد جان لی پین نیشنل فرنٹ کے سینئر ممبر رہے ہیں۔ 2015ء میں موصوف نے بیان دیا کہ جرمنی میں ہٹلر کی طرف سے کیا جانے والا یہودیوں کا قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کی کہانی مبالغہ آمیز ہے۔ اپنے اس بیان کی وجہ سے انہیں پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور انہیں نکالنے والوں میں خود انہی کی بیٹی بھی شامل تھی۔ بیٹی نے یہ کام کیوں کیا؟ اس بات کی طرف ایک توجیہ ہے کہ اس سے اس کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ سیاست بھی بے حد بے رحم کھیل ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ نومبر 2015ء میں پیرس کے فٹ بال سٹیڈیم میں دہشت گرد حملے ہوئے تھے۔ حملہ آور شمالی افریقہ کے مسلمان تھے۔ اس وقت لی پین نے کہا تھا کہ ایسے فارنرز کو فرانس سے فارغ کر دینا چاہیے جو ہماری سرزمین پر نفرت کی باتیں کرتے ہیں۔ لی پین پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ دوسرا رائونڈ ہار گئی ہیں‘ لہٰذا فرانس میں مقیم مسلمان خوش ہیں لیکن بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھی۔ نیشنل فرنٹ والے یورپی یونین چھوڑنے کے حامی ہیں اور نیٹو پر اکثر سوالیہ نشان لگائے رہتے ہیں۔ مسلمان خاص طور پر ان کا ہدف ہیں۔ مساجد‘ حلال کھانا اور مسلمان خواتین کا سر ڈھانپنا۔ یہ سب کچھ انہیں پسند نہیں۔ شکر ہے کہ فی الحال یہ خطرہ ٹل گیا ہے‘ لیکن کہا جا رہا ہے کہ اڑتالیس سالہ لی پین اور ان کی پارٹی اگلے ماہ یعنی جون میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں مضبوط اپوزیشن بنائیں گے۔
نومنتخب صدر امانوئیل میکرون معتدل مزاج ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال صدر آلینڈ کی پارٹی چھوڑی اور اپنی علیحدہ پارٹی این مارش (En Marche) بنائی. وہ پیشے کے لحاظ سے بنکر تھے اور صدر آلینڈ کی کابینہ میں بھی مالی امور کے انچارج تھے۔ یہ فرانس کے کم عمر ترین صدر ہیں۔ ان کی کامیابی پر پورے یورپ نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
پورے میڈیا میں نومنتخب صدر کی اہلیہ اور ہونے والی فرسٹ لیڈی بریجیٹ میری کلاڈ ٹونگس Brigitte Marie-Claude Trogneux کا بہت ذکر ہوا ہے۔ محترمہ اپنے خاوند سے عمر میں صرف پچیس سال بڑی ہیں۔ دونوں کی محبت کی کہانی بے حد افسانوی ہے۔ میکرون جب پندرہ سال کے تھے اور ہائی سکول میں زیر تعلیم تھے تو محترمہ اسی سکول میں ڈرامہ اور ڈانس کی ٹیچر تھیں۔ ان کا اپنا تھیٹر کلب تھا جہاں نوجوان میکروں کو کبھی کبھی کوئی رول مل جاتا تھا۔ موصوف پندرہ سال کی عمر میں اپنی اکتالیس سالہ ٹیچر پر عاشق ہو گئے اور سترہ سال کی عمر میں انہیں شادی کی باقاعدہ پروپوزل دے دی۔ بربجیت شادی شدہ تھیں لہٰذا انہوں نے میکرون کی تجویز کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا‘ لیکن بالآخر تیرہ سال بعد یعنی 2007ء میں دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ پہلے شوہر سے ان کے تین بچے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک سکول میں فرنچ لٹریچر پڑھاتی تھیں۔ شوہر کے الیکشن کی وجہ سے ٹیچنگ چھوڑ دی اور انتخابی مہم میں جُت گئیں۔
اس الیکشن میں فرانس کے عوام خاصے منقسم نظر آئے۔ پہلے رائونڈ میں انتہائی بائیں بازو کے امیدوار کو تقریباً بیس فیصد ووٹ ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرانس میں سوشلسٹ ابھی زندہ ہیں۔ دوسرے رائونڈ میں منتخب ہونے والے صدر میکرون معتدل سیاست کے حامی ہیں۔ یورپی یونین اور نیٹو سے روابط قائم رکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن وہ نسبتاً ناتجریہ کار ہیں۔ انہیں بہت اعلیٰ کارکردگی دکھانا ہو گی‘ خصوصاً اقتصادیات کے شعبے میں۔ اور امید کرنی چاہیے کہ فرانس کے مسلمان بھی قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔
نومنتخب صدر امانوئیل میکرون معتدل مزاج ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال صدر آلینڈ کی پارٹی چھوڑی اور اپنی علیحدہ پارٹی این مارش (En Marche) بنائی وہ پیشے کے لحاظ سے بنکر تھے اور صدر آلینڈ کی کابینہ میں بھی مالی امور کے انچارج تھے۔ یہ فرانس کے کم عمر ترین صدر ہیں۔ ان کی کامیابی پر پورے یورپ نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں