"JDC" (space) message & send to 7575

ریاض میں کیا ہوا؟

ہم بھی بڑی روندو قوم ہیں۔ بات بات پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اب تین چار روز سے ہر ٹی وی چینل پر اس بات کے مرثیے پڑھے جا رہے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کو ریاض سربراہ کانفرنس میں تقریر کیوں نہیں کرنے دی گئی۔ اینکرز کہہ رہے ہیں کہ ہم دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہیں اور پھر بھی ہمیں اپنے سنہری اقوال سنانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایسے سیاپے کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایٹمی پاور کے دوسرے ہاتھ میں کشکول بھی ہے جسے ہم بلند بانگ دعووں کے باوجود توڑ نہیں پائے۔
سچ پوچھئے تو ریاض کا میلہ صدر ٹرمپ نے لوٹ لیا۔ اپنی الیکشن مہم میں مسلمانوں کو کھری کھری سنانے والا لیڈر اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ایک مسلمان ملک آیا اور یہ وہ اسلامی ملک ہے جہاں ہمارے حرمین الشریفین ہیں۔ سعودی اور عرب لیڈروں سے میٹھی میٹھی باتیں کیں پہلے ہی روز سعودی عرب کے ساتھ ایک سو دس 110 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا فوری معاہدہ کیا۔ یہ ہتھیار ایک سال کے اندر سعودی عرب کو مل جائیں گے۔ لمبی مدت کے معاہدے اس کے علاوہ ہیں جو چار سو ارب ڈالر سے زائد ہیں اور آئندہ دس سال پر محیط ہیں۔ فوری طور پر سعودی عرب کو جنگی جہاز‘ ہیلی کاپٹر اور ٹینک ملیں گے۔ ان معاہدوں سے امریکہ میں لوک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ کمپنیوں کے مزے ہو گئے۔ پچیس ارب کا معاہدہ صرف جنرل الیکٹرک سے ہوا ہے۔ ان معاہدوں سے امریکہ میں ہزاروں جاب نکلیں گے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے ریاض میں ایران کو خوب سنائیں ادھر ایرانی عوام نے صدر حسن روحانی کو دوبارہ منتخب کیا۔ یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ ایران اب عالمی سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف لوٹ رہا ہے لیکن صدر ٹرمپ نے اس واضح حقیقت کو دیکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ڈیل کرنے والے شخص ہیں اور ریاض میں ان کا مال خوب بکا ہے بلکہ اگلے دس سال تک بکتا رہے گا۔ ریاض میں دو روز میں تین سربراہ کانفرنسیں ہوئیں۔ پہلے روز امریکی اور سعودی لیڈرز کی ملاقات ہوئی جس میں مذکورہ بالا معاہدے ہوئے۔ صدر اوباما کے عہد میں دوطرفہ تعلقات میں جو خرابی آئی تھی وہ ایک ہی روز میں کافور ہو گئی۔ شام کو صدر ٹرمپ اور ان کے وفد کو سعودی کلچر کے نمونے دکھائے گئے۔ سعودی شہزادے صدر ٹرمپ کی بیٹی کو عربی کافی پینے کے آداب سکھاتے نظر آئے۔ سعودی لیڈر شپ نے اپنی سوفٹ پاور کو عمدگی سے پروجیکٹ کیا۔
ریاض میں دوسرا بڑا ایونٹ خلیجی امریکی سربراہ کانفرنس تھی۔ صدر ٹرمپ نے خلیجی لیڈروں کو یقین دلایا کہ خطے میں ایرانی مداخلت کے خلاف ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایران آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے سپر پاور تھا۔ عالمی سیاست کو وہ خوب جانتے ہیں وقت آنے پر ایران لچک بھی دکھا دیتا ہے لیکن خارجہ علاقات میں اپنی تاریخی عزت نفس کا ایران کو ہمیشہ خیال رہتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایران کے یورپ کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ ریاض میں تیسری سمٹ عرب اور مسلمان لیڈروں کی صدر ٹرمپ کے ساتھ تھی۔ اُسی شام مجھے ایک معروف عربی چینل نے مدعو کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ بعض مسلم ممالک کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اشارہ واضح طور پر پاکستان کی جانب تھا۔ میں نے جواب میں کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات کبھی آپ کے کام آ سکتے ہیں کیونکہ عالمی سیاست میں کوئی دائمی دشمن نہیں ہوتا۔ شاہ کے زمانے میں ایران اور سعودی عرب شیر و شکر تھے۔ صدر ٹرمپ اور شاہ سلمان کے بعد اگر کسی لیڈر کو ریاض میں بہت زیادہ
اہمیت ملی تو مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی تھے۔ سعودی عرب اور مصر کے تعلقات کی بھی دلچسپ کہانی ہے دونوں ممالک میں عرب دنیا کی لیڈر شپ کے لیے پرانی مسابقت رہی ہے۔ چند ماہ پہلے مصر اور سعودی عرب کے تعلقات کافی کشیدہ تھے۔ مصر شام کے معاملے میں سعودی پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا بلکہ یو این سیکورٹی کونسل میں مصری ووٹ شام کی موجودہ حکومت کے حق میں پڑا یہ دسمبر 2016ء کی بات ہے سعودی حکومت آسان شرائط پر مصر کو تیل دے رہی تھی وہ بھی بند کر دیا گیا۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جنرل سیسی کی حکومت کو سعودی عرب نے فوراً تسلیم کیا تھا اور پھر اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کر دیا تھا۔ 2016ء میں شاہ سلمان مصر گئے پانچ روز کا سرکاری دورہ تھا پچیس ارب ڈالر کے اقتصادی تعاون کے معاہدے ہوئے مصر نے بحراحمر میں واقع دو جزیرے سعودی عرب کو واپس کر دیئے۔ اس ساری گرم جوشی کے باوجود چند ماہ بعد مصر کے تیور پھر بدلنے لگے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ریاض سمٹ میں مصر کو منانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اب لوٹتے ہیں پاکستان کی طرف۔ آخر ہم ایک تقریر نہ ہونے پر اس قدر سیخ پا کیوں ہیں۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ اصل پروگرام کے مطابق سب لیڈروں نے تقریباً تین تین منٹ بولنا تھا۔ شاہ سلمان اور صدر ٹرمپ دونوں کی تقاریر طویل ہو گئیں وقت کم تھا۔ اسی سالہ شاہ سلمان بھی تھکے تھکے لگ رہے تھے چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اسلامی ممالک کے دو دو لیڈر ایشیا اور افریقہ سے بولیں گے اور دو لیڈر عرب ممالک کی 
نمائندگی کریں گے۔ ایشیا کی جانب سے ملائیشیا اور انڈونیشیا کے لیڈر بولے جبکہ عرب ممالک کی نمائندگی مصر اور کویت نے کی۔ اب اگر وزیراعظم نوازشریف کی تقریر نہیں ہوئی تو کون سی قیامت آ گئی کہ عمران خان انہیں بارہویں کھلاڑی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ ڈر ہے کہ عمران خان اگر کبھی وزیراعظم بنے تو خارجہ پالیسی میں جذباتیت آ جائے گی۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ وزیراعظم کو ریاض جانا ہی نہیں چاہیے تھا بے معنی ہے۔ برادر سعودی عرب کی دعوت کو رد کرنا کسی صورت مناسب نہ ہوتا اور اب میں اُس حساس بیک گرائونڈ کی طرف آتا ہوں جس سے یہ مرثیہ خواں اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ ہمیں ہمارے حق سے ذرا کم عزت عرب ممالک میں کیوں ملتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ صدر ضیاء الحق نے سعودی لیڈروں کو کہہ کر اپنے بیٹے کو ریاض میں نوکری دلوائی کیا یہ حقیقت نہیں کہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کا پورا خاندان آٹھ سال تک سعودی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتا رہا۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ایک دن مہمان دو دن مہمان تیسرے دن بلائے جان۔ جنرل مشرف نے خود ٹی وی پر کہا کہ انہیں شاہ عبداللہ مرحوم نے خطیر رقم دی جس سے لندن میں اپارٹمنٹ خریدا گیا اور باقی رقم بینک اکائونٹ میں گئی کیا جنرل صاحب کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ مجھے اللہ اور پاکستان نے بہت کچھ دیا ہے آپ کا بے حد شکریہ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی لیڈروں میں وہ غیرت نہیں جو ہمارے عوام کا خاصا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کو یہ غم بھی کھائے جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاک امریکہ تعلقات کئی مسائل کا شکار ہیں جبکہ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ امریکہ کے بہت قریبی تعلقات بن گئے ہیں۔ تو جناب اگر دنیا میں پاکستان کی وہ عزت کرانی ہے جس کا ہمارا ملک واقعی حق دار ہے تو اپنے لیڈروں کی غیرت جگائیے۔ کشکول کو توڑیئے اپنی اقتصادی حالت بہتر کیجئے اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیجئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں