"JDC" (space) message & send to 7575

سول سروس کا زوال

فرض کیجئے کہ فیڈرل پبلک سروس کمشن کے چیئرمین نوید اکرم چیمہ خود سی ایس ایس کا امتحان دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، یقین مانئے ان کی درخواست مسترد ہو جائے گی کیونکہ سی ایس ایس کا امتحان دینے کے لیے بی اے کی کم از کم سیکنڈ ڈویژن کی ڈگری درکار ہے۔ سی ایس ایس کا پچھلے سال کا رزلٹ حال ہی میں نکلا ہے۔ نو ہزار سے زائد امیدوار تحریری امتحان میں بیٹھے صرف دو سو پاس ہوئے ہیں۔ اسامیاں بھی اتنی ہی ہیں ۔ لہٰذا ہر تحریری امتحان پاس کرنے والا انٹرویو میں بھی پاس ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہماری سنٹرل سروسز کو اب بابو درکار ہیں نہ اچھی شخصیات کی ضرورت ہے اور نہ ہی آزاد منش اور اچھا مشورہ دینے والے لوگوں کی۔
ایک زمانہ تھا کہ سول سروس جوائن کرنا ہر قابل نوجوان کا خواب تھا۔ سول سروس میں قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر ،مسعود مفتی ،ظفر الاحسن ،جی احمد اور مصطفی زیدی جیسے اعلیٰ ذہن اور ارفع شخصیات کے مالک شامل تھے۔ سول سرونٹ کے دو بنیادی رول تھے۔ آٹھ دس سال کی سروس کے بعد وہ ڈسٹرکٹ میں ریاست کا نمائندہ ہوتا تھا۔ بطور ڈپٹی کمشنر وہ ریونیو کلکٹر بھی تھا اور امن عامہ کا محافظ بھی۔ ضلع کے دوسرے محکمے مثلاً تعلیم صحت اور آبپاشی وغیرہ بھی ڈی سی کے انڈر ہوئے تھے۔ ترقیاتی کام مثلاً سرکاری سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کی نگرانی بھی اس کے فرائض منصبی میں شامل تھی۔ اگر ڈسٹرکٹ میں کسی جگہ امن عامہ کی صورت حال خراب ہو جاتی تھی تو ڈپٹی کمشنر پولیس اور مجسٹریٹ کو بھیجتا تھا۔ پولیس مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر گولی نہیں چلا سکتی تھی۔ گویا چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پھانسی کی سزا صرف سیشن جج دے سکتا تھا جو ڈی سی کے ماتحت نہیں ہوتا تھا۔
انگریز نے برصغیر میں مقابلے کے امتحان کے ذریعے اعلیٰ افسران کے انتخاب کی داغ بیل ڈالی۔ یہ برصغیر میں ایک نئی اختراع تھی، مغلوں کے زمانے تک اعلیٰ منصب شجرہ نسب دیکھ کر دیئے جاتے تھے۔ ایران اور وسط ایشیا یا افغانستان سے آنے والے عالی نسب مغلوں کے منظور نظر ٹھہرتے تھے۔ انگریز کے لائے ہوئے میرٹ سسٹم میں کمی کمین کا لائق بچہ بھی اعلیٰ عہدے پر براجمان ہوسکتا تھا۔ ہماری اشرافیہ کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد میرٹ سسٹم میں سوراخ ہونے لگے۔ آج سی ایس ایس میں صرف سات اعشاریہ پانچ یعنی ساڑھے سات فیصد جاب میرٹ پر ملتے ہیں باقی کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر۔ ڈی ایم جی ،فارن سروس اور پولیس سروس میں دس فیصد کوٹہ مسلح افواج کا ہے۔ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے سول سروس کا معیار خاصا متاثر ہوا ہے۔ سول سرونٹ جب لمبے تجربے کے بعد سینئر عہدوں پر پہنچتے تھے تو ان کا دوسرا رول یعنی سیاسی حکمرانوں کو صحیح اور صائب مشورے دینا بھی شروع ہو جاتا تھا۔ سینئر بیورو کریٹ کا گورننس کا تجربہ عام سیاستدان سے زیادہ ہوتا ہے اوراس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ بیورو کریٹ نیوٹرل ایمپائر کا رول ادا کرتے تھے وہ ابھی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر تھے۔
1953ء کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ لاہور میں ختم نبوت کے مسئلے پر فسادات ہوئے۔ بعض سیاستدان اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے دائیں بازو کی جماعتوں کو شہ دے رہے تھے۔ حالات قابو سے نکلنے لگے تو مارشل لاء لگانا پڑا۔ ان تمام واقعات کو منیر کیانی رپورٹ میں تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنایا جائے اور احمدیوںکو اقلیت قرار دیا جائے اور اس پر مستزاد کہ سر ظفراللہ خان کو وزیرخارجہ کے عہدے سے ہٹایا جائے حکومت وقت نے ان میں سے ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا۔
سینئر بیورو کریٹ جی احمد ان دنوں فیڈرل حکومت میں سیکرٹری داخلہ تھے۔ انہوں نے وزیراعظم ناظم الدین کو اس ساری صورت حال پر مفصل مراسلہ لکھا جو پڑھنے کے قابل ہے۔ جی احمد اپنے خط میںاس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی کو کمزور کردیا گیا، لیکن ساتھ ہی انہیں یہ تشویش بھی لاحق تھی کہ بعض رجعت پسند قوتوںکو ماڈرن جمہوری پاکستان قابل قبول نہیںاس خط سے چھوٹا سا اقتباس؛ ''باخبر پڑھا لکھا طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اسلامی ریاست کی بات بعض سیاست دان اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کر رہے ہیں۔ یہ سیاست دان رجعت پسند قوتوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں خواہ ان کے اس اقدام سے پاکستان مڈل ایسٹ کے ممالک کی طرح (سیاسی طورپر) پسماندہ ملک ہی کیوں نہ بن جائے‘‘ جی احمد کے فرمودات آج کے پاکستان پر بھی منطبق ہوتے ہیں اگر ہم اس سوچ کو ذہن نشین رکھتے تو انتہا پسندی کے عفریت سے بچے رہتے۔ کیا آج کا کوئی سینئر بیورو کریٹ وزیراعظم کو ایسا خط لکھ سکتا ہے۔
سول سروس کو فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے جان بوجھ کر ایسے جھٹکے لگائے کہ انگریز کا دیا ہوا آزاد انتظامیہ کا ادارہ ہی ختم ہوگیا۔ ایوب خان نے چوراسی سول سرونٹ فارغ کیے جن میں سے بارہ بہت ہی قابل آئی سی ایس تھے ۔ان میں اے ٹی نقوی ،مسٹر خلیلی اور فضل احمد کریم فضلی جیسے اعلیٰ پائے کے لوگ تھے اور وہاں ظفرالاحسن بھی جنہوں نے لاہور میں گلبرگ اور سمن آباد جیسی بستیاں آباد کیں۔ صحرائے تھل میں شہر بنائے اور پی آئی اے جیسی ایئر لائن بنائی۔ جنرل یحییٰ خان آئے تو انہوں نے تین سو تین بیورو کریٹ گھر بھیج دیئے ۔انہی دنوں اعتزاز احسن سی ایس ایس کے امتحان میں اول آئے تھے اور وہ سی ایس پی بننے سے صاف انکاری نظرآئے۔ بھٹو صاحب نے اپنا رعب جمانے کے لیے تیرہ سو سرکاری ملازم فارغ کردیئے۔ اکثر ہر الزام کرپشن کا تھا جوکہ سراسر غلط تھا۔ اچھے وقتوں میں آزاد اور طاقت ور انتظامیہ سیاست دانوں کو کرپشن سے روکتی تھی اس لیے سیاسی حکمرانوں نے بیورو کریسی کو اپنے گھر کی باندی بنالیا ہے۔
سی ایس ایس کا امتحان پاکستان میں مقابلے کا اعلیٰ ترین ٹیسٹ ہے لیکن پیپرز کے معیار کی طرف دیکھیںتو مایوسی ہوتی ہے۔ مثلاً 2000 ء میں اسلامیات میں ایک سوال پوچھا گیا جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے ''دوسرے مذاہب کے مقابل اسلام کی عظمت اور برتری کو ثبوت کے ساتھ بیان کریں‘‘۔ اسی طرح 2003 ء میں پاکستان افیئرز کے پیپر میں سوال تھا کہ ''انگریز اور ہندو کی سازش سے آزادی کے وقت جوپاکستان بنا وہ قائداعظم کے ذہن میں موجود طاقتور پاکستان کے تصور کے مطابق نہیں تھا۔ تشریح فرمائیے‘‘ ان سوالوںسے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہماری حکومت کو ایسے تابعدار افسر درکار ہیں جنہیں ریاستی بیانیہ اچھی طرح حفظ ہو ، اس امتحان کے نتیجے میں ہمیں کوئی جی احمد کوئی الطاف گوہر کوئی ظفرالاحسن نہیںمل سکتا، ہمیں ایسے افسر ہی ملیں گے جنہیں وزیراعلیٰ پنجاب آئے دن معطل کرتے رہتے ہیں۔ انتظامی امور میںہمارے ہاںایسے ایسے بے مغز تجربے ہوئے کہ آزاد انتظامیہ کا خواب ہی کافور ہوگیا۔ ان میں سے آخری تجربہ جنرل مشرف کے ضلعی ناظم کا تھا۔ بھلا ایک سیاسی ناظم اپنے ہی علاقے میں نیوٹرل امپائر کیسے بن سکتا تھا جن لوگوں سے اس نے ووٹ لینے تھے ان پر ضرورت پڑنے پر کیسے لاٹھی چارج کراسکتا تھا۔لہٰذا اب ہم پھرسے پرانے سسٹم کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ پاکستان کا یہ دائروں میں سفر ایک سعی لا حاصل ہے، وقت کا ضیاع ہے۔
حکمرانوں نے بیوروکریٹ کو اتنا قابو کرلیا ہے کہ نہ ہماری نیب ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے اور نہ ہی ایف آئی اے اور ان اداروں کا کام سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اب ہمارے پاس کوئی جی احمد جیسا افسر نہیں جو حکومت کواعتدال کے مشورے دے۔ زوال کا یہ سفر لمبی داستان ہے جس میں ہمارا کمزور نظام تعلیم ،ناقص نظام امتحان ،کم تنخواہیں سب شامل ہیں۔ ہم عوام کے نہیں حکمرانوں کے ذاتی سرونٹ پیدا کر رہے ہیں، ان عوامل کی تشریح پھر کبھی سہی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں